Posted in Uncategorized

رمضان المبارک اور شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز

July 08, 2014   …….جویریہ صدیق..

.….ماہ رمضان سب مہینوں میں افضل ہے اور اس میں کی جانے والی عبادت کا ثواب باقی تمام ایام سے زیادہ ہے۔ یہ مہینہ صبر کا درس ساتھ لیے آتا ہے۔اس ماہ کا مقصد صرف بھوکا پیاسا رہنا نہیں ہے بلکہ اس ماہ کا مقصد ایثار قربانی اخوت اور صبر کو عام کرنا ہے۔ پاکستان میں اس مہینے کے آغاز سے ہی عبادات اور سحر و افطار کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ خواتین کی بڑی تعداد مختلف پکوان تیار کرتی ہیں تاکہ روزہ افطار کرتے ہوے یا سحری میں کسی قسم کا کمی نہ ہو۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی، عزیز اقارب کو بھی دعوت افطار پر بلایا جاتا ہے جس میں انواع اقسام کے کھانے موجود ہوتے ہیں۔ہم سب اس اہتمام میں ان لوگوں کو یکسر فراموش کرجاتے ہیں جن کے پاس ایک وقت کھانے کے لیے بھی پیسے بھی نہیں ۔ایسے مستحق افراد ہمارے اردگرد موجود ہیں اور ان میں سے تمام لوگ سوال یا شکوہ بھی نہیں کرتے۔میں صرف ان کی بات نہیں کر رہی جو سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں، میں ان بات کر رہی ہوں جو کہ ہمارے رشتہ داروں، محلے داروں اور ساتھ کام کرنے والوں میں شامل ہیں۔ سفید پوشی کے بھرم کے باعث وہ کسی سے مدد بھی نہیں مانگ سکتے اور فاقے کرنے پر مجبور ہیں۔ہم سب پر فرض ہے کہ اپنے لیے خریداری کرتے ہوئے ہمیں ان کے لیے بھی اناج اور دیگر اشیاء ضرورت خرید لینی چاہئیں۔اس کے ساتھ مالی مدد بھی ایسے کی جائے کہ ان کو شرمندگی نہ ہو، تحفے کی صورت میں ہم مستحق لوگوں کی مدد آرام سے کرسکتے ہیں۔

اس وقت ملک میں آپریشن ضرب عضب جاری ہے۔شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف لڑے جانے والے آپریشن کی وجہ سے بہت سے پاکستانی بہن بھائی اپنے گھروں سے بے دخل ہو کر اب بنوں میں پناہ گزین ہیں۔ اندرون ملک بے دخل ہونے والے افراد جن کو عرف عام میں آئی ڈی پیز کہا جاتا ہے۔اس وقت ساڑھے 7لاکھ 52ہزار 320سے زائد افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہیں، بے سروسامانی کے عالم میں طویل سفر پیدل کرکے دوسرے علاقوں کا رخ کر رہے ہیں۔ اس وقت شدید گرمی اور رمضان میں نقل مکانی کرنے والے شمالی وزیرستان کے ہمارے بہن بھائی کرب میں مبتلا ہیں۔ نہ سر چھپانے کے لیے چھت ہے، نہ ہی کھانے کے لیے راشن ہے، بیماروں کے لیے نہ ہی ادویات ہیں، نہ ہی بچوں کے دودھ، خواتین کے لیے نہ ہی مناسب پردے کا نظام ہے اور نہ ہی بیت الخلا کی سہولت موجود ہے۔ حکومت اور آرمی ورلڈ، فورڈ پروگرام دیگر ادارے اس وقت امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔ بنوں میں پناہ گزینوں میں راشن اور پینے کا پانی تقسیم کیا جارہا ہے جوکہ 7لاکھ افراد کے آگے بہت حد تک نا کافی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 3لاکھ سے زائد آئی ڈی پیز بچے بھی اس وقت بنوں میں بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔پاک آرمی اور حکومت پاکستان نے ان بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے تو پلوا دئے ہیں تاہم اب بھی بہت سے خطرات ان بچوں کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔ جن میں قحط،بھوک،پیٹ کی بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ با پردہ خواتین کو اس وقت مناسب لباس کی ضرورت ہے، حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کو مناسب غذا اور معالجین کی ضرورت ہے۔

اس وقت ہم سب پر یہ فرض بنتا ہے کہ ماہ رمضان میں اپنے بہن بھائیوں کی مدد کریں، کیا ہم 18کروڑ مل کر بھی 7لاکھ نقل مکانی کرنے والے بہن بھائیوں کی مشکل کی گھڑی میں مدد نہیں کرسکتے؟کیا اپنے دسترخوان سے ایک ایک پکوان اٹھا کر اپنے بہن بھائیوں کو نہیں دے سکتے ؟افطاریوں اور عید کے لیے بنایے جانے والے ملبوسات میں سے کیا ہم اپنی با پردہ بہنوں کو کچھ نہیں دے سکتے جو اس وقت ایک چادر اور برقعے سے محروم ہیں؟ ہمیں اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ ان بچوں کا بھی سوچنا ہوگا جو اپنے کشادہ گھروں کو چھوڑ کر آج خیموں میں پناہ گزین ہیں۔ کیا اس بار ہم اپنی رمضان اور عید کی خوشیاں بنوں اور بکا خیل میں پناہ گزینوں کے ساتھ مل کر نہیں منا سکتے۔ اگر ہم سب نے قطرہ قطرہ بھی اپنا حصہ ڈالا تو یہ ہی قطرے نیکیوں اور خوشیوں کا سمندر بن جائیں گے اور ہماری قبائیلی بہن بھائیوں کے دکھوں کا مداوا ہوجائے گا۔

Javeria Siddique is a Journalist and Photographer works for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/javerias  

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9966#sthash.PVjpjP72.dpuf

Posted in Uncategorized

آپریشن ضرب عضب

June 20, 2014   ………جویریہ صدیق………
نائن الیون کے بعد سے پاکستان میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے جس میں 60ہزار پاکستانی جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نے مذموم کارروایوں کے ذریعے حکومت، آرمی اور پاکستانیوں کو متعد د بار نشانہ بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبان، القاعدہ اور ازبک فدایوں نے وزیرستان میں رہنے والے عوام کے املاک پر قبضہ کرکے ان کو علاقے سے بے دخل کرکے اپنے لیے ٹھکانے بنا لیے۔ ان ٹھکانوں سے پاکستان بھر میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی حکمت عملی طے کی جاتی اور خودکش حملہ آور تیار کرکے ملک بھر میں بھیج دیے جاتے۔ میاں محمد نوازشریف نے برسراقتدار آتے ہی طالبان کو مذاکرات کی پیش کش کی اور مذاکرات ہوئے بھی لیکن بے نتیجہ رہے۔ اس دوران بھی طالبان نے عوام اور فوج کے خلاف کاروائیاں جاری رکھیں لیکن پاکستانی عوام اور حکومتی صبر کا پیمانہ جب لبریز ہوگیا جب طالبان اور ازبک فدایوں نے کراچی ائیرپورٹ کو نشانہ بنایا جس میں ان کا مقصد جناح ٹرمینل پر طیاروں اور مسافروں کو نقصان پہنچانا تھا۔ تاہم اے ایس ایف، رینجرز اور پاک فوج کی جرأت مندانہ کاروائی نے طالبان کو پسا کردیا اور طالبان دہشت گرد اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہوسکے۔
اس واقعے کے بعد ملک بھرسے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ طالبان کے خلاف ایک بہت مؤثر اور بڑے آپریشن کی ضرورت ہے۔ فوج اس سے پہلے بھی 8آپریشن طالبان کے خلاف کرچکی ہے جن میں آپریشن راہ راست، آپریشن المیزان، راہِ حق اور آپریشن راہِ نجات قابل ذکر ہیں۔ ان تمام آپریشن میں دہشت گردوں کا بھاری نقصان ہوا۔ 15جون 2014کو اب تک کا سے بڑا آپریشن طالبان اور دیگر گروپس کے خلاف لانچ کیا گیا۔ اس آپریشن کو ضرب عضب کا نا م دیا گیا ہے۔ضرب عضب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار مبارک کا نام ہے اس کا مطلب ہے کاٹ دینے والی ضرب۔یہ تلوار غزوہ بدر اور غزوہ احد میں استعمال ہوئی۔پاک فوج نے ضرب عضب آپریشن کا آغاز وزیرستان میں کیا ہے۔اس آپریشن میں آرمی لڑاکا جیٹ طیارے، گن شپ ہیلی کاپٹر کوبرا اہداف کو نشانہ بنارہے ہیں۔ اہم کاروائی میر علی، میرانشاہ، دتہ خیل، غلام خان اور شوال میں جاری ہیں۔ فضائی کارروائی کے ساتھ زمینی کاروائی بھی ساتھ ساتھ ہو رہی ہے۔ پاک آرمی کے اہم ہدف دہشت گردوں کے ٹھکانے ان کے تربیتی مراکز اور ان کے اسلحہ ڈپو ہیں۔فوجی حکام کے مطابق اب تک 232دہشت گرد وں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔وزیر اعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو پشاور کور ہیڈ کوارٹر میں مزید بریفنگ میں آگاہ کیا گیا کہ وادی شوال میں دہشت گردوں کے بڑے اسلحہ ڈپو کو تباہ کردیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ میران شاہ،ڈانڈے درپہ خیل،علی خیل،بویا،سپلگاہ،غلام خان،زراتا تنگی میں دہشت گروں کو بھاری نقصان پہنچایا گیا ہے۔ آپریشن میں اب تک 232دہشت گردوں کو جہنم واصل کردیا گیا ہے۔پاک آرمی کے 6جوانوں نے بھی شہادت کا رتبہ حاصل کیا جب کہ متعدد نوجوان زخمی ہوئے۔ملک بھر کے عوام نے اس آپریشن کے آغاز پر مسرت کا اظہار کیا ہے اور ملک کی عسکر ی اور حکومتی قیادت کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ اس آپریشن کے بعد سے متاثرہ علاقوں سے آئی ڈی پیز کی آمد کا سلسلہ بھی جاری ہے، آرمی مکمل رجسٹریشن چیکنگ کے بعد انہیں بنوں کیمپ بھجوا رہی ہے۔ بے داخل ہونے والے افراد کو پاک آرمی کی طرف سے خوارک اور ادویات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔ تاہم وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرف سے متاثرین وزیرستان کے لیے امدادی کام سست روی کا شکار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 70سے 75ہزار افراد آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے بے داخل ہوئے۔لیکن بے داخل ہونے والے افراد تما م تر مشکلات کے باوجود حکومتی فیصلے اور فوج کی آپریشن کی حکمت عملی پر خوش ہیں۔ بیشتر کے مطابق امن اور طالبان کا ان کے علاقوں سے مکمل صفایا ہوتے ہی وہ ایک بار پھر اپنے علاقوں میں واپس جا کر ایک نئی زندگی کا آغاز کریں گے۔ ہم سب کی بھی یہ ہی امید ہے آپریشن ضرب عضب کے بعد ایک نیا سورج طلوع ہوگا جس کی روشنی سے وطن عزیز کا کونا کونا جگمگا اٹھے گا۔ – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9931#sthash.1dXmONg4.dpuf

Posted in Uncategorized

لہو لہان جنوری

January 27, 2014   …جویریہ صدیق…
نئے سال پر یہ امید رکھی جاتی ہے کے آنے والا سال خوشیوں کی شنید لے کر آئے گا اور دو ہزار چودہ کے حوالے سے ہم پاکستانیوں کی بھی یہ امید تھی۔لیکن اس کے برعکس چڑھتے سال کے سورج کی کرنوں سے منور ہونے کے بجائے پاکستان ایک بار پر خون سے نہلا دیا گیا۔

26 جنوری کو دستی بم کے حملے میں ہنگو میں چھ بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کراچی میں دس افراد جان سے گئے۔

25 جنوری کو کراچی میں دو بم دھماکوں کے نتیجے میں سات پولیس اہلکار سمیت اٹھارہ لوگ جان بحق ہوئے۔

24 جنوری کو کراچی سمیت مختلف شہروں میں پنتالیس کریکر دھماکے ہوئے اور چار افراد جاں بحق ہوئے۔

23 تاریخ کو پشاور میں ورکشاپ میں کار بم دھماکہ ہوا جس میں سات افراد جان سے گئے اور بارہ زخمی ہوگئے۔

22 جنوری کو مستونگ میں چھ سیکورٹی اہلکار جان بحق ہوئے اور چار سدہ میں انسداد پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس وین کو دھماکے میں اڑا دیا گیا جس کے نتیجے میں ایک بچے سمیت چھ اہلکار مارے گئے اور گیارہ افراد زخمی ہوئے۔

21 جنوری کو مستونگ میں بس پر خود کش حملہ ہوا جس کے نتیجے میں چوبیس زائرین جان بحق اورپینتس زخمی اور اکیس جنوری کو کراچی میں انسداد پولیو کے تین اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

20 جنوری کو جی ایچ کیو کے قریب خودکش حملے میں آٹھ اہلکار سیمت تیرہ افراد آر اے بازار میں اپنی جان سے گئے۔

19جنوری کو بنوں میں بم دھماکے کے نتیجے میں بایس ایف سی اہلکار شہید اور تیس زخمی

18جنوری کو کراچی میں بم حملے میں دو شہری جاں بحق

17جنوری کو میڈیا اور علماء پرحملے میں نو افراد جاں کی بازی پر ہار گئے

16جنوری کو پشاور تبلیغی مرکز میں دھماکہ آٹھ نمازی شہید، ساٹھ افراد زخمی ہوگئے۔

15جنوری کو نوابشاہ میں اسکول کی بس ڈمپر سے ٹکراگی طلباء طالبات سمیت اکیس افراد جان سے گئے جبکہ کراچی میں فائرنگ کے واقعات میں آٹھ افراد جان سے گئے۔

12جنوری کو شانگلہ کے مقام پر وزیراعظم کے مشیر امیر مقام کے قافلے پر حملہ ہوا اور چھ ا فراد جاں بحق ہوگئے۔

9 جنوری کو سی آئی ڈی کے ایس پی چوہدری اسلم خودکش حملے میں شہید ہوگئے۔

8 جنوری کو مری میں دو بسیس کھائی میں جا گریں جس کے نتیجے میں پندرہ افراد ہلاک اور چونتیس زخمی ہوگئے۔

6 جنوری کو ہنگو میں اعتزاز نامی طالب علم نے اسکول پر خود کش حملے کو ناکام بنا کر جام شہادت نوش کیا۔

5 جنوری کو کراچی میں دس افراد نے جان کی بازی ہاری۔

2 جنوری کو کوئٹہ میں خودکش حملے میں پانچ افراد جان جاں بحق اور تیس زخمی

دہشت گردی نے پاکستانیوں کی کمر توڑ رکھی ہے صرف تحریک طالبان پاکستان ہی نہیں اور بھی بہت سے خفیہ ہاتھ اس میں ملوث ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ دوسروں کے لیے لڑتے لڑتے آج پاکستان خود اس آگ کی لپیٹ میں آگیا ہے اور پاکستانی اس آگ میں جھلس رہے ہیں۔ میرا آپ سب سے سوال ہے اس صورتحال میں مذاکرات زیادہ اہم ہیں یا پھر ایک ایسا موثر آپریشن جس سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جاسکے؟۔اوپر ذکر کیے گیے اعدادوشمار تو صرف اس سال جنوری کے ہیں جن میں پاکستانیوں نے کس طرح خودکش حملوں، بم دھماکوں اور حادثات میں جان گنوائی لیکن اگر نائن الیون کے بعد سے پاکستانیوں کے نقصانات نا قابل شمار ہیں، پچاس ہزار سے زائد پاکستانی اپنی جان اور مال سے گئے۔کیا آپ سب کو نہہں لگتا کہ ہم سب پاکستانیوں کا بھی یہ حق ہے کہ ہم پر امن زندگی گزاریں ہمیں تعلیم، صحت ،روٹی،کپڑا اور مکان جیسی بنیادی سہولیات میسر ہو۔ایک ایسا دیس ہو جہاں کوئی بھی حکمران صرف ایک دھمکی پر پورے ملک کو ایک پرائی جنگ میں نا جھونک ڈالے بلکہ وہ صرف روشن پاکستان کی بات کرے۔کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ ہم پاکستان کے تمام علاقوں سے دہشت گردوں اور شورش برپا کرنے والوں دہشت گردوں، علحیدگی پسندوں کا خاتمہ کردیں۔ میں آپ سب کی آرا کی منتظر ہوں اور دیکھنا یہ ہے پاکستان کے مسائل کا حل حکومت کے طرف سے مذاکرات سے نکل آئے گا یا پھر آپریشن کیا جائے گا؟

Javeria Siddique is a Journalist and Award winning photographer. Contact at https://twitter.com/javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9530#sthash.kFPyI01H.dpuf

Posted in Uncategorized

نئے آرمی چیف

November 28, 2013   …جویریہ صدیق…

وزیر اعظم نواز شریف اورنئے آرمی چیف راحیل شریف کے آخری نام میں مماثلت کی وجہ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب پاکستان میں شریفوں کا سکہ چلے گا۔ جنرل پرویز مشرف اور جنرل ضیاء الدین بٹ کے انتخاب کے مقابلے میں نواز شریف نے اس بار زیادہ دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور نئے آرمی چیف کا انتخاب رات کی تاریکی نہیں بلکے دن کے اجالے میں کیا گیا۔

اگر بری فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف کی پروفیشنل زندگی کا جائزہ لیں تو اکتوبر1976 میں فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ جرمنی برطانیہ اور کینیڈا سے اعلیٰ عسکری تعلیم حاصل کی، پاکستان ملٹری اکیڈمی کے کمانڈنٹ اور گوجرانوالہ میں کور کمانڈر تعینات رہے۔دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں فوجیوں کی تربیت اور نصاب میں جدت کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔ پاک فوج کے تربیتی ادارے کے انسپکٹر جنرل مقر ر ہونے پر فوجیوں کو ملک کے اندر دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے کے لیے جدید مشقیں اور وار کورسز کروائے۔

لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف 16 جون 1956 کو ریٹایرڈ فوجی میجر کے گھرپیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم گورنمنٹ کالج سے حاصل کی۔ آپ پاکستان کے نشان حیدر پانے والے شہید میجر شبیر شریف کے بھائی ہیں اور آپ کے انکل میجر عزیز بھٹی نے بھی اپنی جان کی قربانی دے کر نشان حیدر کا اعزاز حاصل کیا، ان کے خاندان کی وطن کے لیے خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں۔راحیل شریف دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے والد ہیں۔ شکار، تیراکی اور مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں۔

جنرل راحیل شریف کی آرمی چیف کے طور پر تعیناتی کو خوش آئند قرار دیا جارہا ہے فوج کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ان کی کارکردگی میں اضافے کے لیے جدید مشقیں،عصر حاضرکے مطابق عسکری تربیت ان کی اولین ترجیح ہوگی۔ جمہوری حکومت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات استور رکھنے کی امید کی جارہی ہے۔فوج کے پندرہویں سربراہ کے طور پر جنرل راحیل شریف سے امید رکھی جارہی ہے کہ وہ سبکدوش ہونے والے جنرل کیانی کی پالیسیوں کو آگے لے کر چلیں گے۔تاہم جنرل راحیل شریف کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، اس میں فاٹا کی صورتحال،انسداد دہشت گردی کی جنگ میں پاکستانی فوج کے کردار کا فیصلہ، افغانستان سے نیٹو فوج کے انخلا کے بعد کی صورتحال اور بھارت کے ساتھ تعلقات اہم ہوں گے۔اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ پاکستان کے نئے آرمی چیف راحیل شریف وزیر اعظم نوازشریف کے ساتھ مل کر ان مسائل سے کیسے نبرد آزما ہوں گے۔

ْJaveria Siddique is a Journalist and Award winning photographer. Contact at https://twitter.com/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9343#sthash.nSmmAfzj.dpuf

Posted in Uncategorized

تحریک طالبان کی نئی قیادت

November 09, 2013   ۔۔۔ جویریہ صدیق ۔۔۔
پاکستانی حکومت کی رٹ کو چلینج کرنے والا،پاک فوج پر حملوں میں ملوث،سوات میں اپنی غیر قانونی حکومت قائم کرنے والا،انسداد پولیو مہم کے خلاف اور ہیلتھ ورکرز پر قاتلانہ حملوں میں ملوث،لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف،ملالہ پر قاتلانہ حملے کا ماسڑ مائنڈ، میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کو نشانہ بنانے والا، نظام عدل والے صوفی محمد کا داماد،میں بات کر رہی ہوں تحریک طالبان پاکستان کے نئے سربراہ ملا فضل اللہ کی۔ یکم نومبر کوحکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد کافی دن نئے امیر کے نام پر مشاورت ہوتی رہی اور قرعہ فال ملا فضل اللہ کے نام نکلا۔ موصوف نے آتے ہی پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار اور حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کردیا ہے تو جناب پہلے کون سا ملا فضل اللہ کے دل میں پاکستان کے لئے درد تھا جو اب ان میں کوئی تبدیلی آجاتی، آپ جناب تو شروع سے ہی پور ے پاکستان میں متوازی حکومت قائم کرنے کے خواب دیکھتے رہے ہیں۔
ملا فضل اللہ 2005ء میں اس وقت منظر عام پر آیا جب سوات میں ملا ریڈیو کی نشریات کے ذریعے سے انہوں نے عوام الناس میں حکومت پاکستان کے خلاف نفرت آمیز پیغام پھیلانا شروع کئے ان کے پیغامات پاکستانی حکومت ،انسداد پولیو مہم ، مغربی ممالک اور خواتین کی تعلیم کے خلاف ہوتے تھے۔ 2009ء میں فوج کے سوات میں کامیاب آپریشن کے بعد ملا فضل اللہ نورستان (افغانستان) فرار ہوگیا اور افغانستان سے پاکستان کے خلاف کاروائیاں کرتے رہے۔
طالبان شوریٰ نے اپنا نائب شیخ خالد حقانی کو مقرر کیا ہے اور ان کے کارناموں کی فہرست بھی طویل ہے، شب قدر میں ایف سی پر حملہ، بشیر بلور اور اسفند یار ولی پر حملہ ان کے جرائم میں شامل ہے۔ میڈیا سے خاص نفرت رکھتاہے اورپاکستانی میڈیا کو دجالی میڈیا قرار دیتے ہویئے متعدد فتوے دے چکا ہے۔
اب پاکستان میں وہ لوگ جو حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد آنسو بہا رہے تھے اور انہیں شہید کے درجے پر فائز کر رہے تھے کیا وہ ملا فضل اللہ اور شیخ خالد حقانی کو مذاکرات کی ٹیبل پر لاسکتے ہیں؟؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ نئی طالبان قیادت پاکستان کے حالات پر کس طرح سے اثر انداز ہوگی۔ مذاکرات شروع ہوگے تھے یا نہیں ،حکیم اللہ محسود مذاکرات کے حق میں تھا یا نہیں اب کون سچ بول رہا ہے کون جھوٹ لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ ملا فضل اللہ اور خالد حقانی اس کے حق میں نہیں اور یہ دونوں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا بدلہ بھی لیں گے۔اب عوام کو ان کے غیض و غضب سے کون محفوظ رکھے گا حکومت پاکستان یا پاک فوج ،یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9246#sthash.fAfhMRA0.dpuf

Twitter @javerias