Posted in Uncategorized

انقلابی کارکنان کا کوئی پرسانِ حال نہیں

August 16, 2014   ……..جویریہ صدیق……..عمران خان اور طاہر القادری کے مارچ بالآخر اسلام آباد پہنچ گئے۔دونوں کے قافلے کافی سست روی کا شکار رہے اور گذشتہ رات اسلام آباد میں داخل ہوئے۔ 14اگست سے انتظامیہ نے اسلام آباد کے تمام داخلی راستوں سے کنٹینرز ہٹا دیے تھے اس کے بعد سے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنان اسلام آباد میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔ اپنے اپنے قائدین کے آنے سے پہلے سینکڑوں کارکنان زیرو پوائنٹ پر موجود تھے۔ ان تمام کا جوش وخروش اپنی جگہ لیکن 14اگست سے آج 16اگست ہوگئی تاہمتحریک انصاف اور عوامی تحریک کی طرف سے اپنے کارکنان کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے۔

پہلے ہی اسلام آباد میں موجود کارکنان سڑکوں پر بے سروسامانی کے عالم میں تھے، اوپر سے مارچ کے ساتھ آنے والے افراد کے ساتھ یہ تعداد بڑھ گئی۔ انتظامیہ کی طرف سے جگہ کا تعین کرنے کے باوجود دونوں جماعتوں نے ہی اپنے کارکنوں کے لیے سر چھپانے کا بندوبست کیا نہ ہی کھانے پینے کے خاص انتظامات۔ پاکستان کے عوام سادہ لوح ہیں، لیڈروں کے چکنے چپڑے وعدوں میں آکر گھر سے نکل پڑتے ہیں اور بعد میں زحمت اٹھاتے ہیں۔ یہ حال ان جماعتوں کے کارکنوں کا بھی ہوا۔

اس وقت دھرنے کی جگہ پر سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔ عمران خان کے کارکنان آبپارہ چوک کشمیر ہائی وے اور طاہر القادری کے مارچ کے شرکاء خیابان سہروردی پر ہیں۔ نہ ہی کارکنوں کے پاس پینے کے لیے پانی ہے اور نہ ہی وضو کرنے کے لیے۔ ان انقلابی مارچ اور آزادی دھرنوں سے پہلے کوئی حکمت عملی کیوں نہیں طے کی گئی؟ روز لیڈر ٹی وی پر آکر عوام کے جذبات تو ابھارتے رہے لیکن پارٹی کی مقامی قیادت نے کوئی کام نہیں کیا۔ کم از کم اور کچھ نہ ہوتا تو اسلام آباد پی ٹی آئی ونگ اور عوامی تحریک اپنے کارکنان میں مفت پانی تقسیم ہی کر وا دیتے۔

اس کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ اس وقت کھانے کا ہے کیونکہ عمران خان اور طاہر القادری کی جوش خطابت نے اسلام آباد میں ویسے ہی خوف و ہراس پھیلا رکھا تھا اور عملی طور پر بازار 5دن سے جزوی طور پر بند ہیں۔ اس لیے مارچ کے شرکا ہی نہیں اسلام آباد کے شہری بھی غذائی اشیاء کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ملک میں انتشار کی سیاست کی بدولت آدھا اسلام آباد مفلوج پڑا ہے۔اس وقت بھی عوامی تحریک کے کارکنان اور پی ٹی آئی کے کارکنا ن کو اسلام آباد آئے تیسرا دن ہے اور ان کو کھانے کی فراہمی کا کوئی نظام نہیں۔کچھ خوانچہ فروش زیرو پوائنٹ اور کشمیر ہائی وے پر کھانے پینے کی اشیاء بیچ تو رہے ہیں لیکن ان بہت مہنگے داموں۔ دونوں جماعتوں کے کارکنان اس وقت بددل ہیں کہ وہ اپنے شہروں سے صرف اپنے لیڈروں کی کال پر اسلام آباد آئے ہیں اور مقامی قیادت نے ان کو بالکل نظر انداز کردیا ہے۔

قائدین نے تو اپنی رات آرام دہ پانچ ستاروں والے ہوٹل میں گزاری جو خیابان سہروردی پر ہی واقع ہے تاہم خواتین اور مرد کارکنان نے اپنی رات زیرو پوائنٹ اور کشمیر ہائی وے پر گزاری۔ جس وقت میڈیا کوریج اور تقاریر کے بعد لیڈران نرم بستروں پر آرام فرما رہے تھے اس وقت کارکن کھلے آسمان تلے بارش میں بھیگتے رہے۔ انتظامات نہ ہونے کے باعث پہلے سے آئے ہوئے کارکنوں نے دوسری رات سڑک پر گزاری اور مارچ کے ساتھ آنے والوں نے پہلی رات بارش اور سردی میں گزاری۔کارکنان کی بڑی تعداد نے کہا کہ اگر ان کے لیے کوئی رہائش کا بندوبست نہیں کرنا تھا تو کم از کم ان کو خیمے فراہم کر دیے جاتے یا گرم چادریں تاکہ وہ موسمی حدت سے بچ جاتے۔

اس کے ساتھ ساتھ جو اہم مسئلہ اس وقت دونوں ہی پارٹیوں کے کارکنان کو پیش ہے وہ ہے باتھ رومز کا۔ دونوں پارٹیوں کی طرف سے موبائل باتھ رومز کا دعویٰ تو کیا گیا تھا تاہم عملی طور پر ایسا کچھ نہیں ہے۔ کارکنان رفع حاجت کے لیے خیابان سہروردی اور کشمیر ہائی وے سے متصل گرین بیلٹ کا رخ کررہے ہیں۔ خواتین کی بڑی تعداد اس وجہ سے مشکل میں نظر آئی۔خواتین کے مطابق کم از کم خواتین کے لیے ہی الگ بند وبست کر دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔

اس وقت بھی انقلابی اور آزادی مارچ والے سڑکوں پر موجود ہیں اور لیڈرشپ اپنے محلات میں۔ اسلام آباد آئے ہوئے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنان کی مشکلات کو دیکھ کر وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ یہ کمیٹی انقلاب اور آزادی کے لیے آئے ہوئے افراد کے لیے قیام طعام اور پینے کے صاف پانی کا بندوبست کررہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نے سی ڈی اے کو فوری طور پرعارضی باتھ رومز بنانے کا بھی حکم دیا ہے تاکہ عوام کی مشکلات کا کچھ ازالہ ہوسکے۔ اس وقت اسلام آباد آئے ہوئے عوام کو پانی،خشک خوارک، صابن اور رفع حاجت کے لیے باتھ رومز کی فوری ضرورت ہے۔اگر ایسا نہ ہوا تو عوام کی بڑی تعداد بخار، فلو، اسہال، ہیضے اور اعصابی دبا ؤ کا شکار ہوسکتے ہیں۔

انقلاب یا آزادی صرف باتوں یا وعدوں سے نہیں آتے۔ اس کے لیے عوام کی خدمت اور ملک کی ترقی میں حصہ ڈالنا پڑتا ہے۔اس وقت اسٹاک مارکیٹ مندی کا شکار ہے اور اب تک 36ارب کا نقصان ہو چکا ہے۔ کاروباری مراکز غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے بند رہے، تاجروں کو دس ارب کا نقصان ہو چکا ہے۔عید کے بعد سے عملی طور پر پنجاب اور اسلام آباد بند پڑے ہیں۔عوام گھروں میں محصور مشکلات کا شکار ہیں۔بات ہو اگر اسلام آباد آنے والے کارکنان کی تو 14اگست سے وہ آج تک سڑکوں پر ہی ہیں، لیڈرز جوکہ انقلاب اور آزادی کا دعویٰ کررہے ہیں ان کے لیے پانی کھانے اور سر چھپانے کا بندوبست بھی نہ کرسکے تو ملک کی تقدیر کیا بدلیں گے۔ لیڈران نے رات 5ستارے والے ہوٹل اور اپنی ذاتی محلات میں گزاری اور عوام بارش میں بھیگتے انقلاب کا انتظار کرتے رہے۔ اپنی انا اور ذاتی فوائد کے لیے عوام کا یوں استعمال کرنا درست نہیں۔جو لوگ اپنے لیے پانی اور کھانا خریدنے سے قاصر ہیں کیونکہ جیب اجازت نہیں دیتی تو دیکھتے ہیں کہ وہ کتنے دن آزادی اور انقلابی دھرنے میں رک پائیں گے۔ انقلاب میں محتاط اندازے کے مطابق دونوں جماعتوں کے ملا کر30ہزار کارکنان بنتے ہیں اور اگر اعلیٰ قیادت کی عدم توجہی کی یہی صورتحا ل رہی تو اسلام آباد میں آ ئے ہوئے کارکنان جلد بد د ل ہوکر واپس چلے جائیںگے۔

Javeria Siddique is a Journalist and Photographer works for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10058#sthash.c1ywEHJO.dpuf

Posted in Uncategorized

انتشار کی سیاست کیوں ؟

August 13, 2014   ……..جویریہ صدیق……..جب سے ہوش سنبھالا ہے جمہوری حکومتوں کو منتخب ہونے کےساتھ ہی پھر فوری طور پر برطرف ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نادیدہ قوتیں کبھی جمہوری حکومت کو سکون سے پانچ سال آرام سے مکمل کرنے دیں۔ جنرل ضیاء کے طویل دور کے بعد جب نوجوان لیڈر بینظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو عوام کو ان سے بہت سے امیدیں تھی لیکن ان کے پورا ہونے سے پہلے ہی غلام اسحق خان نے 9اگست 1990میں ان کی حکومت بر طرف کردی۔ 1990میں الیکشن کے بعد میاں محمد نواز شریف کو حکومت بنانے کا موقع ملا لیکن بہت سی وجوہات کی بنا پر پہلے وزیر اعظم نواز شریف پھر صدر غلام اسحق دونوں ہی مستعفی ہوگئے ۔نگران حکومت آئی 1993میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے۔ یوں صرف 5سالوں میں 3بار انتخابات کروادیئے گئے۔ 1993میں اقتدار کا ہما بینظیرکے سر پر بیٹھا لیکن ان کی حکومت صدر فاروق لغاری نے 1996میں برطرف کردی۔اس کے بعد ایک بار پھر نواز شریف اقتدار میں آئیے اور مختلف بحرانوں کی زد میں رہنے کے بعد بالاآخر اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف نے 1999 میں ان کا تختہ دھڑن کردیا۔

یوں اسی سے نوے کی دہائی میں اس بات کا اندازہ لگنا کچھ مشکل نہیں کہ پاکستان میں عوام کے مینڈیٹ اور انتخابی عمل کی کچھ زیادہ وقعت نہیں۔ میرے ہم عمر پاکستانیوں نے پہلی فوجی حکومت 12اکتوبر 1999میں دیکھی\ ایک طاقتور صدرپرویز مشرف جس نے بلا شرکت غیرے 9سال ملک پر حکومت کی۔ اس دوران پاکستان نے 5وزیر اعظم دیکھے جن میں ظفر اللہ خان جمالی،شوکت عزیز اور یوسف رضا گیلانی۔2 نگران وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین اور محمد میاں سومرو۔ان کے اس طویل دور حکومت میں دو بار الیکشن ہوئے ۔2008میں پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی، اس کے بعد پرویز مشرف کے طویل دور حکومت کا سورج غروب ہوا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت 2008سے 2013تک قاvم رہنے والی وہ واحد منتخب جمہوری حکومت ہے جس نے 5سال مکمل کیے جس میں پارلیمنٹ سے منتخب کیے گئے صدر آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے حکومت کی۔ اس جمہوری روایت کے قائم ہونے کے بعد 2013کے الیکشن سے بہت توقعات رکھی جارہی تھیں۔ پاکستان کے سنجیدہ حلقوں میں کافی طمانیت تھی کہ پاکستان اب صیح معنوں میں جمہوریت کی پٹری پر چڑھ چکا ہے۔ 2013کے الیکشن میں خاص طور پر نوجوانوں کی بڑی تعداد نے حصہ لیا،ووٹ کاسٹ کیے ،اپنے اپنے لیڈران کے لیے خوب مہم چلائی۔2013کے انتخابات میں میاں محمد نواز شریف تیسری بار ملک کے وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوگئے۔سیاسی پنڈت تو پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی کی پیشن گوئیاں کررہے تھے لیکن الیکشن کے نتائج کے مطابق عمران خان کی جماعت پارلیمان میں نشستوں کے حساب سے تیسرے نمبر پر آئی اور خیبر پختون خوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی لیکن عمران خان نے اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا اور شروع دن سے وہ الیکشن کمیشن، نگران حکومت، عدلیہ اور مسلم لیگ ن پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں، آج حکومت کو بنے ڈیڑھ سال کا عرصہ ہونے کو ہے لیکن عمران خان کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ اپنے حکومتی صوبے خبیر پختون خواہ میں تو متاثر کن کارکردگی دکھانے سے قاصر ہیں لیکن وفاق پر ہر روز تنقید کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ اب انقلاب کا نعرہ لگا رہے ہیں تو عمران خان صاحب انقلاب سب سے پہلے آپ اپنے صوبے خیبر پختون خوا سے شروع کیوں نہیں کرتے؟ کیا دہشت گردی سے نڈھال صوبہ آپ کی توجہ کا پہلا مرکز نہیں ہونا چاہیے تھا؟ اپنی شکست کے غم میں عمران خان نے مئی 2013 سے اب تک خیبر پختون خوا کو مکمل فراموش کر رکھا ہے۔ ہر روز عمران خان ایک نئی فہرست کے ساتھ آجاتے ہیں کہ یہ سب بھی دھاندلی میں ملوث ہیں۔ پہلے توپوں کا رخ مسلم لیگ نواز، ریٹرینگ آفیسرز اور نگران حکومت پر رہا، بعد میں جنگ، جیو، جسٹس ریٹائرڈ افتخار محمد چوہدری، جسٹس ریٹائرڈ خلیل الرحمن رمدے اور جسٹس ریٹائرڈ ریاض کیانی بھی ان کے الزامات کی زد میں آگئے۔ کاش کہ عمران خان اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرلیتے اور اس صوبے میں مکمل محنت کرکے ایک مثال قائم کرتے جہاں عوام نے ان پر مکمل اعتماد کیا۔

پاکستانی عوام کے مینڈیٹ کی توہین صرف عمران خان ہی نہیں کر رہے بلکے اس میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری بھی پیش پیش ہیں، وہ سیاسی کارکنوں میں مذہبی جذبات کو ابھا کر انقلاب برپا کرنے کی تیاریوں میں ہے۔ یہ انقلاب عمران خان کے انقلاب سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ عمران خان تو ذاتی حملے اور دھاندلی کا شور ڈال کر چپ ہو جاتے ہیں لیکن طاہر القادری اپنے مذہبی پیرا کاروں کو شہادت اور سول نافرمانی پر اکسا رہے ہیں۔ ان حالات میں مسلم لیگی رہنما تدبر سے کام لیں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے لیڈران کو ساتھ ملا کر کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔ عوام کسی انقلاب کے متحمل نہیں جو مذہبی جنونیت اور ذاتی عناد پر مشتمل ہو۔ حکومت کو آئے ہوِے صرف ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوا ہے اس لیے حکومت کو کارکردگی دکھانے کا موقع ملنا چاہئے۔

انتخابی عمل کوئی مذاق نہیں جس میں کروڑوں ووٹ ڈالے گئے ہوں۔ عوام کے مینڈیٹ کا احترام عمران خان اور طاہر القادری پر واجب ہے اور خدارا ملک کو نوے کی سیاست میں نہ لے جائیں۔ اس وقت پنجاب اور جڑواں شہر اسلام آباد اور راولپنڈی بند ہیں، اسٹاک مارکیٹ مندی کا شکار ہے اور غریب عوام کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں۔ اپنے ذاتی مقاصد کو قومی مقاصد کا لبادہ اڑا کر عوام کے جذبات کے ساتھ کھیل اب بند ہونا چاہئے۔

عمران خان یہ بات جانتے ہیں کہ وہ اسمبلی میں اتنی اکثریت نہیں رکھتے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا سکیں یہی حال طاہر القادری کا ہے جن کی نمائندگی ایوان میں موجو د ہی نہیں اس لے دونوں کو سڑکوں پر آنا زیادہ آسان لگتا ہے۔ پاکستانی عوام بھی جذباتی ہیں اس طرح کی اشتعال انگیز تقاریر سے جلد متاثر ہوجاتے ہیں۔ جمہوری نظام میں سڑکوں پر فیصلے نہیں ہوتے بلکہ مذاکرات کے ذریعے سے مسائل کا حل نکا لا جاتا ہے۔ 2013 کے انتخابات کو عالمی مبصر شفاف ترین الیکشن قرار دے چکے ہیں۔ عمران خان اور دیگر انقلابیوں کو مکمل اقتدار حاصل کرنے کے لیے اب اگلے انتخابات تک انتظار کرنا ہوگا اور اگر ابھی اپنے حکومتی صوبے پر فوری توجہ نہ دی تو شاید اگلے الیکشن تک ان پارٹی کا پارلیمان سے مکمل صفایا ہی ہوجائے۔ انقلاب کا نعرہ لگانے والوں کے پاس کوئی جواز نہیں کہ وہ اپنی شکست کے بدلے میں ملک کو ہی آگ میں جھونک دیں۔ انتشار کی سیاست ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے اور ذمہ دارں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔

Javeria Siddique is a Journalist and Photographer works for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10042#sthash.cNdnLrjf.dpuf