Posted in Uncategorized

لہو لہان جنوری

January 27, 2014   …جویریہ صدیق…
نئے سال پر یہ امید رکھی جاتی ہے کے آنے والا سال خوشیوں کی شنید لے کر آئے گا اور دو ہزار چودہ کے حوالے سے ہم پاکستانیوں کی بھی یہ امید تھی۔لیکن اس کے برعکس چڑھتے سال کے سورج کی کرنوں سے منور ہونے کے بجائے پاکستان ایک بار پر خون سے نہلا دیا گیا۔

26 جنوری کو دستی بم کے حملے میں ہنگو میں چھ بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کراچی میں دس افراد جان سے گئے۔

25 جنوری کو کراچی میں دو بم دھماکوں کے نتیجے میں سات پولیس اہلکار سمیت اٹھارہ لوگ جان بحق ہوئے۔

24 جنوری کو کراچی سمیت مختلف شہروں میں پنتالیس کریکر دھماکے ہوئے اور چار افراد جاں بحق ہوئے۔

23 تاریخ کو پشاور میں ورکشاپ میں کار بم دھماکہ ہوا جس میں سات افراد جان سے گئے اور بارہ زخمی ہوگئے۔

22 جنوری کو مستونگ میں چھ سیکورٹی اہلکار جان بحق ہوئے اور چار سدہ میں انسداد پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس وین کو دھماکے میں اڑا دیا گیا جس کے نتیجے میں ایک بچے سمیت چھ اہلکار مارے گئے اور گیارہ افراد زخمی ہوئے۔

21 جنوری کو مستونگ میں بس پر خود کش حملہ ہوا جس کے نتیجے میں چوبیس زائرین جان بحق اورپینتس زخمی اور اکیس جنوری کو کراچی میں انسداد پولیو کے تین اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

20 جنوری کو جی ایچ کیو کے قریب خودکش حملے میں آٹھ اہلکار سیمت تیرہ افراد آر اے بازار میں اپنی جان سے گئے۔

19جنوری کو بنوں میں بم دھماکے کے نتیجے میں بایس ایف سی اہلکار شہید اور تیس زخمی

18جنوری کو کراچی میں بم حملے میں دو شہری جاں بحق

17جنوری کو میڈیا اور علماء پرحملے میں نو افراد جاں کی بازی پر ہار گئے

16جنوری کو پشاور تبلیغی مرکز میں دھماکہ آٹھ نمازی شہید، ساٹھ افراد زخمی ہوگئے۔

15جنوری کو نوابشاہ میں اسکول کی بس ڈمپر سے ٹکراگی طلباء طالبات سمیت اکیس افراد جان سے گئے جبکہ کراچی میں فائرنگ کے واقعات میں آٹھ افراد جان سے گئے۔

12جنوری کو شانگلہ کے مقام پر وزیراعظم کے مشیر امیر مقام کے قافلے پر حملہ ہوا اور چھ ا فراد جاں بحق ہوگئے۔

9 جنوری کو سی آئی ڈی کے ایس پی چوہدری اسلم خودکش حملے میں شہید ہوگئے۔

8 جنوری کو مری میں دو بسیس کھائی میں جا گریں جس کے نتیجے میں پندرہ افراد ہلاک اور چونتیس زخمی ہوگئے۔

6 جنوری کو ہنگو میں اعتزاز نامی طالب علم نے اسکول پر خود کش حملے کو ناکام بنا کر جام شہادت نوش کیا۔

5 جنوری کو کراچی میں دس افراد نے جان کی بازی ہاری۔

2 جنوری کو کوئٹہ میں خودکش حملے میں پانچ افراد جان جاں بحق اور تیس زخمی

دہشت گردی نے پاکستانیوں کی کمر توڑ رکھی ہے صرف تحریک طالبان پاکستان ہی نہیں اور بھی بہت سے خفیہ ہاتھ اس میں ملوث ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ دوسروں کے لیے لڑتے لڑتے آج پاکستان خود اس آگ کی لپیٹ میں آگیا ہے اور پاکستانی اس آگ میں جھلس رہے ہیں۔ میرا آپ سب سے سوال ہے اس صورتحال میں مذاکرات زیادہ اہم ہیں یا پھر ایک ایسا موثر آپریشن جس سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جاسکے؟۔اوپر ذکر کیے گیے اعدادوشمار تو صرف اس سال جنوری کے ہیں جن میں پاکستانیوں نے کس طرح خودکش حملوں، بم دھماکوں اور حادثات میں جان گنوائی لیکن اگر نائن الیون کے بعد سے پاکستانیوں کے نقصانات نا قابل شمار ہیں، پچاس ہزار سے زائد پاکستانی اپنی جان اور مال سے گئے۔کیا آپ سب کو نہہں لگتا کہ ہم سب پاکستانیوں کا بھی یہ حق ہے کہ ہم پر امن زندگی گزاریں ہمیں تعلیم، صحت ،روٹی،کپڑا اور مکان جیسی بنیادی سہولیات میسر ہو۔ایک ایسا دیس ہو جہاں کوئی بھی حکمران صرف ایک دھمکی پر پورے ملک کو ایک پرائی جنگ میں نا جھونک ڈالے بلکہ وہ صرف روشن پاکستان کی بات کرے۔کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ ہم پاکستان کے تمام علاقوں سے دہشت گردوں اور شورش برپا کرنے والوں دہشت گردوں، علحیدگی پسندوں کا خاتمہ کردیں۔ میں آپ سب کی آرا کی منتظر ہوں اور دیکھنا یہ ہے پاکستان کے مسائل کا حل حکومت کے طرف سے مذاکرات سے نکل آئے گا یا پھر آپریشن کیا جائے گا؟

Javeria Siddique is a Journalist and Award winning photographer. Contact at https://twitter.com/javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9530#sthash.kFPyI01H.dpuf

Posted in Uncategorized

تحریک طالبان کی نئی قیادت

November 09, 2013   ۔۔۔ جویریہ صدیق ۔۔۔
پاکستانی حکومت کی رٹ کو چلینج کرنے والا،پاک فوج پر حملوں میں ملوث،سوات میں اپنی غیر قانونی حکومت قائم کرنے والا،انسداد پولیو مہم کے خلاف اور ہیلتھ ورکرز پر قاتلانہ حملوں میں ملوث،لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف،ملالہ پر قاتلانہ حملے کا ماسڑ مائنڈ، میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کو نشانہ بنانے والا، نظام عدل والے صوفی محمد کا داماد،میں بات کر رہی ہوں تحریک طالبان پاکستان کے نئے سربراہ ملا فضل اللہ کی۔ یکم نومبر کوحکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد کافی دن نئے امیر کے نام پر مشاورت ہوتی رہی اور قرعہ فال ملا فضل اللہ کے نام نکلا۔ موصوف نے آتے ہی پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار اور حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کردیا ہے تو جناب پہلے کون سا ملا فضل اللہ کے دل میں پاکستان کے لئے درد تھا جو اب ان میں کوئی تبدیلی آجاتی، آپ جناب تو شروع سے ہی پور ے پاکستان میں متوازی حکومت قائم کرنے کے خواب دیکھتے رہے ہیں۔
ملا فضل اللہ 2005ء میں اس وقت منظر عام پر آیا جب سوات میں ملا ریڈیو کی نشریات کے ذریعے سے انہوں نے عوام الناس میں حکومت پاکستان کے خلاف نفرت آمیز پیغام پھیلانا شروع کئے ان کے پیغامات پاکستانی حکومت ،انسداد پولیو مہم ، مغربی ممالک اور خواتین کی تعلیم کے خلاف ہوتے تھے۔ 2009ء میں فوج کے سوات میں کامیاب آپریشن کے بعد ملا فضل اللہ نورستان (افغانستان) فرار ہوگیا اور افغانستان سے پاکستان کے خلاف کاروائیاں کرتے رہے۔
طالبان شوریٰ نے اپنا نائب شیخ خالد حقانی کو مقرر کیا ہے اور ان کے کارناموں کی فہرست بھی طویل ہے، شب قدر میں ایف سی پر حملہ، بشیر بلور اور اسفند یار ولی پر حملہ ان کے جرائم میں شامل ہے۔ میڈیا سے خاص نفرت رکھتاہے اورپاکستانی میڈیا کو دجالی میڈیا قرار دیتے ہویئے متعدد فتوے دے چکا ہے۔
اب پاکستان میں وہ لوگ جو حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد آنسو بہا رہے تھے اور انہیں شہید کے درجے پر فائز کر رہے تھے کیا وہ ملا فضل اللہ اور شیخ خالد حقانی کو مذاکرات کی ٹیبل پر لاسکتے ہیں؟؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ نئی طالبان قیادت پاکستان کے حالات پر کس طرح سے اثر انداز ہوگی۔ مذاکرات شروع ہوگے تھے یا نہیں ،حکیم اللہ محسود مذاکرات کے حق میں تھا یا نہیں اب کون سچ بول رہا ہے کون جھوٹ لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ ملا فضل اللہ اور خالد حقانی اس کے حق میں نہیں اور یہ دونوں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا بدلہ بھی لیں گے۔اب عوام کو ان کے غیض و غضب سے کون محفوظ رکھے گا حکومت پاکستان یا پاک فوج ،یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9246#sthash.fAfhMRA0.dpuf

Twitter @javerias