Posted in Pakistan

متوازن غذا حاملہ خواتین کی اولین ضرورت

Posted On Wednesday, March 11, 2015   …..جویریہ صدیق……
ماں 9 مہینے کی مشقت اور تکلیف کے بعد بچے کو جنم دیتی ہے ۔پھر بہت پیار سے بچے کو پروان چڑھاتی ہے ۔ اس ہی لیے کہا جاتا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ دنیاوی رشتوں میں ماں ہی ایک ایسا بے لوث رشتہ ہے جو بنا کسی غرض کے اپنے بچے سے محبت کرتی ہے۔ماں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس بچے کو ہلکی سی خراش بھی نا آئےاور اس کی تعلیم و تربیت میں کوئی بھی کمی نا ہو۔بس ماں کی کل کائنات اس کی اولاد ہی ہوتی ہے۔کسی بھی عورت کا ماں بننا صرف اس ہی کے لیے نہیں بلکہ اس کے سارے خاندان کے لیے مسر ت کا باعث ہوتا ہے ،گھر کے تمام ہی افراد ننھے مہمان کی آمد کا سن کر ہی اس کے استقبال کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں۔ہر کسی کو انتظار ہوتا ہے کیسے گزرے گا یہ وقت اور ایک چھوٹے ننھے منے سے بچے کی کلکاریوں سے ان کا گھر گونج اٹھے گا۔لیکن اس دوران جو سب اہم بات جو اکثر نظر انداز کردی جاتی ہے وہ حاملہ خاتون کی صحت اور اس کے لیے متوازن غذا کا انتخاب کرنا ہے۔انسانی نسل کی بقا کے لیے ضروری کے ماں صحت مند ہو تب ہی وہ اپنی کوکھ سے ایک صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے۔

راولپنڈی اسلام آباد کی معروف سینر گائنا کولوجسٹ مسز رشید کے مطابق حاملہ خاتون کے شوہر اور اہل خانہ کی ذمہ داری ہے کہ اس کو اچھی غذا اور مکمل آرام فراہم کیا جائے۔بچے کی اعضاء کی مکمل نشوونما اس کی دماغی صحت کے لیے ضروری ہے کہ ما ں مکمل متوازن غذا کا استعمال کرے۔اگر اسے مناسب غذا نا ملے تو بچہ کمزور پیدا ہوگا اور اس میں قوت مدافعت بھی کم ہوگی۔اگر ماں غذائی کمی کا شکار ہو تو دوران زچگی خود اسکی اور بچے کی جان کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور بعض اوقت قبل از وقت پیدایش کا بھی باعث بنتا ہے۔

دوران حمل جن غذائی اجزا کا استعمال ناگزیر ہے وہ کچھ یوں ہیں۔غذا میں لحمیات، نشاستہ،وٹامن ، چکنائی ، کیلشیم ، منرل ، فولاد اور پانی کا استعمال ضروری ہے۔حاملہ خاتون اپنی غذا میں دودھ، دہی، انڈا، مچھلی، پنیر، مرغی گوشت شامل کرے ،یہ اس کے اور بچے کے خلیات کی نشوونما میں اہم کردار ادا کریں گے۔اس کے ساتھ دالوں اور اناج میں بھی لحمیات یعنی پروٹین کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے ۔پورے دن میں70گرام پروٹین کا استعمال کافی ہے۔ حاملہ خاتون کو اپنی غذا میں نشاستے کا استعمال بھی متوازن رکھنا چاہئے۔ نشاستہ، پھل ،سبزیوں، چاول گندم،بریڈ، جوار اور باجرہ سے حاصل ہوتا ہے۔اس کے استعمال سے حاملہ ماں اور اس کے ہونے والے بچے کی قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔

لحمیات اور نشاستے کے بعدحاملہ عورت کے لیے ضروری ہےکہ وہ مناسب تعداد میں چکنائی کا استعمال بھی کرے۔ چکنائی ماں کی کھوکھ میں موجود بچے کی آنکھوں ، نروس سسٹم اور دماغی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔چکنائی حاملہ ماں کو دودھ سے بنی ہوئی اشیاء،گوشت، میوہ جات ،بیکری کی اشیاء کیک بسکٹ،مکھن،مارجرین،چپس ،کریم اور گھی سے ملتی ہے۔30سے 40ملی گرام چکنائی حاملہ ماں کے لیے موزوں ہے۔چکنائی کا زیادہ استعمال ہرگز نا کیا جائے۔ حیاتین یا وٹامن بھی حاملہ ماں اور بچے کے لیے بہت ضروری ہے۔وٹامن اے اور بی کے باعث بچے کی ہڈیوں اور دانتوں کی نشوونما میں مدد ملتی ہے اور وٹامن اے بی دودھ ،انڈوں،گاجروں،پالک ،بروکلی،آلو ، حلوہ کدو میں موجود ہے،حاملہ خاتون کیلئے روزآنہ 700 مائیکرو گرام وٹامن بی اور اے بہت ضروری ہے۔ وٹامن سی ماں اور بچےدونوں میں خلیوں کی حفاظت، قوت معدافت اور فولاد کو جذب کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ ترش پھلوں،آلو،ٹماٹر اور بروکلی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔وٹامن ڈی بھی حاملہ ماں اور اس کے بچے کی ہڈیوں کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس لیے حاملہ ماں کو دودھ اور مچھلی کا استعمال لازمی کرنا چاہیے۔وٹامن ای بچے کے ریڈ بلڈ سیل اور اعصاب کے لیے ناگزیر ہے، حاملہ خاتون میوہ جات، دلیہ ،پالک کے استعمال سے اسے حاصل کرسکتی ہے۔

کیلشیم حاملہ خاتون کی بہت اہم ضرورت ہے کیونکہ بچہ نشوونما کے لیے غذائیت ماں سے لے رہا ہوتا ہے اس لیے ماں جتنی اچھی خوارک لے گی بچہ اتنا ہی صحت مند ہوگا۔کیلشم دہی ، دودھ ، پنیر،آیس کریم ،لسی کے ساتھ ساتھ لوبیا،ہرے پتوں والی سبزییوں،دلیے اور چنوں میں شامل ہے۔دن میں ہزار ملی گرام سے لے کر 13سو گرام کیلشیم لینا ضروری ہے۔فولاد اور فولک ایسڈ بی ایک ایسا غذائی جز ہے جو حاملہ ماں اور بچے کے لیے بہت اہم ہے یہ جسم کے اندر سرخ خلیے بناتا ہے اور حاملہ خاتون کو خون کی کمی سے بچاتا ہے۔بچوں میں جلد پیدائش کے خطرے کو کم کرتا ہے،ایک دن میں600 مائیکرو گرام فولک ایسڈ اور27ملی گرام فولاد بہت کافی ہے۔پانی بھی بہت اہم جزو ہے۔

سینئرگائناکولوجسٹ مسز رشید کے مطابق متوازن غذا کے ساتھ یہ بہت ضروری ہے کہ حاملہ ماں کو مکمل سکون اور آرام دہ ماحول دیا جائے۔دوران حمل خاص طور پر خاوند کو اپنی زوجہ کے ساتھ بہت شفقت بھر ارویہ اختیار کرنا چاہئے، اس کے ساتھ سسرال واے بھی حاملہ خاتون کو ہر طرح کے دبائو سے دور رکھیں اور اپنی بہو کو مکمل آرام کرنے کا موقع دیں ۔اس کے ساتھ اس کا طبی معائنہ ضرور کروائیں تاکہ کسی بھی قسم کی پیچدگی سے بچا جاسکے۔ غذا کا متوازن ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر غذا متوازن نہیں ہوگی تو بچے کے قبل از وقت پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے، کچھ کیسز میں زیادہ خون بہنا شروع ہوجاتا ہے۔اس لیے بہت ضروری کہ ماں حمل سے لے کر زچگی اور دودھ پلانے کے عرصے تک متوازن غذا کا استعمال کرے تاکہ وہ خود بھی صحت مند رہے اور اس کا بچہ بھی۔ماں کا بیمار رہنا یا زچگی کے دوران گزر جانا صرف خاندان ہی نہیں بلکے معاشرے کا نقصان ہے ۔رویوں میں تبدیلی اور مناسب طبی سہولیات سے ایک صحت مند معاشرہ پروان چڑھ سکتا ہے۔
Javeria Siddique writes for Jang
twitter@javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10728#sthash.OnBahw76.dpuf

Posted in ChildLabor, human-rights, Pakistan

محنت مزدوری کرتے پاکستانی بچے

محنت مزدوری کرتے پاکستانی بچے

  Posted On Tuesday, December 09, 2014   …..جویریہ صدیق……
پاکستان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد بد ترین مشقت کا شکار ہے،جس عمر میں عام بچے کھلونوں ،کارٹونز چاکلیٹ اور دیگر چیزوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اس عمر کے بارہ ملین بچے پاکستان میں مشقت کا شکار ہیں۔دنیا بھر کے مشقت کرنے والے بچوں کے لحاظ سے بدترین ممالک میں پاکستان کا نمبر چھٹا ہے۔بچے سے مشقت بہت سی صورتوں میں لی جاتی ہے جن میں صنعتوں میں مزدوری،معدنیات نکالنے کے لیے کان کنی،اینٹوں کے بھٹوں پر اینٹیں بنوانا،گھروں میں ملازم بنا کر کام کرانا،گلی کوچوں میں چیزیں بیچنا،ورکشاپ میں گاڑیوں کی مرمت کرتے بچے،کاشتکاری کرتے بچے اور ہوٹلوں میں گاہکوں کے جھوٹے برتن صاف کرتے تمام ہی بچوں سے مشقت کرنے کی مختلف اقسام ہیں۔
پاکستان میں بچوں سے مشقت کروانے کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں جن میں غربت،وسائل کی کمی اور آبادی میں بے تحاشہ اضافہ شامل ہے۔بہت سے افراد اپنے خاندان کا پیٹ نہیں پال سکتے اس لیے بچوں کو جبری مشقت پر بجھوا دیتے ہیں کچھ بچے گلی کوچوں میں کام کرتے ہیں تو کچھ گھروں اور کارخانوں کی چار دیواری میں۔ان بچوں کا استحصال اس ہی وقت سے شروع ہوجاتا ہے جب ان کو گھر کی دہلیز سے نکالا جاتا ہے۔ماں کی آغوش اور باپ کی شفقت سے محروم یہ بچے جب باہر کام کرتے ہیں تو ان کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اجرت کم دی جاتی ہے،تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے، ان کی غذائی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا،انہیں موسم کے لحاظ سے لباس مہیا نہیں کیا جاتا اور بعض اوقات یہ بچے جنسی تشدد کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم سپارک کے شعبہ ریسرچ کے ہیڈ حمزہ احسن کے مطابق غربت اور بے روزگاری وہ بڑی اہم وجہ ہے جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو گھر سے باہر ملازمت کے لیے بھیج دیتے ہیں۔جب گھر میں کھانے والے زیادہ ہوں اور کمانے والے کم تب والدین بچوں کی آمدنی کا سہارا لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
عام طور پر بچوں کو مالکان انتہائی کم اجرت پر ملازم رکھتے ہیں ۔اس کے حوالے سے نا ہی کوئی نگرانی کی جاتی ہے نا ہی حکومت دلچسپی لیتی ہے ۔بچوں کے والدین چونکہ غریب ہوتے ہیں اس لیے وہ بھی کم اجرت پر خاموش ہی رہتے ہیں دو ہزار تیرہ میں کیے گئے سروے کے مطابق دس سے پندرہ سال کی عمر کے تقریباً چار عشاریہ چار فیصد بچے ملک کی افرادی قوت کا مستقل حصہ ہیں۔لیکن دس برس کے بچے اس سروے کا حصہ نہیں ایک اندازے کے مطابق دو عشاریہ اٹھاون ملین بچے وہ ہیں جو دس سال سے کم عمر ہیں۔
بین الاقوامی قوانین برائے لیبر کی شق سی ١۳۸ کے مطابق ملازمت کی کم ازکم عمر پندرہ سال ہے۔اگر ملکی قوانین اجازت دے تو بارہ سے پندرہ سال کے بچے کو ملازمت دی جاسکتی ہےلیکن اس کے تحفظ کے ساتھ کہ یہ ملازمت بچے کی جسمانی اورذہنی صحت پر کوئی اثر نہیں ڈالے گی اور نا ہی اس کی تعلیم متاثر ہوگی۔پاکستان بھی اس قانون کو مانتا ہے اور پاکستان کے قانون میں بھی مزدور کی عمر کم سے کم عمر چودہ سال رکھی گی ہے اور آئین کی شق پچیس ﴿اے کے مطابق مفت تعلیم ہر بچے کا حق ہے لیکن اس پر عمل درآمد بالکل نظر نہیں آتا۔
پاکستان میں بچوں کو غلام بنانے سے لے کر گھریلو ملازم تک جبری مشقت سے لے کر منشیات کے کاروبار میں استعمال کرنے سے لے کر انہیں خود کش حملوں اور دہشت گردی میں استعمال کا ظلم جاری ہے۔اس کی بڑی وجہ ہمارے معاشرتی رویے اور قانون پر عمل درآمد نا کرنا ہے۔اس وقت ان بچوں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔اگر بچہ اپنی گھریلو مجبوریوں کی باعث گھر سے کام کرنے نکلا ہے تو اس سے ایسے کام لیے جائیں جو اس صحت ذہنی اور جسمانی دونوں کے لیے نقصان دہ نا ہو۔ایسے بچوں کو پانچ سے سولہ سال تک حکومت مفت تعلیم فراہم کرے۔اگر کوئی بھی شخص بچوں سے خطرناک مزدوری کروائے تو اس پر جرمانہ عائد کیا جائے یا قید کی سزا سنائی جائے۔مزدور بچوں کی کم سے کم اجرت کو بڑھایا جائے۔جبری مشقت کا خاتمہ صرف قانون نفاذ کرنے والے ادارے ہی ختم کرواسکتے ہیں جہاں بھی مزدور بچوں کو غلام بنا کر کام کروایا جارہا اسکے خلاف آواز بلند کریں اور قانون نفاذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کریں۔گھریلو ملازم بچے کو مناسب رہائش ،بروقت تنخواہ کی ادائیگی،طبی سہولیات،مناسب لباس مہیا کیا جائے اور ہر طرح کی جسمانی سزا سے حفاظت یقنی بنائی جائے۔
قومی اسمبلی میں بیٹھے قانون سازوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ مزدور بچوں کے حقوق کے لیے موثر قانون سازی کریں۔جو بھی قانون سازی ہو وہ آئی یل او کے کنونشنز کے مطابق ہونی چاہیے۔ سپارک کے حمزہ احسن کے مطابق اگر کوئی بچہ اپنے حالات یا غربت کے باعث مزدوری کرنے پر مجبور ہے تو یہ حکومت کا فرض ہے کہ بیت المال سے اسکے لیے وظیفہ مقرر کرے اور اسکی تعلیم کا ذمہ بھی خود لے۔پاکستان کے بیشترسکول شام میں خالی ہوتے ان تمام بچوں کو شام کو بلایا جاسکتا ہے اور وہ تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔ اگر والدین کو مکمل طور پر خود کفیل کردیا جائے تو بچوں کو کام کرنے کی ضرورت ہی پیش نا آئے اور اگر بچوں سے کام لینا مقصود ہو تو سکول میں بھی انہیں ہنر سکھا کرآمدنی کا ذریعہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔
ہم ان سب مشقت کا شکار بچوں کی ملازمت ایک دم سے تو نہیں چھڑوا تو نہیں سکتے لیکن تعلیم اور شفقت سے ہم انہیں ایک بھرپور اور کامیاب زندگی جینے کا موقعہ دے سکتے ہیں۔کارخانے دوکان یا گھر کہیں بھی ایک چھوٹا بچہ ملازمت کرتا نظر آئے تو اگر آپ میں ایک بھی اسکی تعلیم کا ذمہ خود لے لیے تو وہ بچہ سارا زندگی غربت کی چکی نہیں پسے گا۔مشقت کرنے والوں بچوں سے پیار سے پیش آئیں اور ان کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ان کو تضحیک کا نشانہ نا بنائیں ان کی مالی امداد بھی کریں اور اخلاقی بھی۔
حکومت،این جی اوز،مخیر حضرات سب مل کر ہی اس مسلے پر قابو پا سکتے ہیں کسی بھی انسان کے لیے سب سے خوبصورت دور اس کا بچپن ہوتا ہے اس لیے ہمیں اپنے اردگرد بہت سے انسانوں کے اس خوبصورت دور کو بد صورت ہونے سے روکنا ہے۔بچوں پر ظلم و زیادتی،بچوں کو غلام بنانا،بچوں سے بد فعلی،جسمانی سزایں،جسم فروشی اور دہشت گردی میں بچوں کا استعمال ان کی آنے والی زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے اور بہت سے بچے اس باعث اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اس لیے ہم سب کو مل کر ان کے لیے کام کرنا ہوگا ۔صرف حکومت کا اقدامات سے ہم ان مسائل کو قابو نہیں کرسکتے ابھی اٹھیں اپنے گھر میں کام کرتے ہویے بچے کا ہاتھ نرمی
سے روکیں اور اس کے ہاتھ میں کتابیں تھما دیں۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10435#sthash.cD1wkR1F.dpuf

Posted in Uncategorized

حفاظتی ٹیکوں کا عالمی ہفتہ

April 30, 2014   …جویریہ صدیق…
24تا 30اپریل حفاظتی ٹیکوں کے عالمی ہفتے کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس ہفتے کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں حفاظتی ٹیکہ جات کی افادیت کو اجاگر کرنا ہے۔ نو مولود بچوں میں قوت معدافت بہت کم ہوتی ہے اس لیے وہ جلد بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔پولیو،خناق، تشنج، پیپاٹایٹس، ٹی بی، کالی کھانسی، خسرہ، نمونیا اور گردن توڑ بخار سے پاکستان میں ہر سال سات لاکھ سے زائد بچے اپنی جان سے چلے جاتے ہیں۔ ان اموات کی بڑی وجہ پاکستان میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے نا لگوانا ہے۔حفاظتی ٹیکے صرف چھ بار لگوانے پڑتے ہیں جن سے بچوں کو نو مہلک بیماریوں سے بچایا جاسکتا ہے۔

بچے کو پیدائش پر دو ویکسین دی جاتی ہیں جن میں پولیو ویکسن اور بی سی جی ویکسین شامل ہے۔پولیو ویکسین بچے کو پولیو سے بچاتی ہے پولیو زیادہ تر تین سال سے کم عمر بچوں کو ہوتا ہے اس بیماری میں بچوں کے جسم کا ایک حصہ مفلوج ہو جاتاہے لیکن اگر بچے کو ویکسین دے دی جائے تو وہ اس بیماری سے محفوظ رہتاہے۔بی سی جی کا انجکشن بچے کو ٹی بی سے لڑنے کی قوت مدافعت دیتا ہے۔اگر بچہ اس بیماری میں مبتلاہو جائے تو اس کا وزن نہیں بڑھتا اور وہ مسلسل بخار اور کھانسی کا شکار ہوجاتا ہے۔

بچے کو پیدائش کے چھ ہفتے بعد ایک بار پھر پولیو سے بچاوٴ کے قطرے دیے جاتے ہیں کیونکہ یہ بیماری ہوا،پانی اور خوراک سے انسانی جسم میں داخل ہوتی ہے۔ پولیو ویکسین کے علاوہ بچوں کو چھٹے ہفتے میں پینٹا ویلنٹ ون ڈی پی ٹی،ایچ بی،ایچ آئی بی انجکشن دیے جاتے ہیں۔ یہ ٹیکہ جات کا کورس نومولود کو خناق، تشنج، کالی کھانسی، گردن توڑ بخار اور ہیپاٹایٹس بی سے محفوظ رکھتا ہے۔ خناق ایک ایسی بیماری ہے جس میں گلے میں شدید دکھن ہوتی ہے اورگلے کے غدود کا اردگرد کا حصہ بھی سوج جاتا ہے اس کے باعث بچہ بخار اور اعصابی کمزوری کا شکار ہوجاتاہے۔ کالی کھانسی میں بھی مبتلا ہونے کی بڑی وجہ بھی یہ ہی ہے کہ بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس نہ کروایا جائے۔ اس بیماری میں سانس کی نالی میں خراش اور سوجن پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے بچے شدید کھانسی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ گردن توڑ بخار بھی وبائی بیماری ہے۔ اس بیماری میں مرض سانس اور کھانسی سے دوسروں میں منتقل ہوتا ہے۔ اس بیماری میں بخار جوڑوں کا درد، کھانسی، نمونیا کے باعث نو مولود بچوں کی جان جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے تاہم پینٹا ویلنٹ ون سے اس پر بہت حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔

بچوں کو پیدائش کے دس ہفتے بعد ایک با ر پھر پولیو سے بچاوٴ کے قطرے پلائے جاتے ہیں اور پینٹا ویلنٹ ٹو ڈی پی ٹی، ایچ بی، ایچ آیی بی ٹیکہ جات بھی لگتے ہیں۔ یہ ٹیکے بچے کو خناق، تشنج، کالی کھانسی، گردن توڑ بخار اور ہیپاٹائٹس بی سے مقابلہ کرنے کے لیے قوت مدافعت فراہم کرتے ہیں۔ تشنج کسی بھی زخم کے ذریعے جسم میں انفیکشن کی صورت میں پھیل سکتا ہے۔اس میں جسم کے پٹھوں میں شدید کھنچاوٴ پیدا ہو جاتا ہے اور موت واقع ہو سکتی ہے لیکن پینٹا ویلنٹ بچوں کو اس معتدی مرض سے بچاتی ہے۔ یہ ٹیکہ جات بچوں کو ہیپاٹائٹس بی سے بھی بچاتے ہیں، یہ بیماری بھی متعدی ہے اس بیماری میں بخار، قے اور جوڑوں میں درد عام ہے۔

پیدائش کے چودہ ہفتے کے بعد ایک بار پھر بچوں کو پولیو سے بچاوٴ کے قطرے اور اور پینٹا ویلنٹ تھری ڈی پی ٹی، ایچ بی، ایچ آئی بی کی ڈوز دی جاتی ہے۔ بچے کو نو ماہ کی عمر میں خسرہ سے بچاوٴ کے لیے ٹیکہ لگایا جاتا ہے اور دوسرا ٹیکہ ڈیرھ سال کی عمر کے بعد۔ خسرہ میں بچے زکام کھانسی کے ساتھ ساتھ سرخ رنگ کے دانوں کا شکار ہو جاتے ہیں اگر اس کا مکمل علاج نہ کیا جائے تو یہ موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

حفاظتی ٹیکوں کے ذریعے بچوں میں مزید قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے اور بتائے گئے ٹیکے اور ویکسین بچوں کو لگوانا بہت ضروری ہے۔ وزیر مملکت برائے نیشنل ہیلتھ سروس سائرہ افضل تارڑ کے مطابق پاکستان میں بھی اس ہفتے کو منانے کا مقصد عوام میں حفاظتی ٹیکہ جات کے حوالے سے شعور کو اجاگر کرنا ہے ان کے مطابق والدین کو اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکہ جات کا کورس ضرور مکمل کروانا چاہیے تاکہ ان کے بچے ایک صحت مند اور لمبی زندگی گزار سکیں۔ وزیر مملکت کے مطابق تمام اسپتالوں میں یہ حفاظتی ٹیکے مفت لگائے جاتے ہیں۔

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر سال پیدائش کے ایک ماہ کے اندر 30لاکھ بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس ملک میں ماں باپ کو ادراک کرنا ہوگا کہ اگر انہیں بچوں کی زندگی عزیز ہے تو قدامت پسندی کو خود سے علیحدہ کرکے بچوں کو پولیو ویکسین اور حفاظتی ٹیکوں کا کورس ضرور کروائیں۔

اگر والدین ایسا نہیں کریں گے تو ان کے بچے موت کے منہ میں جاسکتے ہیں یا پھر ساری زندگی کے لیے معذوری کا شکار ہوسکتے ہیں لیکن مکمل علاج، حفظانِ صحت کے اصول اور حفاظتی ٹیکہ جات کے ذریعے سے قوم کے مستقبل کو مفلوج ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔

Javeria Siddique is a Journalist and Award winning photographer.

Contact athttps://twitter.com/javerias  

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9777#sthash.7RFlcozH.dpuf

Posted in Uncategorized

تھرکی افسوسناک صورتحال

March 11, 2014  

…جویریہ صدیق…
تھر کے بچوں کو بھوک اور افلاس نگل رہی اور الزامات کی سیاست عروج پر ہے۔ انسانوں کو کھا نا میسر ہے نا ہی مویشوں کو چارہ۔ تھر میں اب تک ایک سو اکیتس سے زائد بچے جان بحق ہوچکے ہیں اور دو لاکھ سے زائد خاندان متاثر ہیں۔ غذائی قلت اور قحط سالی کے حوالے سے جب میڈیا پر خبریں آئیں تو سندھ حکومت جاگی کہ عوام کی مدد کے لیے بھی کچھ کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے وہاں مرنے والے بچے قحط سالی سے نہیں بلکہ دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہوئے ہیں اور سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ سمیت دیگر پی پی لیڈران بھی اس بات کی تائید کرتے رہے تاہم صورتحال اس کے برعکس ہے۔تھر ایک صحرائی علاقہ ہے اور اس سال بارشیں بھی کم ہوئیں جس کے بارے میں حکومت سندھ کو محکمہ موسمیات پہلے ہی آگاہی دے چکی تھی تاہم حکومت سندھ کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور مربوط پالیسی کے فقدان کے باعث تھر میں قحط کی صورتحال پیدا ہوگئی۔
اس وقت تھر میں متاثر بچے اسپتالوں میں شدید کرب سے گزر رہے ہیں کم عملہ، ادویات کی قلت اور جدید مشینری کی کمی کے باعث بہت سی اور اموات کا خدشہ ہے۔جیو پر خبر نشر ہونے کے بعد بہت سے عالمی ادارے اور مخیر حضرات حرکت میں آگئے اور متاثرین تک امداد کا سلسلہ شروع ہوا، تاہم سندھ حکومت نے پہلے تو صرف بیان بازی اور بعد میں ایک تھر متاثرین فنڈ قائم کرنے کو ہی کافی سمجھا۔ تاہم میڈیا اور سوشل میڈیا کی تنقید کے بعد تھر کے دوروں کا آغاز ہوا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ جو کہ سندھ کے وزیر صحت بھی ہیں اور ان کے داماد اقبال درانی سیکریٹری صحت ہیں، انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کہ سرکاری سطح پر گندم کی تقسیم صحیح طور پر نا ہو سکی اور انہوں نے حکومت کی غفلت کا اعتراف کیا۔تاہم اس اعتراف کے ساتھ ساتھ جہاں لوگ تھر میں بھوکے مر رہے ہیں، وہاں وزیر اعلیٰ سندھ کی آمد پر پرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا گیا جس میں انواع اقسام کے کھانے پیش کیے گئے۔ یہ صورتحال افسوس ناک ہے کہ ایک طرف علاقے میں لوگ بھوک افلاس سے مر رہے ہوں اور دوسری طرف افسر شاہی صرف حکومتی ارکان کو خوش کرنے میں مصروف اور جہاں لوگ ایک ایک دانے کو ترس رہے ہوں وہاں دوسری طرف ظہرانے میں ملائی تکہ، ریشمی کباب، مٹن بریانی، ذردہ موجود ہوں افسوس کا مقام ہے۔
دس مارچ کو چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف بھی مٹھی تھر پارکر پہنچ گئے ان کے دورے سے پہلے تما م سڑکیں صاف کی گئی، تما م دکانیں، بازار بند کروادیے گئے اور ستم ظریفی تو ملا حظہ ہو واحد سرکاری اسپتال کے دروازے بھی سیکورٹی کے نام پر بند کردیے گئے اور مریض بے یارومدگار در بدر ٹھوکریں کھاتے رہے۔ وزیراعظم نے ایک ارب روپے امداد کا اعلان کیا اور ساتھ ساتھ حکومت سندھ سے اس صورتحال پر انکوائری کرنے کا حکم دیا اب وزیر اعلیٰ جو خود ہی وزیر صحت بھی ہیں، کیا کاروائی کریں گے؟ اور کس کے خلاف؟ یہ محکمہ تو ان کے خاندان کے ہی ماتحت ہے۔
صرف تھر کی کیا بات کریں سندھ کے چوبیس میں سے آٹھ دیگر اضلاع بھی غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اور بات ہو اگر پورے پاکستان کی تو اس وقت پاکستان کی اڑتالیس فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے اور کہنے کو یہ زرعی ملک ہے۔وقت کی ضرورت اس وقت صرف اعلانات یا انکوائریاں کروانے کا نہیں بلکے یہ وقت فوری طور پر تھر کے متاثرین کو امداد پہنچانے کا ہے۔ان کو اس وقت امرا کے دوروں یا اعلانات کی نہیں، اناج کی ضرورت ہے ان کو فوری طور پر پانی، بسکٹ، دودھ، کپڑوں اور خیموں کی ضرورت ہے۔تھر میں لوگ امداد کے منتظر ہیں، گندم کی تقسیم کا کام بہت سست روی سے جاری ہے مانگنے والے بہت ہیں لیکن دینے والے بہت کم۔آٹا، چاول، دودھ سب ہی تھر میں نا پید ہے اس لیے ہم سب کو تھر کے عوام کی مدد کے لیے کھڑا ہونا ہوگا اور حکومت کو ایسی پالیسیاں بنا نا ہوں گی جس سے خشک سالی، قحط سالی اور غذائی قلت پر قابو پایا جاسکے اور اس مجرمانہ غفلت پر محمکہ خوراک کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے۔

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9637#sthash.G8l5oYd3.dpuf