Posted in Pakistan

آزادی انقلاب مارچ اور صحافی

آزادی انقلاب مارچ اور صحافی

Posted On Wednesday, September 03, 2014   …….جویریہ صدیق…….پاکستان میں صحافیوں کے لیےحالات سازگار کبھی نہیں رہے لیکن پاکستانی صحافیوں نے حالات کا مقابلہ ہمیشہ جوانمردی سے کیا۔ کبھی دہشت گردوں تو کبھی سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ کا سامنا کیا تو کبھی خفیہ ہاتھ ان کے کام میں روڑے اٹکاتے رہے لیکن پھر بھی صحافی دن رات محنت کرکے سچ اور حقایق عوام کے سامنے لا تے رہے۔پاکستان میں اب تک 75صحافی اور 6میڈیا ورکرز فرایض کی ادائیگی کے دوران اپنے جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ان میں سے 60فیصد صحافی سیاسی جماعتیں کور کیا کرتے تھے، باقی ہیومین رایٹس، کرپشن، کرائم اور وار رپورٹ کیا کرتے تھے۔ صحافیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آزادی اور انقلاب مارچ کا اعلان کیا۔ آغاز سے ہی رپورٹرز نے پل پل کی خبر ناظرین تک پہنچائی لیکن پھر بھی دوران مارچ کارکنان نے میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں کا آغاز کردیا۔ سب سے پہلے تحریک انصاف کے کارکنان نے آبپارہ میں جیو کی ڈی ایس این جی وین پر حملہ کیا اور خاتون صحافی سمیت عملے کو ہراساں کیا اور دو گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا۔ عمران خان کے تندوتیز جملوں نے جلتی پر تیل ڈالا اور اگلے ہی دن دو اور جیو نیوز کے سینئر صحافی تحریک انصاف کے کارکنوں کے عتاب کا نشانہ بننے اور جیو کے کیمرہ مین کو زدوکوب کرکے اس کا کیمرہ توڑ دیا گیا۔ با ت صرف یہاں تک ختم نہیں ہوئی 22اگست کو ڈی چوک میں پھر جیو نیوز کی ٹیم کو کوریج کے دوران نشانہ بنایا گیا اور ڈی ایس این جی کے سسٹم کو زبردستی بند کروادیا۔ اس کےساتھ ساتھ دو بار جیو اور جنگ کے دفاتر پر پتھراؤ کیا گیا جس سے بلڈنگ کے بیشتر شیشے ٹوٹ اور عملے کو ہراساں کیاگیا۔ جیو اور جنگ گروپ کی جانب سے پر امن رہنے کی معتدد اپیلیں کی گیئں تاہم تحریک انصاف کے کارکنان اشتعال انگیری سے باز نہیں آئے۔

دوسری طرف ہفتے کو ڈی چوک میں پولیس نے میڈیا کوریج کے لیے موجود صحافیوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 7نجی چینلز کے 6رپورٹرز، 18کیمرہ مین اور 4میڈیا ورکرز زخمی ہوئے۔ ان کو زدوکوب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مائیک اور کیمرے بھی توڑ دئیے گئے۔ دونوں ہی واقعات میں اعلیٰ حکام اور سیاسی قیادت کی طرف سے زبانی مذمت تو آگئی لیکن نقصان کا ازالہ یا مدد نہیں فراہم کی گئی۔ پی ایف یوجے کے صدرافضل بٹ نے اس صورتحال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ملک بھر میں صحافتی تنظیموں کی طرف سے پر امن احتجاج کی کال دی ہے، ان کے مطابق صحافیوں پر حملے افسوس ناک ہیں لیکن صحافیوں کو بھی چاہیے کہ وہ غیر جانبدار ہوکر رپورٹنگ کریں اور سنسنی پھیلانے سے گریز کریں۔ آزادی اور انقلابی مارچ میں جہاں پرایویٹ میڈیا تو نشانہ بنا ہی وہاں پر سرکاری ٹی وی پی ٹی وی کو بھی نہیں بخشا گیا۔ شاہراہ دستور سے صرف چند منٹ کے فاصلے پر پی ٹی وی کی عمارت واقع ہے، پیر کی صبح تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے سینکڑوں کارکنان نے پی ٹی وی کی عمارت پر حملہ کیا اور اس پر قابض ہوگئے۔ مسلح کارکنان نے ٹی وی کے کنٹرول روم پر قبضہ کرکے پی ٹی وی کی نشریات بند کروادی۔ بعد میں پاک فوج کے افسران اور جوان جوکہ اس وقت ریڈ زون کی سیکورٹی پر مامور ہیں، ان کی مداخلت پر مظاہرین نے عمارت خالی کر دیاس کے بعد مظاہرین نے اپنی توپوں کا رخ پر جیو کی طرف کردیا اور جیو نیوز کے رپورٹرز کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ ڈی ایس این جی پر ڈنڈے برساتے رہے۔ اس ساری صورتحال پر صحافیوں کی عالمی تنظیم آئی ایف جے نے کہا ہے کہ پاکستان میں جاری مارچ میں صحافیوں پر پہ در پہ حملوں نے میڈیا کے لیے حالات کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ پولیس کا کام صحافیوں کی حفاظت کرنا ہے، ان پر تشدد کرے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ آئی ایف جے کے ڈائریکٹر جین ورتھنگٹن نے کہا ہے کہ پاکستانی صحافی بہت مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔ صحافیوں پر حملے قابل مذمت ہیں حکومت اور سیاسی جماعتیں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ اختلاف جمہوریت کا حسن ہے اس لیے دیگر طبقہ فکر کے مؤقف کا احترام کریں اور چینلز کو آزادی کے ساتھ سب کا مؤقف بیان کرنے دیں۔ ان کے مطابق سیاسی جماعتیں آزادیٔ رائے پر قدغن نہ لگائیں۔ پی ٹی وی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ نے کہا کہ سیاسی کارکنان کے طرف سے سرکاری ٹی وی پر حملہ افسوس ناک ہے، اس معاملے فوری طور پر چھان بین کی جائے اور صحافی بنا حفاظتی اقدامات کے کوریج سے گریز کریں یا فاصلہ رکھ کر کوریج کریں۔ آئی ایف جے نے پاکستانی صحافیوں کے لیے حفاظتی ہدایت نامہ جاری کیا جو اس وقت آزادی اور انقلابی مارچ کور کررہیں۔اس کے مطابق صحافی مکمل پلان کے ساتھ کوریج کے لیے جائیں، کوشش کریں کہ اپنی ٹیم کے ساتھ رہیں۔ موبائل فون چارج کرکے لے کر جائیں فرسٹ ایڈ کٹ ساتھ رکھیں، آنسو گیس سے بچنے کے لیے ماسک اور چشمے ساتھ رکھیں۔ شوخ لباس پہننے سے گریز کریں، کھلے کپڑے پہنیں اور آرام دہ جوتے پہن کر جائیں۔بالکل چھوٹا سا بیگ لے کر جائیں جس میں پانی اور کھانے کی اشیاء ہوں۔ کوریج کے مقام پر پہنچ کر اپنے آفس کےشناختی کارڈ چھپا کر رکھیں، اگر ہجوم مشتعل ہے تو لوگوں بھی استعمال نہ کریں۔ لوگوں سے فاصلہ رکھیں اور کسی کا انٹرویو لینا مقصود ہو تو اس شخص کو ہجوم سے الگ لے جا کر بات کریں۔اگر مارچ کور کرتے ہوئے ہنگامے شروع ہوجائیں تو فوری طور پر بھاگ کر اس جگہ سے دور ہو جائیں،ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹ ہرگز نہ اتاریں۔مظاہرین سے مکمل دور رہیں، ان کی کسی اشیاء کو ہاتھ نہیں لگائیں۔ اگر پولیس آنسو گیس کا استعمال کرے تو پانی سے منہ پر چھڑکاؤ کریں اور فوری طور پر اپنی عینک اور ماسک پہن لیں۔ اگر ربڑ کی گولیاں فائر ہوں تو فوری طور پر کسی چیز کی آڑ لے لیں۔ آئی ایف جے کے مطابق صحافی ہیلمٹ، آیئ شیلڈ، بلٹ پروف جیکٹ لازمی طور پر استعمال کریں۔ کوریج کے دوران پولیس اور دھرنے کے شرکاء سے نرمی سے بات کریں، سیکورٹی حکام سے مکمل تعاون کریں، ان کو فوراً اپنا آفس کارڈ دکھائیں۔اگر ڈی ایس این جی میں یا آفس کی کار سے کوریج کررہے ہیں تو گاڑی کے دروازے بند رکھیں۔ کیمرہ مین کوشش کریں کہ وہ کسی بلندی سے عکس بندی کریںاور ہجوم سے اجتناب کریں۔

اب چینلز انتظامیہ پر فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے کارکنان کو مکمل حفاظتی اقدامات کہ ساتھ دھرنے اور دیگر اساینمنٹس پر بھجوائیں۔ اس کے ساتھ حکومت انتظامیہ اور سیاسی جماعتیں بھی اپنے لوگوں کو پابند کریں کہ وہ میڈیا کو ان کا کام آزادی کے ساتھ کرنے دیں۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10150#sthash.TiHz0MTA.dpuf

Posted in Uncategorized

انقلابی مون سون

, August 26, 2014   ………جویریہ صدیق………اگست میں انقلابی مارچ کے مون سون نے بہت سےپاکستانیوں کو سیاسی بخار میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس وقت واضح طور پاکستانی تین حصوں میں بٹ گےہیں۔ ایک ہی گھر میں درمیانی عمر کے افراد مسلم لیگ ن کے حامی یعنی حکومت کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے، اس ہی گھر کے نوجوان انقلاب کے لے پر جوش پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے ساتھ کھڑے اور تیسرا طبقہ وہ ہے جو ان دونوں کو یہ سمجھانے میں لگا ہوا ہے کہ پاکستان کسی نئے تجربے کا متحمل نہیں ہوسکتا، سب کی ترجیحات ملک کی ترقی پرمرکوز ہونی چاہیئے ذاتیات پر نہیں۔

موجودہ حالات میں بیشتر پاکستانی ٹی وی کے آگے بیٹھے رہتے ہیں اور دن رات تجزیئے سننے کے بعد خود بھی کافی حد تک مفکر بن گئے۔ جیسے ہی بریکنگ نیوز ٹی وی پر چلتی ہے پاکستانی عوام فوری طور پر فیس بک اور ٹویٹر پر اپنی آرا کا برملا اظہار کرنے لگ جاتے ہیں۔ سب اپنے اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہیں اور اگر کوئی ان سے اختلاف کی جرأت کرے تو اس کو چھٹی کا دودھ یاد دلادیتے ہیں۔ 13دن ہوگئے اسلام آباد میں تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان دھرنا دیئے بیٹھے ہیں، ہر روز ان دونوں پارٹیوں کی طرف سے نئے مطالبات سامنے آجاتے ہیں۔ پرجوش اور جذباتی تقاریر کارکنان کا جوش گرمانے کے لیے کی جاتی ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کبھی وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہیں، کبھی الیکشن کمیشن پر جانبداری کا الزام لگاتے ہیں تو کبھی توپوں کا رخ جیو جنگ گروپ کی طرف کردیتے ہیں اور جس دن کہنے کو کچھ نہ ہو تو اپنی شادی کا شوشہ چھوڑ کر پورے پاکستان کو ہی حیران کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے کبھی حکومت کی بر طرفی کا مطالبہ کیا تو کبھی اسمبلیاں توڑنے کا مطالبہ اور اس دن تو حد ہوگی کہ جس دن کارکنان کو قومی اسمبلی پر قابض ہونے کا کہہ دیا اور کہا کہ یہاں پارلیمنٹ میں شہدا کا قبرستان بنے گا بعد میں خیر وہ اس مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے، کل وہ کفن لیے آئے جس سے عوامی کارکنان کی بڑی تعداد کی آنکھوں سے آنسو چھلک گئے۔ یہ خطابات کا سلسلہ 13دن سے جاری ہے، عوام سڑکوں پر موجود ہیں اور انقلابی اس کو اپنی اخلاقی فتح قراد دے رہے ہیں۔ انقلاب کے خواہاں پاکستانیوں کے مطابق مسلم لیگ ن کی حکومت بری طرح ناکام ہوچکی ہے اس لیے ان کو مستعفی ہوکر گھر واپس جانا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ملک میں دمادم مست قلندر ہوگا۔ اب یہ دم مست قلندر کیا ہوتا ہے سیانے کہتے ہیں کہ رات گئے شاہراہِ دستور پر موسیقی کی دھن پر دم مست قلندر ہی ہوتا ہے خیر لیکن اس سے انقلاب تو آنے رہا۔

دوسری طرف ایک طبقہ حکومت کو سپورٹ کر رہا ہے ان کے مطابق جمہوریت کا تسلسل ملک میں بر قرار رہنا چاہیے اس لیے 2018سے پہلے انتخابات کا خواب نہ ہی دیکھا جائے۔ مسلم لیگ کے حامیوں کے مطابق حکومت نے مظاہرین کو بہت حد تک فری ہینڈ دے رکھا ہے اس لیے اس آزادی کا ناجائز فائدہ نا اٹھایا جائے۔ وزیر اعظم بھی یہ خود کہہ چکے ہیں کہ ٹانگیں نہ کھینچی جائیں اور ہمیں کام کرنے دینا چاہئے۔ جی میاں صاحب اگر آپ چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ سنجیدگی سے لے لیتے اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلتے تو آج یہ حالات ہی نہیں ہوتے۔

خیرآج کل خوب انقلاب کے حامیوں اور حکومت کے حامیوں میں گرما گرم بحث جاری ہے۔گھر ہو سوشل میڈیا، دفاتر ہو یا تفریح گاہیں، یہ دنوں ہر دم بس ایک دوسرے سے لڑنے کو تیار اور اکثر اوقات اس طرح کی سیاسی بحث کا اختتام دوستی کے اختتام کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ اس ساری صورتحال پر پاکستانی غیرجانبدارسنجیدہ طبقہ بہت سے فکرات کا شکار ہے کیونکہ اگر عوامی سطح پر ہم برداشت اور تحمل سے ایک دوسرے کا مؤقف سننے سے گریزاں ہیں تو ہمارے لیڈران سے پھر ہم آپس میں تحمل مزاجی یا مذاکرات کی امید کیوں رکھتے ہیں۔ اس طبقے کے مطابق اب اس تمام سیاسی بحران کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ملک میں انتشار کی کیفیت پھیل گی اور معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔اب لیڈران کو اپنی اپنی انا اور ذاتی عناد کو ایک طرف رکھتے ہوئے ملکی مفاد میں فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ان دھرنوں کو ختم کیا جائے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج کی جائے۔ اپوزیشن اور حکومت با مقصد مذاکرات کرے اور الیکشن کمیشن میں اصلاحات کے لیے ممبران اسمبلی سفارشات مرتب کریں۔

کب آئے گا، انقلاب اور کب ملے گی، آزادی اس کا انتظار تو سب کو ہے لیکن یہ انقلابی مون سون بادلوں سے تو برسنے سے رہا، اس کے لیے ہم سب کو محنت کرنی ہو گی لیکن قوانین اور جمہوریت کے دائرہ کار میں رہ کر۔اس وقت مہنگائی، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی عوام کا بڑا مسئلہ ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے 9لاکھ حکومت اور عوام کی توجہ کے زیادہ مستحق ہیں۔ اس لیے اب سب مل کر سوچنا ہوگا کہ سب کے اپنے اپنے تجزیے تبصرے مفادات زیادہ اہم ہیں یا پاکستان۔ لیڈران کی انا 9لاکھ آئی ڈی پیز سے بڑھ کر تو نہیں اس لیے سیاسی اختلافات کو ختم کرکے فوری طور پر تکلیف میں مبتلا ہم وطنوں کے درد کا مداوا ضروری ہے۔ دنیا ہماری سیاسی ناپختگی کا مذاق اڑا رہی ہے اس لیے ہمیں سیاسی مسائل کو حل کرکے فوری طور پر بین الاقوامی حالات کے مطابق اپنی سفارتی تعلقات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔نہ ہمیں نیا پاکستان چاہیے نہ ہی روشن پاکستان ہمیں صرف قائد اعظم کا پاکستان چاہیے جس میں اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کا تصور موجود ہے۔ بہت ہوا بس اب اس انقلابی بخار کو اتار پھینکنا ہوگا اس میں ہی پاکستان کی بقا ہے۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias

javeria.siddique@janggroup.com.pk   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10110#sthash.j9m4eDGf.dpuf

Posted in Pakistan

دھرنوں کے بجائے کارکردگی پر توجہ

May 13, 2014  

……جویریہ صدیق……
پی ٹی آئی نے 2013ء میں خواب تو اقتدار میں آنے کے دیکھے تھے لیکن قسمت کا لکھا کچھ اور تھا اور کامیابی کا ہما مسلم لیگ ن کے سر پر آکر بیٹھ گیا۔ الیکشن کو ہوئے پورا ایک سال 11مئی کو مکمل ہوگیا تاہم پی ٹی آئی اپنی شکست کو ابھی تک تسلیم نہیں کرسکی۔ 365دن کے بعد پھر زخم تازہ ہوئے اور دھاندلی کا شور مچاتے ہوئے ڈی چوک میں دھرنا دے ڈالا۔ دھرنے کے نام پر بامشکل 15ہزار لوگ جمع ہو پائے اور حاصل وصول کچھ نہیں لیکن عمران خان ایک نئے مطالبے کے ساتھ سامنے آئے کہ جب تک الیکشن کمیشن کی دوبارہ تشکیل نہیں کی جاتی تب تک ان کی جماعت ہر جمعے کو دھرنے دے گی۔ صرف الیکشن کمیشن ہی کو نہیں بلکے ریٹرننگ آفیسرز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بات صرف یہاں تک ہی محدود نہیں رہی بلکے عمران خان نے جیو پر الزامات کی بوچھاڑ کی اور یہ فرماتے رہے کہ جیو ٹی وی بھی اس دھاندلی میں شریک ہے۔ اب ذرا کوئی یہ بتائے کہ ایک ٹی وی چینل دھاندلی میں کیسے ملوث ہوسکتا ہے؟ فافن کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر مدثر رضوی نے ان الزامات کو بچکانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی میڈیا گروپ الیکشن میں دھاندلی نہیں کراسکتا۔

دھرنے میں حکومت، الیکشن کمیشن اور جنگ جیو گروپ پر تنقید تو خوب رہی لیکن عوامی مسائل پر کوئی خاص بات نہیں کی گئی۔ عمران خان نے دھرنے میں کھڑے ہو کر اپنی جماعت پی ٹی آئی کی ایک سالہ کارکردگی پر نظر کیوں نہیں ڈالی؟ کیا پورے سال ایسا کوئی بھی کام نہیں ہوا جو لیڈر موصوف فخر کے ساتھ اپنے چاہنے والے کارکنوں کو گوش گزار کرتے۔ عمران خان کی جماعت نے الیکشن 2013ء کے بعد سب سے پہلے حکومت بنانے میں پہل کی اور صوبہ خیبر پختون خواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت قاثم ہوگی، اب کیا عمران خان اس بات کا جواب دینا پسند کریں گے کہ اس دورانیے میں انہوں نے صوبے کی فلاح و بہود کے لیے کیا کیا اقدامات اٹھاثے؟

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے مطابق 2013ء میں ملک بھر میں 2سو فرقہ وارانہ حملے ہوئے، جن میں سب سے زیادہ عوام پشاور، ہنگو، پارا چنار، کراچی اور کوئٹہ میں جان سے گئے، اب تبدیلی کے دعوے دار عمران خان صرف یہ بتائیں اپنے صوبے کی عوام کے لیے انہوں نے کیا کیا؟ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اب تک عمران خان کے صوبے میں 8سو سے زائد پولیس اہلکار شہید ہوئے عمران خان اور ان کے حکومت نے نمائندوں نے حکومت میں آکر ان اہلکاروں کے لواحقین کی داد رسی کی؟

جون 2013ء سے مارچ 2014ء تک خیبر پختون خواہ میں 93دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 444افراد مارے اور 665زخمی ہوئے۔ کیا عمران خان کی حکومت نے ان مرنے والوں اور ان کے لواحقین کے لیے کچھ کیا؟ اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والے 208شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا گیا کیا عمران خان نے اقلیتی فرقے کی حفاظت کے لیے پورا سال اقدامات کیے ؟ گزشتہ سال ستمبر کے مہینے میں دہشت گردی کے تین بڑے واقعات ہوئے جن میں پشاور میں مسیحی عبادت گاہ میں دو بم دھماکوں نے نتیجے میں 87افراد مارے گئے اور ان گنت زخمی ہوئے۔ پھر پشاور میں ہی بس میں دھماکا ہوا جس میں 19افراد اپنی جان سے گئے اور اس دھماکے کے ٹھیک 2دن بعد پشاور کے قصہ خوانی بازار میں 4افراد نے جام شہادت نوش کیا لیکن عمران خان کی حکومت تو اس وقت دہشت گردوں کے ساتھ فل رومانس میں مصروف تھی تو ایک بار پھر نہ ہی مرنے والوں کو یاد رکھا گیا اور نہ ہی لواحقین کو منہ لگانا پسند کیا گیا۔

بات کریں اگر 2014ء سے لے اب تک عمران خان کا صوبہ آگ میں جلتا رہا، دھماکوں اور حملوں میں شہری مرتے رہے لیکن عمران خان صرف وفاق اور دوسرے صوبوں میں عیب نکلتے رہے۔ 21جنوری کو 6پولیس اہلکار بمع طالب علم چارسدہ میں بم دھاکے کے نتیجے میں جان سے گئے۔ 23جنوری کو 6افراد پشاور میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے۔ 26جنوری کو ہنگو میں 6بچے بارودی مواد پھٹنے کی وجہ سے موت کی وادی میں چلے گیے۔2فروری کو پشاور میں بم دھماکے میں 5شہری ہلاک اور 30زخمی ہوئے اور ان کا جرم کیا تھا، سینما میں فلم دیکھنا اور اس واقعے کے بعد کے پی کے میں متعدد سینما بند ہوگئے۔ 4فروری کو ایک بار پھر قصہ خوانی بازار میں دھماکا ہوا اور 9افراد مارے گئے۔ 10فروری کو ایک بار پھر گھر کے قریب دھماکے میں پشاور کی 4خواتین جان سے گئیں۔ 11فروری کو شمع سینما میں دھماکا ہوا اور متعدد افراد جان کی بازی ہارگئے اور سلسلہ رکا نہیں اب بھی جاری ہے، ان ذکر کیے گیے واقعات سے لے اب تک مزید 45افراد دہشت گردی کی نظر ہوئے۔

چلیں پی ٹی آئی یہ الزام لگاتی ہے کہ وفاق سنجیدہ نہیں کہ ملک کے مسائل حل ہوں لیکن ذرا یہ تو باتیں کہ آپ کس حد تک سنجیدہ ہیں، ان تمام واقعات پر لواحقین کی داد رسی کی؟ بیشتر واقعات میں مزاحمت یا تعزیت بھی سامنے نہیں آئی۔ کیا آپ نے صوبے میں امن و امان کے حوالے سے کوئی پالیسی بنائی کوئی مربوط اقدام اٹھایا؟ نہیں، کیونکہ آ پ کہ دلچسپی تو صرف وفاق میں اقتدار پر قبضہ کرنے پر مرکوز ہے۔

بات ہو اگر آپ کی کابینہ کی تو الیکشن سے پہلے تو بہت وعدے کیے گیے کہ ہم تبدیلی لائیں گے، انقلاب زندہ باد، لیکن ایسا نہیں ہوا، 14وزراء کچھ کم نہیں تھے جو مزید 5کو کابینہ میں شامل کرلیا اور یہ 19بھی صوبہ سنبھالنے میں اب تک نا کام ہی نظر آئے۔ وعدہ تو یہ بھی کیا گیا تھا کہ وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کو پبلک لائبریری میں تبدیل کیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا اور وزیر اعلیٰ کو اس رہائش گاہ کے ساتھ ساتھ دو رہائش گاہیں مزید نواز دی گئیں۔

بات کرتے ہیں پولیو کی اور عالمی ادارہ صحت پشاور کو پولیو وائرس کا گڑھ قرار دے چکا ہے۔ 2013ء میں پولیو کے 91کیس سامنے آئے اور اس سال اب تک 85کیس سامنے آچکے ہیں، جن میں زیادہ تر کیس کے پی کے اور فاٹا سے تھے۔ بات ہو اگر انسدادِ پولیو مہم میں کارکنوں پر حملوں کی تو 40افراد صرف پچھلے سال نشانہ بنے جن میں سے 20کا تعلق خیبر پختون خوا سے تھا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اسی وجہ سے خیبر پختون خواہ میں 25ہزار بچے پولیو ویکسین سے محروم رہ گیے۔ جنوری 2014ء میں صوابی میں پورا حفاظتی ٹیکوں کا مرکز دھماکے سے اڑا دیا گیا لیکن صوبائی حکومت صرف دوسرے صوبوں کے عیب تلاش کرتی رہی۔ عمران خان ان کی باری بھر کم کابینہ نے عملی اقدامات کے بجائے صحت کے انصاف کے نام سے اشتہارات چلانے پر فوقیت دی۔

بات ہو تعلیم کی تو عمران خان کی صوبے میں حکومت کے بعد سے 20اسکول بم دھماکے سے اڑا دیئے گئے جن میں سے ایک اسکول پر حملے روکتے ہوئے اعتزاز احسن طالب علم نے جام شہادت نوش کیا لیکن حکومت نے نہ ہی اسکولوں کی تعمیر کے لیے کوئی اقدامات اٹھائے نہ ہی طالب علموں کی دل جوئی کی۔

خواتین کی بات کریں تو عمران خان کی حکومت قائم ہونے کے بعد صوبے میں غیرت کے نام پر 45قتل سامنے آئے اور ایک سو ستائیس خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات پیش آئے جن میں سے کسی ایک مجرم کو سز ا نہ ہوئی اور یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے۔

اب یہ تو پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے اپنے صوبے خیبر پختون خوا کی صورتحال ہے، اب کیا ایسی صورتحال میں اچھا لگتا ہے کہ اب وفاقی حکومت کو نا اہل، الیکشن کمیشن کو دھندلی کا ذمہ دار اور جیو ٹی وی جیسے معتبر ادارے کو غدار کہیں؟کسی اور پر الزام دھرنے سے پہلے خود اپنے گربیان میں جھانکنا بھی ضروری ہے، اگر یوں روز روز دھرنوں کی کال دیتے رہے تو بچے کچھے کارکنان بھی بد دل ہو کر گھر نہ بیٹھ جائیں۔ اس لیے وقت کا اہم تقاضہ ہے کہ مزید اقتدار کے لالچ کے بجائے جس صوبے میں عوام نے آپ کو منتخب کیا ہے اس کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا جائے وگرنہ اگلے الیکشن میں بھی ملنا ناممکن ہوگا۔

Javeria Siddique is a Journalist and Award winning photographer.

Contact at https://twitter.com/javerias

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9807#sthash.viXjkzKl.dpuf