Posted in Uncategorized

عید، مسلم امہ اور فلسطین

عید، مسلم امہ اور فلسطین

August 05, 2014   …….جویریہ صدیق..

…..مسلم امہ نے عید منائی اور فلسطین نے سوگ۔مسلم ممالک نے عید کی خوشیاں سمیٹی اور فلسطین کے حصے میں آئی بربریت اور موت۔ برونائی دارالاسلام میں جب مسلمان عید کے لیے بیدار ہو رہے تھے اس وقت فلسطین میں اسرائیلی بمباری سے آبادیاں کھنڈرات میں تبدیل ہورہی تھی۔ انڈونیشیا میں جب مسلمان عید کا خطبہ سن رہے تھےفلسطین کے مسلمان صرف بمباری۔ دھماکے اور زخمی ہونے والوں آہ پکار سن رہے تھے۔ملایشیا میں جب فرزندان توحید نے نماز عید ادا کی تو فلسطین میں لوگ شہدا کی نماز جنازہ پڑ رہے تھے۔ بنگلا دیش میں جب مسلمان عید کے نماز کے بعد بغل گیر تھے فلسطین کے مسلمان اپنے پیاروں کے مردہ وجود سے لپٹ کر رو رہے تھے۔ پاکستان میں مسلمان اپنے اہل خانہ میں عیدی بٹنانے میں مصروف تھے تو فلسطینی مسلمان اپنے پیاروں کو لحد میں اتار رہے تھے۔ ایران میں جب عید کے روایتی پکوان کھائے جارہے تھے تو فلسطین میں اس وقت بچے دودھ اور کھانے کے لیے بلک رہے تھے۔ ترکی میں مسلمان تفریح گاہوں میں عید منارہے تھَے، اس وقت فلسطین میں مسلمان قبرستان میں اپنے پیاروں کی قبروں پر آنسو بہا رہے تھے۔ اومان میں جس وقت غریب غربا میں زکوٰۃ تقسیم ہورہی تھی فلسطین میں امیر ترین لوگ بھی مدد کی بھیک مانگ رہے تھے۔ سعودی عرب میں جب شاہ کی طرف سے زائرین میں عید کے تحائف تقسیم کروائے جارہے تھے اس وقت فلسطین میں لوگ بے سرو سامانی کے عالم میں سڑکوں پر موجود تھے۔ شام میں جب مسلمان اپنے خوبصورت مکانات میں رشتہ داروں کی خاطر تواضع کررہے تھے فلسطینی بمباری سے تباہ حال اپنے مکانوں کے ملبے پر افسردہ کھڑے تھے۔ متحدہ عرب امارت میں عید کی خوشی میں آتش بازی ہو رہی تھی اسی وقت اسرائیل نے ایک بار پھر فلسطین پر راکٹ اور بموں کی بوچھاڑ کردی۔ اردن میں جس وقت بازار برقی قمقموں سے جگمگا رہے تھے اس وقت فلسطین میں ماں باپ اپنے بچوں کو بجلی کی عدم دستیابی کی بنا پر اسپتال میں مرتا دیکھ رہے تھے۔ لیبیا میں جب رات کو عید کی ضیافتیں عروج پر تھیں اس وقت فلسطینی فاقہ کشی پر مجبور تھے۔ قطر میں جس وقت مسلمان عید کے لیے لگائے گئے میلوں میں گھوم رہے تھے اس وقت فلسطینی سر چھپانے کا ٹھکانہ تلاش کر ہے تھے۔ مصر میں جس وقت لوگ ٹیلی ویژن پر عید کے پروگراموں سے لطف اندوز ہو رہے تھے اس وقت فلسطین میں اسرائیلی بمباری کی وجہ سے بجلی منقطع تھی۔ باقی دیگر اسلامی ممالک کا بھی یہ ہی حال تھا سب عید میں مگن تھے۔ اسرائیل کی صہیونی فوج نہتے فلسطینیوں پر مظالم ڈھاتی رہی اور امت مسلمہ صرف عید کے مزے میں چور رہی۔ فلسطین لہو لہان تھا 17سو سے زائد بچے عورتیں مرد اپنی جان سے گئے اور 9ہزار سے زائد زخمی ہیں لیکن مسلم امہ کی مجرمانہ خاموشی عیاں ہے۔ 67 سال سے فلسطینی اسرائیل کی بربریت کا شکار ہے لیکن عالمی دنیا کی نظر میں اسرائیل معصوم اور نہتے فلسطینی گناہ گار ہیں۔ اسلامی دنیا جس کو امت مسلمہ کہا جاتا ہے صرف نصابی کتابوں تک محدود ہے، سب کو اپنے مفادات عزیز ہیں، حققیی دنیا میں یہ سب الگ الگ مما لک ہیں۔ تیل اور معدنیات کی دولت سے مالا مال ملک مل کر بھی اسرائیل پر سفارتی دباؤ نہیں ڈال سکتے؟ فلسطین میں معصوم بچوں کو قتل کیا جا رہا ہے، ممنوعہ گیس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ بمباری کرتے وقت حماس نہیں بلکہ شہری آبادیوں، اسپتالوں اور مارکیٹوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ آج اس خطے کے اصل مالک فلسطینی آج صرف 27میل پر محیط رہ گئے، باقی سب پر یہود قابض ہیں۔ کیا جدید دنیا میں بھی کوئی قوم اتنی سفاک ہو سکتی ہے جو اپنے ہمسایوں کے ساتھ اتنا غیرانسانی سلوک کرے۔ جی یہ اسرائیل اتنا ہی سفاک ہے، جو مذہبی اور نسلی بنیادوں پر فلسطینیوں کی آنے والی نسل کو ختم کر رہے ہیں اور بچوں عمر بھرکی معذوری دے رہے ہیں۔ بات یہاں نہیں ختم نہیں ہوتی جو معصوم فلسطینی بچے ان مظالم سے بچ گئے ہیں، ان میں سے بیشتر ماں با پ کے سائے سے محروم ہیں۔ ایک نسل معذور اور دوسری یتیم ……آہ۔ کبھی ایک فوجی گیلاد شاد کا بہانہ کرکے حملہ کرے تو آج ہادار گولڈن کی وجہ سے سینکڑوں معصوم جان سے گیے۔ المیہ تو یہ بھی ہے کہ مسلم ممالک اور مغربی ممالک کے عام عوام تو اسرائیلی بربریت پر سراپا احتجاج ہیں، تاہم ان تمام ممالک کے حکمران نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ کہاں ہیں اسلامی ممالک، امن کے خود ساختہ علم بردار نیٹو ممالک، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور عالمی رفاہی تنظیمیں …….کوئی ہے جو اس بربریت اور ظلم کو روکنے کے لیے آواز بڑھائے۔

لیکن انسانیت تو اسی دن مر گئی تھی جس دن مردہ ماں کے وجود سے جنم لینے والی ننھی شایمہ اسپتال انکیوبیٹر میں پانچویں روز اسرائیلی بمباری کی وجہ سے بجلی کی عدم دستیابی کے باعث جان کی بازی ہار گئی۔آج ایسا محسوس ہورہا ہے ہم سب تو اسرائیل کی بربریت اور ظلم سے ان کے سامنے جھک گئے ہیں لیکن ایک ہی بہادر قوم دنیا میں ہے جس کا نام فلسطین ہے اور فلسطین نے ظلم کے آگے نہ جھکنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔
کوئی لہو کے نشے میں یہ بھول بیٹھا ہے
کہ زخم کھا کے فلسطین ہوگیا ہوں میں
وہ سر بلند فلسطین جس کا سارا بدن
لہو لہو ہے مگرپھر بھی تازہ دم ہے ابھی
اسی لیے تو میرا نام معتبر بھی ہے
اور اہل دل کی نگاہوں میں محترم ہے ابھی
میں پوری ایک صدی کا ہوں عالمی مقتول
اے سال نو مجھے اپنے نصاب میں رکھنا
میں قتل ہوکے بھی فاضل بس اتنا چاہتا ہوں
کہ میرے خون کی شبنم گلاب میں رکھنا
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10010#sthash.tuuqJAmx.dpuf

Posted in Uncategorized

ایک شوہر کی چاند رات ڈائری

, July 28, 2014   ..…جویریہ صدیق……
کہتے ہیں عید تو صرف بچوں کی ہوتی ہے لیکن جس نے بھی یہ کہا ہے جملہ ادھورا کہا کیونکہ عید صرف بچوں کی نہیں خواتین کی بھی ہوتی ہے۔ رہ گئے ہم مرد حضرات تو ہم مساکین کا کیا ہے، ایک نیا سوٹ اور چپل ہماری عید کی تیاری کے لیے کافی ہے لیکن ان خواتین کی تیاری جو رمضان کے پہلے روزے سے شروع ہوتی ہے وہ چاند رات تک بھی ختم نہیں ہوتی۔سحر ی ہو، افطاری ہو، پہلا کام جو ہمیں بتا یا جاتا وہ ہے ماسٹر صاحب سے میرے کپڑوں کا ضرور پتہ کرلینا۔کبھی ان کے جوڑوں کی سلائی کبھِی میچنگ ڈوپٹہ،کبھی پیکو، کبھی ہم رنگ گوٹا کناری سب کام ہمارے ہی ذمہ داری۔یا تو ان کو بازار لے کر جایا جائے یا پھر ہم ہی یہ عجیب وغریب اشیاء بازار سے برآمد کریں۔ بہتر یہی ہے کہ ان کو بازار ہی لے جائیں۔
جیسے ہی عید کا چاند نظر آتا ہے سارے گھر کے کام چھوڑ شیشہ سنبھال کہ کھڑی ہوجاتی ہیں، چاہے بچے روتے پھر رہے ہوں، سینک برتنوں سے بھرا ہو، ہم بھوکے مر رہے ہوں، مگر ان پر چاند رات کو بازار جانا فرض ہے۔ہم اگر جرأت کرکے پوچھ بھی لیں کہ بیگم وہ سارا رمضان جو ہم آپ کو سحری اور افطاری کے اوقات میں بازار کے چکر لگواتی رہیں وہ کیا تھا؟ تو قہرآلود نظر ڈال کر کہیں گی کہ کیا آپ کی بچوں کی عید کی تیاری نہ کروں؟جو آپ کی بہنیں آجائیں گی ان کو عیدی میں کچھ نہیں دینا؟ ہم معصوم سے بن کر کہتے ہیں کہ کیا پچھلے 28دن آپ صرف اپنی تیاری کرتی رہیں؟ بس یہ سننے کی دیر ہوگی کہ وہ رونا دھونا شروع ہوگا کہ اللہ کی پناہ، ہائَے جب سے آپ کے گھر آئی ہو ،ں ملازمہ بن کر رہ گئی ہوں، اگر ذرا سا کچھ اپنے اوپر خرچ کرلیا تو آپ کا دل تنگ پڑ رہا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ ان کا ذرا سا خرچہ ہماری مہینے بھر کی تنخواہ خرچ کرگیا اور اب بھی ان کے دل کے ارمان پورے نہ ہوئے۔
گھر سے نکلیں تو سب سے پہلے یہ درزی کے پاس جائیں گے، سوٹ تیار ہے تو یہ بات باعث مسرت ہوگی، اگر نہیں ہے تو کیا بگاڑ سکتے ہیں درزی کا یا بیگم کا، فوراً کسی بوتیک پر لے جائیں اور ان کو ایک اور جوڑا خرید دیں۔ ڈیزائنر جوڑے سے نیچے تو کچھ لیں گی نہیں، آپ لاکھ کہیں کہ وہ بیگم اس کا (ریپلیکا) نقل لے لو تو کہیں گی کہ آپ کی بیگم ہوکر اب میں سستا جوڑا لوں، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں بالکل بالکل میں تو کسی سلطنت کا سلطان ہوں ناں، لو بیگم اور لو، زہر کا گھونٹ بھر کر ہم یہ بات کہتے ہیں۔جوڑا خرید لیا تو اب جیو کہانی پر آنے والے شہرہ آفاق ڈرامہ سیریل میرا سلطان میں آنے والی ملکہ حورم سلطان جیسی جیولری کی باری آتی ہے۔ نقلی زیورات بیچنے والا دکاندار بھی اتنا جھوٹا ہے کہ کیا کہوں، مسلسل ہماری بیگم کو کہتا ہے باجی یہ بھِی خرید لیں وہ بھی آپ تو بالکل حورم سلطان جیسی ہیں، حالانکہ بیگم تو کھا کھا کر دایا خاتون جیسی لگنے لگی ہیں، لیکن ہم امن و امان کے پیش نظر زبان بندی پر ہی یقین رکھتے ہیں۔جب ہماری بیگم میرا سلطان جیسے ملبوسات اور زیورات سے فارغ ہوجاتی ہیں تو باری آتی ہے جوتوں کی۔ساری دکان کے جوتے نکلوا دیں گی اور آخر میں یہ کہہ کر اٹھ جائیں گی کہ کوئی بھی جوتا اچھا ہی نہیں۔پانچ چھ دکانوں میں سیلزمینوں کو ناکوں چنے چبوا کر آخر میں ایک جوتا لے ہی لیں گی۔ اب نمبر ہے مہندی کا، ہم بچے اٹھائے اٹھائے تھک کر چور ہوجاتے ہیں لیکن نہ اب تک ہماری باری آئی ہے، نہ ہی بچوں۔ ہم یہ سوچ کر خوش ہوجاتے ہیں کہ چلو یہ پارلر میں ہیں تو جب تک ہم گاڑی سے باہر چلتی پھرتی خوبصورتی کو سراہ سکیں گے لیکن پارلر سے مہندی لگواتے وقت بچے بھی ہمیں دے جائیں گی اور گاڑی کے شیشے پر بلائیں لگا جائیں گی۔ہائے ری قسمت بچوں کے ابا کو نوٹس بھی کس نے کرنا ہے۔ بچے ہم سے مختلف فرمائش کرتے رہیں گے، ابا آئس کریم، ابا پاپ کارن، ابا باتھ روم یہ سب ہم ہی کو کرنا پڑے گا۔
ان کے لوازمات کے بعد اب ہماری خریداری کی باری آتی ہے، شہر کے سب سے سستے بازار کی سب سے سستی دکان کا رخ کرتی ہیں اور 70فیصد سیل والی دکان سے ہمیں ایک عدد شلوار سوٹ اور جوتا مل ہی جاتی ہے۔ اس دکان میں اپنے ماتحت لوگوں سے بھی ملاقات ہوجاتی ہے اور وہ بنا عیدی لیے جان نہیں چھوڑتے۔بچوں کی شاپنگ کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ اب ہماری شامت ختم لیکن ابھی ان کو گول گپے چاٹ کھانی ہوتی ہے۔ان کے فولادی ہاتھوں پر تو مہندی لگی ہوئی ہوتی ہے اس لیے ان کو اور بچوں کو ہم ہی گول گپے چاٹ کھلاتے ہیں۔خود تو بھوکے ہی مر جاتے ہیں۔ ان تمام ترچاند رات کی ستم ظریفوں کے بعد جب ہم کہتے ہیں کہ بیگم صبح عید کی نماز کے لیے جلدی اٹھنا ہے چلو واپس چلیں تو کہتی ہیں کہ چوڑیاں تو ابھی رہتی ہیں، مہندی ابھی ہی خشک ہوئی ہے۔
اب ان کو چوڑیاں پہنانے کے لیے لے کرچلو ہم نے مذاقاً پوچھ لیا بیگم آپ کے ہاتھ کے سائز کی چوڑیاں بنتی بھی ہیں تو فوراً ناراض ہو جائیں گی۔اس ناراضگی کو ختم کرنے کے لیے آپ کو مزید شاپنگ کے لیے پیسے نکالنا ہوں گے۔ورنہ یہ جھگڑا میکے تک پہنچ جائے گا۔ بس یہ اس کے بعد بھی اپنی شاپنگ میں مگن پرس، کلپ، میک اپ اور ہم رہیں گاڑی میں سڑتے۔
گھر پہنچ کر بھی سب کام ہم سے ہی کروائیں گی کیونکہ ان کے ہاتھ تو حنا سے مزین ہیں۔ ڈرائنگ روم کی صفائی، بچوں کو کھانا کھلانا اور کچن کے سب کام کرکے جب ہم چار بجے بستر پر دراز ہوتے ہیں۔ تو ٹھیک دو گھنٹے بعدعید کی نماز کے لئے چھے بجے اٹھاتے ہوئے بیگم کہتی ہیںکہ کوئی نماز روزے کی پروا نہیں بس صرف سونے کا شوق ہے، خیر انسان صرف صبر کے گھونٹ پینے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا ہے ۔چاند مبارک، عید مبارک !!
Javeria Siddique is a Journalist and Photographer works for Daily Jang
Contact at https://twitter.com/#!/javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9994#sthash.3cGcbV64.dpuf

Posted in Uncategorized

درزی اور عید

, July 28, 2014   ….جویریہ صدیق…..
عید الفطر پر جتنا مصروف درزی صاحبان ہوتے ہیں شاید ہی اور کوئی ہوتا ہے۔ خواتین جو کپڑوں کی سلائی کی وجہ سے پہلی رمضان سے ان کی دوکانوں کا رخ کرتی ہیں تو سلسلہ 29 رمضان تک جاری رہتا ہے۔ آپ نے خریدا ہوگا کوئی پانچ ہزار والا ڈیزائنر لان سوٹ یا چکن کاری یا پھر کڑھائی سے مزین کوئی شفون کا تھری پیس سب بیکار جا سکتا ہے اگر ماسٹر صاحب آپ کو آپکا جوڑا بروقت سلائی کرکے نہیں دیتے۔
درزی، ٹیلر انکل، ماسٹر صاحب الگ الگ ناموں سے ان کو پکارا جاتا ہے پر کام سب کا ایک ہی ہے کپڑے کبھی بروقت نا دینا۔آپ ان کی اس ہی خاصیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کو سوٹ سلائی کے لیے ماہ رمضان سے پہلے بھی دے آئیں لیکن یہ چاند رات سے پہلے آپ کو سوٹ دے دیں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔جب بھی ماسٹر صاحب کو فون کرو یا تو بند یا پھر مسلسل مصروف۔ دوکان پر کپڑوں کا پوچھنے کے لیے چلے جائو تو بہانے ملاحظہ ہوں باجی گائوں میں ایمرجنسی ہوگئی تھی وہاں چلا گیا تھا۔باجی بجلی نے بہت تنگ کیا ہوا ہے کیا کریں ہم کہاں یو پی ایس لگوا سکتے ہیں۔
اس سے پہلے کے آپ کے تیور بگڑنے لگیں تو کہتے ہیں باجی بس یہ دیکھیں آپ کا ہی سوٹ کا ٹنے لگا تھا کل شام تک تیار ہوجائے گا ۔آہ لیکن وہ شام کوئی پندرہ سے بیس دن کےبعد ہی آتی ہے ۔کبھی آپ کا سوٹ جلدی سلائی ہو بھی جائے تو غیر متوقع طور پرآپ کو صدمہ بھی پہنچ سکتا ہے باجی کیا سوٹ آپ کا تھا ؟؟؟ میں نے تو چھوٹی باجی کے ناپ کا بنا دیا ہے ۔بس اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے اپنے آپ میں حوصلہ پیدا کریں کوئی بات نہیں چھوٹی بہن کو اپنا سوٹ دے دیں اور اسکا خود لے لیں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی حل نہیں۔
دوسرا صدمہ جو آپ کو عید کے نزدیک پہنچ سکتا ہے کہ ٹیلر انکل وہ ڈیزائن بالکل نہیں بنائیں گے جو آپ دے کر آئےہوں گے۔ بہت ارمان کے ساتھ آپ نے وہ ماڈل والی تصویر اپنے جوڑے کے ساتھ جو دی تھی، ماسٹر صاحب نے تو اس پر پکوڑے رکھ کر کھا لیے تھے۔اس لیے ایک بار جوڑا ماسٹر صاحب کو دینے کے بعد ان کو روز اس کا ڈیزائن یا د کرنا نا بھولیں۔
ایک اور کارنامہ بھی صرف درزی ہی انجام دے سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ باجی وہ رش میں آپ کا جوڑا کہیں گم ہوگیا ہے یہ ایک ایسا جملہ ہے جو آپ کے حواس پر بم گر اسکتا ہے۔درزیوں کی ان تمام کارستانیوں کا اثر براہ راست مردحضرات پر پڑتا ہے خواتین ایک تو روز ان کے چکر لگواتی ہیں اوپر سے اگر ماسٹر صاحب جوڑا خراب کر دیں تو پھر ان کو ایک اور اتنی ہی مالیت کا نیا جوڑا چاہیے ہوتا ہے۔اس کے ساتھ درزیوں کی طرف سے کیے جانے والے تمام مظالم کی داستانیں اور غیبتیں بھی مرد حضرات کو سننا پڑتی ہیں۔
بات اگر مرد حضرات کی ہو تو انہوں نے خواتین کی طرح پانچ یا چھ جوڑے تو نہیں سلوانے نہیں ہوتے لیکن ان کا عید کا کرتا اور شلوار قمیض بھی بہت جتن کے بعد تیار ہوتا یہاں پر بہانے وہ ہی ہوتے ہیں کہ آپ کا کرتا کاج کے لیے گیا ہوا ہے بس آپ کا گلا کاٹ رہا ہوں ، اس کا مطلب ہے کہ آپ کے عید کے جوڑے کا گلا، بازو کٹ گئے ہیں بس قمیض سے جڑنے کی دیر ہے یہ وہ عام جملے ہیں جو چاند رات تک یہ آپ کے گوش گزار کرتے رہیں گے۔ کبھی کہیں کے کاریگر بھاگ گئے اور کبھی آپ کے سوٹ کے ہم رنگ بٹن نہیں مل رہے۔
اگر آپ اس سب سے بچنا چاہتے ہیں تو ماسٹر صاحب کو رمضان میں متواتر افطاریاں بجھواتے رہیں ایک عدد جوڑا بھی تحفے میں دیں گے اگر اس کے بعد بھی صورتحا ل میں تبدیلی نا آئےتو آپ کسی بھی بوتیک سے ریڈی میڈ جوڑا لے آئیں ۔اب بہت مناسب قیمت میں ہر طرح کے سلے سلائے سوٹ مل جاتے ہیں ۔ اس کے ساتھ اب پاکستان میں انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت سے ای سٹور بھی متعارف کروادیے گئے ہیں۔ آن لائن اب خواتین، مرد اور بچوں کے لیے ہرطرح کے کپڑے موجود ہیں ۔آپ صرف پسند کریں تو ایک دن میں جوڑا آپ کے گھر پہنچ جائےگا اور اس ہی وقت ادایگی کردیں کوئی کریڈیٹ کا چکر بھی نہیں ۔کیش ادائیگی کریں اور گھر بیٹھے جوڑا حاصل کریں۔ میں تو جارہی ہوں اپنا جوڑا لینے ماسٹر صاحب نے تیار کر ہی دیا ،آپ کا تیار ہوگیا ؟ ضرور بتائیے گا، عید مبارک ۔ – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9993#sthash.074B22mn.dpuf