Posted in Uncategorized

تمباکو نوشی جان لیوا شوق

June 02, 2014   …جویریہ صدیق…

ایسا بہت با ر ہوتا ہے کہ آپ کسی محفل میں ہوں یا دفتر میں یا پھر کسی بھی تفریحی مقام پر کوئی نا کوئی شخص ایسا ضرور ہوتا ہے جو تمباکو نوشی شروع کرکے دوسرے تمام افراد کا سانس بھی لینا محال کردیتا ہے۔کچھ لوگ تو خاموش رہنے پر اکتفا کرتے ہیں یہ اپنی جگہ ہی تبدیل کرلیتے ہیں پر اس شخص کو روکتا کوئی نہیں ہے لیکن ایسا کرنا غلط ہے کیونکہ یہ ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ تمباکو نوشی کرنے والے کو نرمی سے اس کے نقصانات سے آگاہ کریں اور اس عادت کو ترک کرنے کے لئے کہیں۔

سگریٹ نوشی کرنے والے بیشتر لوگوں کی یہ غلط فہمی ہے کہ وہ تمباکو پھونکتے وقت وہ بہت سمارٹ اور مفکر لگتے ہیں تو یہ ان کی غلط فہمی ہی ہے کیونکہ سمارٹ انسان وہ ہی لگتا ہے جو صحت مند مشاغل اپناتے ہوئے اپنے آپ کو متوازن رکھے اور مفکر صرف وہ ہی ہوتا ہے جس کے پاس علم کا خزانہ ہو، سگریٹ پینے والا دوسروں کے لیے صرف کوفت کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان میں عوامی مراکز میں سگریٹ پینے پر پابندی ہے لیکن اس قانون کا کوئی اطلاق ہی نہیں اور لوگ سرے عام دوسروں پر تمباکو کا دھواں چھوڑتے ہیں خود تو ڈوبے ہیں صنم آپ کو بھی ساتھ لے کر جایں گے۔ تمباکو نوشی کرنے والا صرف ان ہی بیماریوں میں مبتلا ہوتا اورزرا یہ طویل فہرست ملاحظہ ہو پھیپھڑوں کا سرطان، منہ کا سرطان،کھانے کی نالی کا سرطان، عارضہ قلب، دمہ، الرجی، ٹی بی،کولیسٹرول، ہائی بلڈ پریشر اور اگر خواتین اس کا شوق رکھیں تو ان کو ان تمام امراض کے ساتھ ساتھ ماہانہ ایام میں مسئلہ، ہڈیوں کی کمزوری، قبل از وقت بچوں کی پیدائش اور اسقاط حمل کی طرف لے جاتی ہے۔ سگریٹ پینے والے کی وجہ سے جو بیماریاں اس کے اہل عیال اور دوست احباب کو ہوتی ہیں، وہ یہ ہیں عارضہ قلب، پیپھڑوں کا سرطان، دمہ، الرجیز اور بچوں میں نمونیا، پھیپڑوں پر ورم آنا شامل ہے۔ ایک سگریٹ اورا تنی ساری بیماریاں فیصلہ تو آپ کے ہاتھ میں ہے کہ اس جان لیوا عادت سے جان چھڑوانی ہے یا زندگی سے؟

بہت سے لوگ اس شوق کے مضر اثرات سے واقف ہی نہیں اس ہی لیے عالمی ادارہ صحت اکتیس مئی کو عالمی یوم انسداد تمباکو نوشی مناتا ہے تاکہ عوام الناس میں اس بیماری کے خلاف شعور اجاگر کیا جا سکے۔اس بیماری کی وجہ سے ہر سال ساٹھ لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور ان میں سے80 فیصد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔ان ساٹھ لاکھ میں سے چھ لاکھ افراد وہ ہیں جو خود تو سگریٹ نوشی نہیں کرتے لیکن اس کے دھویں کی وجہ سے جان سے جاتے ہیں۔ بات ہو اگر پاکستان کی تو پاکستان میں پنتالیس فیصد مرد اور چھ فیصد خواتین تمباکو نوشی کرتے ہیں اور چودہ سے سولہ سال کے پندرہ لاکھ بچے تمباکو نوشی میں مبتلا ہیں۔ہر سال تمباکو نوشی کی وجہ سے ایک لاکھ لوگ جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اس سال یہ عالمی دن تمباکو نوشی پر مزید ٹیکس عاید کرنے کے عنوان کے ساتھ منایا جارہا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق تمباکو سے بنی ہوئی اشیا ء کو اتنا مہنگا کردیا جائے کی کہ عام آدمی قوت خرید کم ہوجائے۔ حکومت پاکستان نے بھی آج اعلان کیا ہے کہ یکم جون سے تمباکو نوشی سے متعلق اشتہارات پر پابندی ہوگی، یہ اطلاق ٹی وی ریڈیو، مارکیٹس، بل بورڈز اور کیبل ٹی وی پر ہوگا اور تمباکو سے بنی مصنوعات پر ٹیکس عاید کرنے کے لیے کمیٹی غور وخوض کرے گی۔

دنیا بھر کی حکومتوں اور صحت کے محکموں کی کوشش اپنی جگہ لیکن جب تک ہم خود کوشش نہیں کریں گے اس لعنت کو ختم نہیں کرسکتے سب سے پہلے ہمیں اپنے اردگرد لوگوں کو اس کے نقصانات سے آگا ہ کرنا ہوگا اور بہت نرمی سے انہیں اس عادت کو ترک کرنے کے لیے کہیں۔ ان کی مدد کریں اور آہستہ آہستہ وہ قوت ارادی کے ساتھ اس عادت کو ترک کرسکتے ہیں۔ پان گٹکا، مین پوری، چھالیہ اور شیشہ میں بھی تمباکو شامل اس لیے ان کو بھی روزمرہ زندگی سے باہر کرنا ہوگا۔ اٹھارہ کروڑ عوام میں سے دو کروڑ عوام اسی لت کا شکا رہیں۔ ان دو کروڑ تمباکو نوشی کرنے والوں کے پھیلایے جانے دھویں سے مزید کروڑوں پاکستانی متاثر ہیں اس لیے اب وقت آگیا کہ ہم سب تمباکو نوشی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوجائیں۔

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9881#sthash.1G5Kww5b.dpuf

Posted in Uncategorized

تپ دق سے آگاہی کا عالمی دن

March 24, 2014   …جویریہ صدیق…چوبیس مارچ کو دنیا بھر میں ٹی بی ”تپ دق“ کے مرض سے بچاوٴ کے حوالے سے عالمی دن منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد تپ دق کے حوالے سے عوام الناس میں آگاہی پھیلانا ہے اور اس بیماری سے مقابلے کے طریقہ کار کو عام کرنا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں تقریبا 16لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں اور ہر سال 4لاکھ نئے مریضوں کا مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

یہ موذی مرض مائیکرو بیکٹریم ٹیوبر کلوسس نامی جراثیم کے باعث ہوتا ہے۔یہ بیماری انسان پر حملہ آور ہوکر اس کے پھیپھڑوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ جسم کے دیگر حصوں کو بھی انفیکشین میں مبتلا کرسکتی ہے جن میں دماغ، اعضائے تولید، گردے اور جلد شامل ہے۔ متاثرہ شخص کے کھانسنے تھوکنے سے یہ بیماری اور پھیلتی ہے۔ اگر اس کا علاج نہ شروع کروایا جائے تو مریض کی وجہ سے مزید 10سے 15افراد اس بیماری میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ ایک ہی جگہ پر زیادہ لوگوں کا رہنا، تازہ ہوا کا گزرنا ہو اور گندگی کے باعث یہ مزید پھیلتا ہے۔ اس کے جراثیم ہوا کے ذریعے سے خون میں شامل ہوکر جسم کو متاثر کردیتے ہیں۔

اس کی ابتدائی علامتوں میں مسلسل بخار، تین سے چار ہفتے تک کھانسی کا کم نہ ہونا، رات کو ٹھنڈے پسینے آنا، تھوک میں خون کا آنا، بھوک میں کمی اور وزن میں کمی شامل ہے۔ ان علامتوں کی صورت میں فوری طور پر طبی معائنہ کروایا جائے اور تین اوقات میں بلغم کے نمونے لے کر ٹیسٹ کروایا جائے اور سینے کا ایکسرے بھی کروانا بھی ضروری ہے۔

ٹی بی اب مکمل قابل علاج ہے، مریض کو چھ ماہ مسلسل دوائیاں دی جاتی ہیں، اس طریقہٴ علاج کو ڈاٹس کہا جاتا ہے۔ اس علاج میں 2ماہ، 5ماہ اور علاج مکمل پر بلغم کا جائزہ کیا جاتا ہے۔ ٹی بی کا علاج شروع ہوتے ہی مریض صحت مند محسوس کرنے لگتا ہے لیکن اس کا 8ماہ تک علا ج مکمل کرنا ضروری ہے کیونکہ اگر اس کا علاج مکمل نا کروایا جائے تو یہ بیماری سر دوبارہ اٹھا لیتی ہیں پھر بعض اوقات اس پر ٹی بی کی ادویات بھی کام نہیں کرتی اور مرض لاعلاج ہوجاتا ہے۔ اس لیے بہت ضروری کے علاج کو بیچ میں نہ چھوڑا جائے۔

ٹی بی سے بچاوٴ بھی ممکن ہے اگر نومولود بچوں کو بی سی جی ویکسین لگوا دی جائے تو یہ ان کو ٹی بی سے محفوظ رکھنے میں معاون ہے۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا اس کو جگہ جگہ تھوکنے سے پرہیز کرنا چاہیے، کھانستے یا چیھنکتے وقت رومال سے منہ ڈھانپ لیا جائے تو دیگر رشتہ دار اس سے محفوظ رہیں گے۔ ٹی بی کے مریض کو روشن اور ہوا دور کمرے میں رکھیں۔ علاج کے ابتدائی ہفتوں میں بچوں اور پبلک مقامات سے دور رہیں، تاہم علاج کے درمیانی دورانیے میں مریض سے جراثیم کسی کو منتقل نہیں کرسکتا اور دیگر لوگ اس کے جراثیم سے محفوظ رہتے ہیں۔ اگر ماں ٹی بی میں مبتلا ہے تب بھی وہ اپنے بچے کو دودھ پلا سکتی ہے تاہم کھانستے اور چھینکتے وقت اپنے منہ پر رومال رکھے کیونکہ ماں کا دودھ تو جراثیم سے مکمل پاک ہے لیکن کھانسنے اور چھینکنے سے یہ جراثیم بچے کو منتقل ہوسکتے ہیں۔ مریض کے کپڑوں، چادروں اور استعمال کی چیزوں کو بھی دھوپ لگوائی جائے۔

غربت اور لاعلمی کی وجہ سے مرض بہت تیزی سے دنیا میں پھیل رہا ہے اور ہر سال دنیا میں 30لاکھ افراد اس بیماری کا شکار ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ پاکستان اس بیماری کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے اور یہاں اس مرض پھیلنے کی بڑی وجہ حکومت اور محمکہ صحت کی عدم توجہی ہے اور اس کے علاوہ عوام کا حفظان صحت کے اصولوں اور صاف صفائی کا خیال نہ رکھنا اور گندگی میں یہ مرض زیادہ سر اٹھاتا ہے۔ اس مرض پر قابو پانے کے لیے اس مرض کے حوالے سے آگاہی کا ہونا بہت ضروری ہے کہ یہ مرض مکمل قابل علاج ہے اور ادویات کے مکمل کورس سے اس مرض سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ ماحول کو گندگی سے پاک رکھ کر بھی ہم اس مرض کو پھیلنے سے روک سکتے ہیں اور اپنے اردگر لوگوں کو ازخود آگاہی سے بھی اس مرض کو کم کیا جاسکتا ہے۔

Javeria Siddique is a Journalist and Award winning photographer.

Contact at https://twitter.com/javerias  

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9673#sthash.6m3KNFLX.dpuf

Posted in Uncategorized

فالج سے کیسے بچا جائے

..جویریہ صدیق.…..
اسٹروک یعنی فالج وہ دوسری بڑی بیماری ہے جو ساٹھ سال سے بڑی عمر کے افراد کی موت کہ وجہ ہے۔۔ہر پانچ میں ایک خاتون اور ہر چھ میں سے ایک مرد اس بیماری کا شکار ہوجاتا ہے۔یوں چھ ملین افراد اس بیماری کی وجہ سے سالانہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ تیسرا بڑا مرض ہے جس کی وجہ سے لوگ معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔مگر یہ بیماری صرف بڑی عمر کے افراد کو نہیں ہوتی اس بیماری کا شکار کسی بھی عمر کےافراد ہوسکتے ہیں۔خون کی گردش رک جانے کے سبب ہونے والے فالج کی شرح بچوں میں اکیس فیصد تک بڑھ چکی ہے۔اگر پاکستان کی بات کی جایے تو پاکستان میں ہر عمر کے لوگ فالج کا شکار ہو رہیے ہیں جن میں پنتالیس فیصد مرد اور پچپن فیصد خواتین شامل ہیں۔
اس مرض کے لاحق ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں ۔دماغ کی کوئی نس اچانک پھٹ جایے یا اس میں خون کا لوتھڑا جم جایے۔اس صورتحال میں دماغ کو خون ملنا بند ہوجاتا ہے اور انسان فالج کا شکار ہوجاتا ہے۔یہ مرض کسی کو بھی ہوسکتا ہے لیکن جن افراد کو ہائپر ٹینشن،موٹاپا،ذیابیطیس،سر میں شدید درد،ڈپریشن،ہائی بلڈ پریشر،کولیسٹرول اور دل کا عارضہ جیسے امراض لاحق ہوں ان میں فالج کا خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔خواتین میں ان کو خطرہ زیادہ ہے جنہیں ہائی بلڈ پریشر ہو،جو تمباکو نوشی کا استعمال کرتی ہوں،مسلسل سر میں درد رہتا ہویا مانع حمل ادویات کا استعمال کرتی ہوں۔
فالج کا حملہ عام طور پر شریانوں کے پھٹنے، ان میں رکاوٹ آنے سے اور دماغ میں خون کی ترسیل میں تعطل آنے سے ہوتا ہے۔خون دماٰغ میں جمع جاتا ہے اوراس کے باعث جسم میں خون کی ترسیل متاثر ہوجاتی ہے۔ ا س کی ابتدائی علامت کچھ یوں ظاہر ہوتی ہیں جسم کا سن ہوجانا، منہ کا ٹیڑھا ہوجانا، مسکرانے میں دقت، بولتے وقت الفاظ کی ادائیگی میں مشکل، الٹیاں آنا، دھندلا دکھائی دینا، کمزوری، بازو یا ٹانگ بے جان محسوس ہو۔شدید جھٹکے لگنا، بے ہوش ہوجانا یہ سب فالج کی علامتیں ہیں۔جیسے ہی یہ علامتیں آپ کے گھرکے کسی بھی فرد میں ظاہر ہوں اس کو فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس لے کر جایں دیر بلکل مت کریں، کیونکہ فالج کے80 فیصد سے زائد کیسز قابل علاج ہیں۔
فالج یا اسٹروک دو طرح کے ہوتے ہیں جن میں ایک چھوٹا منی اسٹروک ہوتا ہے اور ایک بڑا فل اسٹروک ہوتاہے چھوٹے اسٹروک میں مریض کمزوری محسوس کرتا ہے،اس کا منہ ٹیڑھا ہوجاتا ہے اس کو بولنے میں دقت ہوتی ہے اس کے مریض جلد ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن اگر مکمل علاج نا کروایا جایے تو پھر فل اسٹروک ہونے کا امکان زیادہ ہوجاتا ہے۔ اس میں انسان کا منہ مکمل طور پر ٹیڑھا ہو جاتا ہے جسم کا ایک حصہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے،بینائی کم ہوجاتی ہےقوت گویائی ختم ہوجاتی ہے، اس پر فوری علاج کی ضرورت پیش آتی ہے ذرا سی سستی مریض کی جان لے سکتی ہے۔
شفاء انٹرنشینل ہسپتال کے نیورولوجسٹ ڈاکٹر وسیم طارق ملک کے مطابق ہر 6 میں سے ایک فرد فالج کا شکار ہوجاتا ہے اور ہر 6 سیکنڈ میں ایک جان فالج کے باعث چلی جاتی ہے۔اس کے علاوہ بہت سے لوگوں کو عمر بھر کے لیے معذوری بھی دے جاتی ہے۔ لہٰذہ جیسے ہی اس بیماری کی علامتیں ظاہر ہو تو مریض کو ہسپتال لایا جایے۔ ڈاکٹر وسیم کے مطابق بہترین علاج سے مریض چھ ماہ میں مکمل صحت یاب ہوجاتا ہے۔ اگر خدانخواستہ آپ کے گھر میں کوئی بھی اس مرض میں مبتلا ہوجائے تو اس علاج کے ساتھ ساتھ اس کی نفیساتی صحت پر بھی توجہ دیں، ایسے مریض کو گھر والوں کی توجہ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر میمونہ صدیقی ہیڈ آف نیورولوجی ڈویژن شفاء انٹرنیشنل کے مطابق مردوں کی نسبت خواتین اس مرض کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ اس مرض میں مبتلا مریض کو علاج کے ساتھ ساتھ مناسب دیکھ بھال کی اور غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس مرض میں مریضوں کو نگلنے میں تکلیف ہوتی ہے اور ان کی اورل کیویٹی بھی متعدد امراض کی زد میں آجاتی ہے، وہ خود سے باتھ روم بھی نہیں جا سکتے نا ہی چل پھر سکتے ہیں، مسلسل لیٹے رہنے کی وجہ سے جسم پر زخم ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ڈاکٹر کے مشورے سے غذا دی جائے ، ان کے دانتوں اور مسوڑوں کا خاص خیال رکھا جایے ۔ان کے لیے اییر میٹرس استعمال کیا جانا چاہیئے ، ہر دو گھنٹے بعد کروٹ تبدیل کروایں فزیو تھراپی اور اسپیچ تھراپی کروائی جائے۔ علاج کے ساتھ ساتھ گھر والوں کی توجہ اور شفقت مریض کو جلد ٹھیک ہونے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
ویسے تو فالج کا مرض کسی کو بھی لاحق ہو سکتا ہے لیکن صحت مندانہ طرز زندگی کو اپنا کرہم اس مرض سے بچ سکتے ہیں متوازن غذا کھایں، مناسب ورزش کا اہتمام کریں۔تمباکو نوشی، شراب نوشی اور گٹکےسے پرہیز کریں، کولیسٹرول لیول کو بڑھنے نا دیں گھی میں پکے کھانے نا کھائیں۔ اس بات کا بھی دھیان رکھنا لازمی ہے کہ اپنا بلڈ پریشر متواتر چیک کریں، اگر شوگر کا عارضہ لاحق ہے تو اس کو ادویات اور واکنگ کے ذریعے کنٹرول میں رکھیں، اور نمک کم سے کم لیں۔ واضح رہے کہ اس بیماری کا شکار ہونے والے زیادہ تر افراد موٹاپے کی طرف مایل ہوتے ہیں اور وہ مرغن غذا، تمباکو نوشی ، نمک کا استعمال کثرت سے کررہے ہوتے ہیں، اس کے ساتھ اگر ان کو بلڈ پریشر،شوگر اور کولسٹرول بھی ہے تو فالج کی بیماری ان پر آسانی کہ ساتھ حملہ آور ہوجاتی ہے، اس لئے احتیاط بہتر ہے کیونکہ اس بیماری سے بہت سے لوگ ٹھیک تو ہوجاتے ہیں لیکن زندگی بھر کے لیے بہت سے دیگر بیماریاں ان کے ساتھ لگ جاتی ہیں جن میں بولنے میں دقت ، اعضاء کو ہلانے میں مشکل، نمونیا، پھیپڑوں میں انفیکشن اور پیروں کی رگوں کا جڑ جانا شامل ہے۔ پاکستان میں تیس سے چالیس سال کے افراد کو فالج ہونے کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے ۔اس ہی لیے اتنی ساری بیماریوں اور تکالیف سے بچنے کے لیے روزانہ چہل قدمی کی عادت ڈالیں، مکمل اور بھرپور نیند لیں ، مرغن کھانوں سے دور رہیں اور اپنا بلڈ پریشر کنٹرول کریں۔ پانچ وقت کی نماز پڑھیں اور ہر طرح کی منفی سوچ سے دور رہیں۔​  

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10346#sthash.O7jIeBNW.dpuf