Posted in Uncategorized

آپریشن ضرب عضب

June 20, 2014   ………جویریہ صدیق………
نائن الیون کے بعد سے پاکستان میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے جس میں 60ہزار پاکستانی جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نے مذموم کارروایوں کے ذریعے حکومت، آرمی اور پاکستانیوں کو متعد د بار نشانہ بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبان، القاعدہ اور ازبک فدایوں نے وزیرستان میں رہنے والے عوام کے املاک پر قبضہ کرکے ان کو علاقے سے بے دخل کرکے اپنے لیے ٹھکانے بنا لیے۔ ان ٹھکانوں سے پاکستان بھر میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی حکمت عملی طے کی جاتی اور خودکش حملہ آور تیار کرکے ملک بھر میں بھیج دیے جاتے۔ میاں محمد نوازشریف نے برسراقتدار آتے ہی طالبان کو مذاکرات کی پیش کش کی اور مذاکرات ہوئے بھی لیکن بے نتیجہ رہے۔ اس دوران بھی طالبان نے عوام اور فوج کے خلاف کاروائیاں جاری رکھیں لیکن پاکستانی عوام اور حکومتی صبر کا پیمانہ جب لبریز ہوگیا جب طالبان اور ازبک فدایوں نے کراچی ائیرپورٹ کو نشانہ بنایا جس میں ان کا مقصد جناح ٹرمینل پر طیاروں اور مسافروں کو نقصان پہنچانا تھا۔ تاہم اے ایس ایف، رینجرز اور پاک فوج کی جرأت مندانہ کاروائی نے طالبان کو پسا کردیا اور طالبان دہشت گرد اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہوسکے۔
اس واقعے کے بعد ملک بھرسے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ طالبان کے خلاف ایک بہت مؤثر اور بڑے آپریشن کی ضرورت ہے۔ فوج اس سے پہلے بھی 8آپریشن طالبان کے خلاف کرچکی ہے جن میں آپریشن راہ راست، آپریشن المیزان، راہِ حق اور آپریشن راہِ نجات قابل ذکر ہیں۔ ان تمام آپریشن میں دہشت گردوں کا بھاری نقصان ہوا۔ 15جون 2014کو اب تک کا سے بڑا آپریشن طالبان اور دیگر گروپس کے خلاف لانچ کیا گیا۔ اس آپریشن کو ضرب عضب کا نا م دیا گیا ہے۔ضرب عضب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار مبارک کا نام ہے اس کا مطلب ہے کاٹ دینے والی ضرب۔یہ تلوار غزوہ بدر اور غزوہ احد میں استعمال ہوئی۔پاک فوج نے ضرب عضب آپریشن کا آغاز وزیرستان میں کیا ہے۔اس آپریشن میں آرمی لڑاکا جیٹ طیارے، گن شپ ہیلی کاپٹر کوبرا اہداف کو نشانہ بنارہے ہیں۔ اہم کاروائی میر علی، میرانشاہ، دتہ خیل، غلام خان اور شوال میں جاری ہیں۔ فضائی کارروائی کے ساتھ زمینی کاروائی بھی ساتھ ساتھ ہو رہی ہے۔ پاک آرمی کے اہم ہدف دہشت گردوں کے ٹھکانے ان کے تربیتی مراکز اور ان کے اسلحہ ڈپو ہیں۔فوجی حکام کے مطابق اب تک 232دہشت گرد وں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔وزیر اعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو پشاور کور ہیڈ کوارٹر میں مزید بریفنگ میں آگاہ کیا گیا کہ وادی شوال میں دہشت گردوں کے بڑے اسلحہ ڈپو کو تباہ کردیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ میران شاہ،ڈانڈے درپہ خیل،علی خیل،بویا،سپلگاہ،غلام خان،زراتا تنگی میں دہشت گروں کو بھاری نقصان پہنچایا گیا ہے۔ آپریشن میں اب تک 232دہشت گردوں کو جہنم واصل کردیا گیا ہے۔پاک آرمی کے 6جوانوں نے بھی شہادت کا رتبہ حاصل کیا جب کہ متعدد نوجوان زخمی ہوئے۔ملک بھر کے عوام نے اس آپریشن کے آغاز پر مسرت کا اظہار کیا ہے اور ملک کی عسکر ی اور حکومتی قیادت کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ اس آپریشن کے بعد سے متاثرہ علاقوں سے آئی ڈی پیز کی آمد کا سلسلہ بھی جاری ہے، آرمی مکمل رجسٹریشن چیکنگ کے بعد انہیں بنوں کیمپ بھجوا رہی ہے۔ بے داخل ہونے والے افراد کو پاک آرمی کی طرف سے خوارک اور ادویات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔ تاہم وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرف سے متاثرین وزیرستان کے لیے امدادی کام سست روی کا شکار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 70سے 75ہزار افراد آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے بے داخل ہوئے۔لیکن بے داخل ہونے والے افراد تما م تر مشکلات کے باوجود حکومتی فیصلے اور فوج کی آپریشن کی حکمت عملی پر خوش ہیں۔ بیشتر کے مطابق امن اور طالبان کا ان کے علاقوں سے مکمل صفایا ہوتے ہی وہ ایک بار پھر اپنے علاقوں میں واپس جا کر ایک نئی زندگی کا آغاز کریں گے۔ ہم سب کی بھی یہ ہی امید ہے آپریشن ضرب عضب کے بعد ایک نیا سورج طلوع ہوگا جس کی روشنی سے وطن عزیز کا کونا کونا جگمگا اٹھے گا۔ – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9931#sthash.1dXmONg4.dpuf

Posted in Uncategorized

وزیر اعظم کا مدبرانہ فیصلہ

January 30, 2014  

…جویریہ صدیق…
2013ء کے الیکشن کے بعد یہ ہی امید رکھی جارہی تھی کے طالبان اپنی مذموم کاروایوں کا سلسلہ روک دیں لیکن ایسا نہ ہوا اور مسلم لیگ ن کی حکومت کے پہلے 8ماہ بھی طالبان شدت سے حملے کرتے رہے جن کا نشانہ پاکستانی عوام، سیکیورٹی حکام اور اقلیتیں بنیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں پاکستانیوں کو بھاری مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
بات ہو اگر صرف جنوری 2014ء کی تو صرف ایک ماہ میں 21دہشت گردی کے حملے ہوئے جن میں 155افراد نے جام شہادت نوش کیا اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ اس نازک صورتحال پر وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف مدبرانہ فیصلہ لیے سامنے آئے۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امن کو ایک اور موقع دینا ہوگا، ہم ہتھیار اٹھانے والوں کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا تاہم طالبان کو مذاکرات سے پہلے ہتھیار ڈالنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت اور دہشت گردی کی کارروایاں ساتھ نہیں چل سکتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا تو عوام ان کے ساتھ ہے لیکن پہلے وہ مذاکرات کے خواہاں ہیں۔
وزیراعظم نے مذاکرات کے لیے چار رکنی کمیٹی کا اعلان کیا جن میں کالم نویس عرفان صدیقی، سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی، میجر (ر) عامر اور سابق سفیر رستم شاہ مہمند شامل ہیں۔ کمیٹی کی معاونت وزیر داخلہ چوہدری نثار کریں گے۔ وزیر اعظم کے خطاب کے بعد مقتدر حلقوں اور سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی۔ لوگوں کی اکثریت نے وزیراعظم کے فیصلے کو سراہا۔ ان کے مطابق 14سال سے دہشت گردی کا عذاب ان پر مسلط ہے لیکن وزیراعظم کی سنجیدہ کوششوں سے اب لگتا ہے کہ امن کی منزل دور نہیں۔ کچھ افراد نے سوشل میڈیا پر مذاکراتی کمیٹی کو نشانہ بنایا کہ اس میں دفاعی امور کے ماہر اور علمائے کرام کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ کچھ لوگ پُر امید نظر آئے کہ مذاکرات ضرور کامیاب ہوں گے۔
اپوزیشن کی طرف سے بھی مثبت ردعمل سامنے آیا۔ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جمیعت علمائے اسلام ف نے مذاکرات میں حکومت کو اپنے تعاون کا یقین دلایا تاہم ایم کیوایم نے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق دہشت گردوں کو اور مہلت دینے کی ضرورت نہیں، ان کے خلاف فوری آپریشن کی ضرورت ہے۔
تحریک طالبان پنچاب کے سربراہ عصمت اللہ معاویہ نے بھی مذاکراتی کمیٹی پر اعتماد کا اظہار کیا جبکہ تحریک طالبا ن پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد حتمی فیصلے کا کہا ہے۔
اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ طالبان اور اس کے دھڑے پاکستانی حکومت کی اس پیشکش کا کس طرح سے استعمال کرتے ہیں، کیا ان کے سب گروہ حکومت کے ساتھ بیٹھنا پسند کریں گے؟ طالبان کے کیا مطالبات ہیں؟ کیا وہ حکومت کے سامنے دل کھول سکیں گے؟ اور کیا حکومت ان کی مانگیں پوری کرسکے گی؟ یا پھر دہشت گردی کی کارروایاں جاری رہیں گے۔ حکومت کی مذاکراتی ٹیم اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوگی یہ ان کی کام کی سنجیدگی ظاہر کردے گی۔ آرمی کا رول بھی آنے والوں دنوں میں خاصا اہم ہوگا۔ اگر وزیر اعظم کی پیشکش پر طالبان نے ہتھیار ڈال دیے اور مذاکرات شروع ہوگئے تو یہ امن کے خواب کی تعبیر ثابت ہوگا لیکن اگر طالبان نے روایتی ہٹ دھڑمی دکھائی تو آگ اور بارود کا وہ سلسلہ شروع ہوگا جسے کئی نسلیں بھی ختم نہیں کر سکیں گی۔ اب طالبان کو ہمارے ساتھ مل کر سوچنا ہو گا کہ کیا ان کے بچے بھی ساری زندگی غاروں اور پہاڑوں پر گوریلا جنگ لڑتے رہیں گے یا پھر انہیں اپنی آنے والی نسلوں کو ایک اسلامی فلاحی معاشرہ دینا ہے۔
میری دعا ہے کہ اے اللہ تو رحمان اور رحیم ہے، پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے امن کے خواب کو پورا فرما اور بارد اور آگ کا یہ کھیل ہمشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو آمین
Javeria Siddique is a Journalist and Award winning photographer

. Contact at https://twitter.com/javerias

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9541#sthash.Oeneu5xs.dpuf