Posted in Pakistan

آزادی انقلاب مارچ اور صحافی

آزادی انقلاب مارچ اور صحافی

Posted On Wednesday, September 03, 2014   …….جویریہ صدیق…….پاکستان میں صحافیوں کے لیےحالات سازگار کبھی نہیں رہے لیکن پاکستانی صحافیوں نے حالات کا مقابلہ ہمیشہ جوانمردی سے کیا۔ کبھی دہشت گردوں تو کبھی سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ کا سامنا کیا تو کبھی خفیہ ہاتھ ان کے کام میں روڑے اٹکاتے رہے لیکن پھر بھی صحافی دن رات محنت کرکے سچ اور حقایق عوام کے سامنے لا تے رہے۔پاکستان میں اب تک 75صحافی اور 6میڈیا ورکرز فرایض کی ادائیگی کے دوران اپنے جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ان میں سے 60فیصد صحافی سیاسی جماعتیں کور کیا کرتے تھے، باقی ہیومین رایٹس، کرپشن، کرائم اور وار رپورٹ کیا کرتے تھے۔ صحافیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آزادی اور انقلاب مارچ کا اعلان کیا۔ آغاز سے ہی رپورٹرز نے پل پل کی خبر ناظرین تک پہنچائی لیکن پھر بھی دوران مارچ کارکنان نے میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں کا آغاز کردیا۔ سب سے پہلے تحریک انصاف کے کارکنان نے آبپارہ میں جیو کی ڈی ایس این جی وین پر حملہ کیا اور خاتون صحافی سمیت عملے کو ہراساں کیا اور دو گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا۔ عمران خان کے تندوتیز جملوں نے جلتی پر تیل ڈالا اور اگلے ہی دن دو اور جیو نیوز کے سینئر صحافی تحریک انصاف کے کارکنوں کے عتاب کا نشانہ بننے اور جیو کے کیمرہ مین کو زدوکوب کرکے اس کا کیمرہ توڑ دیا گیا۔ با ت صرف یہاں تک ختم نہیں ہوئی 22اگست کو ڈی چوک میں پھر جیو نیوز کی ٹیم کو کوریج کے دوران نشانہ بنایا گیا اور ڈی ایس این جی کے سسٹم کو زبردستی بند کروادیا۔ اس کےساتھ ساتھ دو بار جیو اور جنگ کے دفاتر پر پتھراؤ کیا گیا جس سے بلڈنگ کے بیشتر شیشے ٹوٹ اور عملے کو ہراساں کیاگیا۔ جیو اور جنگ گروپ کی جانب سے پر امن رہنے کی معتدد اپیلیں کی گیئں تاہم تحریک انصاف کے کارکنان اشتعال انگیری سے باز نہیں آئے۔

دوسری طرف ہفتے کو ڈی چوک میں پولیس نے میڈیا کوریج کے لیے موجود صحافیوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 7نجی چینلز کے 6رپورٹرز، 18کیمرہ مین اور 4میڈیا ورکرز زخمی ہوئے۔ ان کو زدوکوب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مائیک اور کیمرے بھی توڑ دئیے گئے۔ دونوں ہی واقعات میں اعلیٰ حکام اور سیاسی قیادت کی طرف سے زبانی مذمت تو آگئی لیکن نقصان کا ازالہ یا مدد نہیں فراہم کی گئی۔ پی ایف یوجے کے صدرافضل بٹ نے اس صورتحال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ملک بھر میں صحافتی تنظیموں کی طرف سے پر امن احتجاج کی کال دی ہے، ان کے مطابق صحافیوں پر حملے افسوس ناک ہیں لیکن صحافیوں کو بھی چاہیے کہ وہ غیر جانبدار ہوکر رپورٹنگ کریں اور سنسنی پھیلانے سے گریز کریں۔ آزادی اور انقلابی مارچ میں جہاں پرایویٹ میڈیا تو نشانہ بنا ہی وہاں پر سرکاری ٹی وی پی ٹی وی کو بھی نہیں بخشا گیا۔ شاہراہ دستور سے صرف چند منٹ کے فاصلے پر پی ٹی وی کی عمارت واقع ہے، پیر کی صبح تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے سینکڑوں کارکنان نے پی ٹی وی کی عمارت پر حملہ کیا اور اس پر قابض ہوگئے۔ مسلح کارکنان نے ٹی وی کے کنٹرول روم پر قبضہ کرکے پی ٹی وی کی نشریات بند کروادی۔ بعد میں پاک فوج کے افسران اور جوان جوکہ اس وقت ریڈ زون کی سیکورٹی پر مامور ہیں، ان کی مداخلت پر مظاہرین نے عمارت خالی کر دیاس کے بعد مظاہرین نے اپنی توپوں کا رخ پر جیو کی طرف کردیا اور جیو نیوز کے رپورٹرز کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ ڈی ایس این جی پر ڈنڈے برساتے رہے۔ اس ساری صورتحال پر صحافیوں کی عالمی تنظیم آئی ایف جے نے کہا ہے کہ پاکستان میں جاری مارچ میں صحافیوں پر پہ در پہ حملوں نے میڈیا کے لیے حالات کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ پولیس کا کام صحافیوں کی حفاظت کرنا ہے، ان پر تشدد کرے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ آئی ایف جے کے ڈائریکٹر جین ورتھنگٹن نے کہا ہے کہ پاکستانی صحافی بہت مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔ صحافیوں پر حملے قابل مذمت ہیں حکومت اور سیاسی جماعتیں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ اختلاف جمہوریت کا حسن ہے اس لیے دیگر طبقہ فکر کے مؤقف کا احترام کریں اور چینلز کو آزادی کے ساتھ سب کا مؤقف بیان کرنے دیں۔ ان کے مطابق سیاسی جماعتیں آزادیٔ رائے پر قدغن نہ لگائیں۔ پی ٹی وی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ نے کہا کہ سیاسی کارکنان کے طرف سے سرکاری ٹی وی پر حملہ افسوس ناک ہے، اس معاملے فوری طور پر چھان بین کی جائے اور صحافی بنا حفاظتی اقدامات کے کوریج سے گریز کریں یا فاصلہ رکھ کر کوریج کریں۔ آئی ایف جے نے پاکستانی صحافیوں کے لیے حفاظتی ہدایت نامہ جاری کیا جو اس وقت آزادی اور انقلابی مارچ کور کررہیں۔اس کے مطابق صحافی مکمل پلان کے ساتھ کوریج کے لیے جائیں، کوشش کریں کہ اپنی ٹیم کے ساتھ رہیں۔ موبائل فون چارج کرکے لے کر جائیں فرسٹ ایڈ کٹ ساتھ رکھیں، آنسو گیس سے بچنے کے لیے ماسک اور چشمے ساتھ رکھیں۔ شوخ لباس پہننے سے گریز کریں، کھلے کپڑے پہنیں اور آرام دہ جوتے پہن کر جائیں۔بالکل چھوٹا سا بیگ لے کر جائیں جس میں پانی اور کھانے کی اشیاء ہوں۔ کوریج کے مقام پر پہنچ کر اپنے آفس کےشناختی کارڈ چھپا کر رکھیں، اگر ہجوم مشتعل ہے تو لوگوں بھی استعمال نہ کریں۔ لوگوں سے فاصلہ رکھیں اور کسی کا انٹرویو لینا مقصود ہو تو اس شخص کو ہجوم سے الگ لے جا کر بات کریں۔اگر مارچ کور کرتے ہوئے ہنگامے شروع ہوجائیں تو فوری طور پر بھاگ کر اس جگہ سے دور ہو جائیں،ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹ ہرگز نہ اتاریں۔مظاہرین سے مکمل دور رہیں، ان کی کسی اشیاء کو ہاتھ نہیں لگائیں۔ اگر پولیس آنسو گیس کا استعمال کرے تو پانی سے منہ پر چھڑکاؤ کریں اور فوری طور پر اپنی عینک اور ماسک پہن لیں۔ اگر ربڑ کی گولیاں فائر ہوں تو فوری طور پر کسی چیز کی آڑ لے لیں۔ آئی ایف جے کے مطابق صحافی ہیلمٹ، آیئ شیلڈ، بلٹ پروف جیکٹ لازمی طور پر استعمال کریں۔ کوریج کے دوران پولیس اور دھرنے کے شرکاء سے نرمی سے بات کریں، سیکورٹی حکام سے مکمل تعاون کریں، ان کو فوراً اپنا آفس کارڈ دکھائیں۔اگر ڈی ایس این جی میں یا آفس کی کار سے کوریج کررہے ہیں تو گاڑی کے دروازے بند رکھیں۔ کیمرہ مین کوشش کریں کہ وہ کسی بلندی سے عکس بندی کریںاور ہجوم سے اجتناب کریں۔

اب چینلز انتظامیہ پر فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے کارکنان کو مکمل حفاظتی اقدامات کہ ساتھ دھرنے اور دیگر اساینمنٹس پر بھجوائیں۔ اس کے ساتھ حکومت انتظامیہ اور سیاسی جماعتیں بھی اپنے لوگوں کو پابند کریں کہ وہ میڈیا کو ان کا کام آزادی کے ساتھ کرنے دیں۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10150#sthash.TiHz0MTA.dpuf

Posted in Uncategorized

انقلابی مون سون

, August 26, 2014   ………جویریہ صدیق………اگست میں انقلابی مارچ کے مون سون نے بہت سےپاکستانیوں کو سیاسی بخار میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس وقت واضح طور پاکستانی تین حصوں میں بٹ گےہیں۔ ایک ہی گھر میں درمیانی عمر کے افراد مسلم لیگ ن کے حامی یعنی حکومت کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے، اس ہی گھر کے نوجوان انقلاب کے لے پر جوش پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے ساتھ کھڑے اور تیسرا طبقہ وہ ہے جو ان دونوں کو یہ سمجھانے میں لگا ہوا ہے کہ پاکستان کسی نئے تجربے کا متحمل نہیں ہوسکتا، سب کی ترجیحات ملک کی ترقی پرمرکوز ہونی چاہیئے ذاتیات پر نہیں۔

موجودہ حالات میں بیشتر پاکستانی ٹی وی کے آگے بیٹھے رہتے ہیں اور دن رات تجزیئے سننے کے بعد خود بھی کافی حد تک مفکر بن گئے۔ جیسے ہی بریکنگ نیوز ٹی وی پر چلتی ہے پاکستانی عوام فوری طور پر فیس بک اور ٹویٹر پر اپنی آرا کا برملا اظہار کرنے لگ جاتے ہیں۔ سب اپنے اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہیں اور اگر کوئی ان سے اختلاف کی جرأت کرے تو اس کو چھٹی کا دودھ یاد دلادیتے ہیں۔ 13دن ہوگئے اسلام آباد میں تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان دھرنا دیئے بیٹھے ہیں، ہر روز ان دونوں پارٹیوں کی طرف سے نئے مطالبات سامنے آجاتے ہیں۔ پرجوش اور جذباتی تقاریر کارکنان کا جوش گرمانے کے لیے کی جاتی ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کبھی وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہیں، کبھی الیکشن کمیشن پر جانبداری کا الزام لگاتے ہیں تو کبھی توپوں کا رخ جیو جنگ گروپ کی طرف کردیتے ہیں اور جس دن کہنے کو کچھ نہ ہو تو اپنی شادی کا شوشہ چھوڑ کر پورے پاکستان کو ہی حیران کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے کبھی حکومت کی بر طرفی کا مطالبہ کیا تو کبھی اسمبلیاں توڑنے کا مطالبہ اور اس دن تو حد ہوگی کہ جس دن کارکنان کو قومی اسمبلی پر قابض ہونے کا کہہ دیا اور کہا کہ یہاں پارلیمنٹ میں شہدا کا قبرستان بنے گا بعد میں خیر وہ اس مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے، کل وہ کفن لیے آئے جس سے عوامی کارکنان کی بڑی تعداد کی آنکھوں سے آنسو چھلک گئے۔ یہ خطابات کا سلسلہ 13دن سے جاری ہے، عوام سڑکوں پر موجود ہیں اور انقلابی اس کو اپنی اخلاقی فتح قراد دے رہے ہیں۔ انقلاب کے خواہاں پاکستانیوں کے مطابق مسلم لیگ ن کی حکومت بری طرح ناکام ہوچکی ہے اس لیے ان کو مستعفی ہوکر گھر واپس جانا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ملک میں دمادم مست قلندر ہوگا۔ اب یہ دم مست قلندر کیا ہوتا ہے سیانے کہتے ہیں کہ رات گئے شاہراہِ دستور پر موسیقی کی دھن پر دم مست قلندر ہی ہوتا ہے خیر لیکن اس سے انقلاب تو آنے رہا۔

دوسری طرف ایک طبقہ حکومت کو سپورٹ کر رہا ہے ان کے مطابق جمہوریت کا تسلسل ملک میں بر قرار رہنا چاہیے اس لیے 2018سے پہلے انتخابات کا خواب نہ ہی دیکھا جائے۔ مسلم لیگ کے حامیوں کے مطابق حکومت نے مظاہرین کو بہت حد تک فری ہینڈ دے رکھا ہے اس لیے اس آزادی کا ناجائز فائدہ نا اٹھایا جائے۔ وزیر اعظم بھی یہ خود کہہ چکے ہیں کہ ٹانگیں نہ کھینچی جائیں اور ہمیں کام کرنے دینا چاہئے۔ جی میاں صاحب اگر آپ چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ سنجیدگی سے لے لیتے اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلتے تو آج یہ حالات ہی نہیں ہوتے۔

خیرآج کل خوب انقلاب کے حامیوں اور حکومت کے حامیوں میں گرما گرم بحث جاری ہے۔گھر ہو سوشل میڈیا، دفاتر ہو یا تفریح گاہیں، یہ دنوں ہر دم بس ایک دوسرے سے لڑنے کو تیار اور اکثر اوقات اس طرح کی سیاسی بحث کا اختتام دوستی کے اختتام کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ اس ساری صورتحال پر پاکستانی غیرجانبدارسنجیدہ طبقہ بہت سے فکرات کا شکار ہے کیونکہ اگر عوامی سطح پر ہم برداشت اور تحمل سے ایک دوسرے کا مؤقف سننے سے گریزاں ہیں تو ہمارے لیڈران سے پھر ہم آپس میں تحمل مزاجی یا مذاکرات کی امید کیوں رکھتے ہیں۔ اس طبقے کے مطابق اب اس تمام سیاسی بحران کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ملک میں انتشار کی کیفیت پھیل گی اور معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔اب لیڈران کو اپنی اپنی انا اور ذاتی عناد کو ایک طرف رکھتے ہوئے ملکی مفاد میں فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ان دھرنوں کو ختم کیا جائے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج کی جائے۔ اپوزیشن اور حکومت با مقصد مذاکرات کرے اور الیکشن کمیشن میں اصلاحات کے لیے ممبران اسمبلی سفارشات مرتب کریں۔

کب آئے گا، انقلاب اور کب ملے گی، آزادی اس کا انتظار تو سب کو ہے لیکن یہ انقلابی مون سون بادلوں سے تو برسنے سے رہا، اس کے لیے ہم سب کو محنت کرنی ہو گی لیکن قوانین اور جمہوریت کے دائرہ کار میں رہ کر۔اس وقت مہنگائی، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی عوام کا بڑا مسئلہ ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے 9لاکھ حکومت اور عوام کی توجہ کے زیادہ مستحق ہیں۔ اس لیے اب سب مل کر سوچنا ہوگا کہ سب کے اپنے اپنے تجزیے تبصرے مفادات زیادہ اہم ہیں یا پاکستان۔ لیڈران کی انا 9لاکھ آئی ڈی پیز سے بڑھ کر تو نہیں اس لیے سیاسی اختلافات کو ختم کرکے فوری طور پر تکلیف میں مبتلا ہم وطنوں کے درد کا مداوا ضروری ہے۔ دنیا ہماری سیاسی ناپختگی کا مذاق اڑا رہی ہے اس لیے ہمیں سیاسی مسائل کو حل کرکے فوری طور پر بین الاقوامی حالات کے مطابق اپنی سفارتی تعلقات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔نہ ہمیں نیا پاکستان چاہیے نہ ہی روشن پاکستان ہمیں صرف قائد اعظم کا پاکستان چاہیے جس میں اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کا تصور موجود ہے۔ بہت ہوا بس اب اس انقلابی بخار کو اتار پھینکنا ہوگا اس میں ہی پاکستان کی بقا ہے۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias

javeria.siddique@janggroup.com.pk   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10110#sthash.j9m4eDGf.dpuf

Posted in Uncategorized

آزادی انقلاب مارچ اور صحافی

September 03, 2014   …….جویریہ صدیق…….پاکستان میں صحافیوں کے لیےحالات سازگار کبھی نہیں رہے لیکن پاکستانی صحافیوں نے حالات کا مقابلہ ہمیشہ جوانمردی سے کیا۔ کبھی دہشت گردوں تو کبھی سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ کا سامنا کیا تو کبھی خفیہ ہاتھ ان کے کام میں روڑے اٹکاتے رہے لیکن پھر بھی صحافی دن رات محنت کرکے سچ اور حقایق عوام کے سامنے لا تے رہے۔پاکستان میں اب تک 75صحافی اور 6میڈیا ورکرز فرایض کی ادائیگی کے دوران اپنے جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ان میں سے 60فیصد صحافی سیاسی جماعتیں کور کیا کرتے تھے، باقی ہیومین رایٹس، کرپشن، کرائم اور وار رپورٹ کیا کرتے تھے۔ صحافیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آزادی اور انقلاب مارچ کا اعلان کیا۔ آغاز سے ہی رپورٹرز نے پل پل کی خبر ناظرین تک پہنچائی لیکن پھر بھی دوران مارچ کارکنان نے میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں کا آغاز کردیا۔ سب سے پہلے تحریک انصاف کے کارکنان نے آبپارہ میں جیو کی ڈی ایس این جی وین پر حملہ کیا اور خاتون صحافی سمیت عملے کو ہراساں کیا اور دو گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا۔ عمران خان کے تندوتیز جملوں نے جلتی پر تیل ڈالا اور اگلے ہی دن دو اور جیو نیوز کے سینئر صحافی تحریک انصاف کے کارکنوں کے عتاب کا نشانہ بننے اور جیو کے کیمرہ مین کو زدوکوب کرکے اس کا کیمرہ توڑ دیا گیا۔ با ت صرف یہاں تک ختم نہیں ہوئی 22اگست کو ڈی چوک میں پھر جیو نیوز کی ٹیم کو کوریج کے دوران نشانہ بنایا گیا اور ڈی ایس این جی کے سسٹم کو زبردستی بند کروادیا۔ اس کےساتھ ساتھ دو بار جیو اور جنگ کے دفاتر پر پتھراؤ کیا گیا جس سے بلڈنگ کے بیشتر شیشے ٹوٹ اور عملے کو ہراساں کیاگیا۔ جیو اور جنگ گروپ کی جانب سے پر امن رہنے کی معتدد اپیلیں کی گیئں تاہم تحریک انصاف کے کارکنان اشتعال انگیری سے باز نہیں آئے۔

دوسری طرف ہفتے کو ڈی چوک میں پولیس نے میڈیا کوریج کے لیے موجود صحافیوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 7نجی چینلز کے 6رپورٹرز، 18کیمرہ مین اور 4میڈیا ورکرز زخمی ہوئے۔ ان کو زدوکوب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مائیک اور کیمرے بھی توڑ دئیے گئے۔ دونوں ہی واقعات میں اعلیٰ حکام اور سیاسی قیادت کی طرف سے زبانی مذمت تو آگئی لیکن نقصان کا ازالہ یا مدد نہیں فراہم کی گئی۔ پی ایف یوجے کے صدرافضل بٹ نے اس صورتحال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ملک بھر میں صحافتی تنظیموں کی طرف سے پر امن احتجاج کی کال دی ہے، ان کے مطابق صحافیوں پر حملے افسوس ناک ہیں لیکن صحافیوں کو بھی چاہیے کہ وہ غیر جانبدار ہوکر رپورٹنگ کریں اور سنسنی پھیلانے سے گریز کریں۔ آزادی اور انقلابی مارچ میں جہاں پرایویٹ میڈیا تو نشانہ بنا ہی وہاں پر سرکاری ٹی وی پی ٹی وی کو بھی نہیں بخشا گیا۔ شاہراہ دستور سے صرف چند منٹ کے فاصلے پر پی ٹی وی کی عمارت واقع ہے، پیر کی صبح تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے سینکڑوں کارکنان نے پی ٹی وی کی عمارت پر حملہ کیا اور اس پر قابض ہوگئے۔ مسلح کارکنان نے ٹی وی کے کنٹرول روم پر قبضہ کرکے پی ٹی وی کی نشریات بند کروادی۔ بعد میں پاک فوج کے افسران اور جوان جوکہ اس وقت ریڈ زون کی سیکورٹی پر مامور ہیں، ان کی مداخلت پر مظاہرین نے عمارت خالی کر دیاس کے بعد مظاہرین نے اپنی توپوں کا رخ پر جیو کی طرف کردیا اور جیو نیوز کے رپورٹرز کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ ڈی ایس این جی پر ڈنڈے برساتے رہے۔ اس ساری صورتحال پر صحافیوں کی عالمی تنظیم آئی ایف جے نے کہا ہے کہ پاکستان میں جاری مارچ میں صحافیوں پر پہ در پہ حملوں نے میڈیا کے لیے حالات کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ پولیس کا کام صحافیوں کی حفاظت کرنا ہے، ان پر تشدد کرے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ آئی ایف جے کے ڈائریکٹر جین ورتھنگٹن نے کہا ہے کہ پاکستانی صحافی بہت مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔ صحافیوں پر حملے قابل مذمت ہیں حکومت اور سیاسی جماعتیں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ اختلاف جمہوریت کا حسن ہے اس لیے دیگر طبقہ فکر کے مؤقف کا احترام کریں اور چینلز کو آزادی کے ساتھ سب کا مؤقف بیان کرنے دیں۔ ان کے مطابق سیاسی جماعتیں آزادیٔ رائے پر قدغن نہ لگائیں۔ پی ٹی وی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ نے کہا کہ سیاسی کارکنان کے طرف سے سرکاری ٹی وی پر حملہ افسوس ناک ہے، اس معاملے فوری طور پر چھان بین کی جائے اور صحافی بنا حفاظتی اقدامات کے کوریج سے گریز کریں یا فاصلہ رکھ کر کوریج کریں۔ آئی ایف جے نے پاکستانی صحافیوں کے لیے حفاظتی ہدایت نامہ جاری کیا جو اس وقت آزادی اور انقلابی مارچ کور کررہیں۔اس کے مطابق صحافی مکمل پلان کے ساتھ کوریج کے لیے جائیں، کوشش کریں کہ اپنی ٹیم کے ساتھ رہیں۔ موبائل فون چارج کرکے لے کر جائیں فرسٹ ایڈ کٹ ساتھ رکھیں، آنسو گیس سے بچنے کے لیے ماسک اور چشمے ساتھ رکھیں۔ شوخ لباس پہننے سے گریز کریں، کھلے کپڑے پہنیں اور آرام دہ جوتے پہن کر جائیں۔بالکل چھوٹا سا بیگ لے کر جائیں جس میں پانی اور کھانے کی اشیاء ہوں۔ کوریج کے مقام پر پہنچ کر اپنے آفس کےشناختی کارڈ چھپا کر رکھیں، اگر ہجوم مشتعل ہے تو لوگوں بھی استعمال نہ کریں۔ لوگوں سے فاصلہ رکھیں اور کسی کا انٹرویو لینا مقصود ہو تو اس شخص کو ہجوم سے الگ لے جا کر بات کریں۔اگر مارچ کور کرتے ہوئے ہنگامے شروع ہوجائیں تو فوری طور پر بھاگ کر اس جگہ سے دور ہو جائیں،ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹ ہرگز نہ اتاریں۔مظاہرین سے مکمل دور رہیں، ان کی کسی اشیاء کو ہاتھ نہیں لگائیں۔ اگر پولیس آنسو گیس کا استعمال کرے تو پانی سے منہ پر چھڑکاؤ کریں اور فوری طور پر اپنی عینک اور ماسک پہن لیں۔ اگر ربڑ کی گولیاں فائر ہوں تو فوری طور پر کسی چیز کی آڑ لے لیں۔ آئی ایف جے کے مطابق صحافی ہیلمٹ، آیئ شیلڈ، بلٹ پروف جیکٹ لازمی طور پر استعمال کریں۔ کوریج کے دوران پولیس اور دھرنے کے شرکاء سے نرمی سے بات کریں، سیکورٹی حکام سے مکمل تعاون کریں، ان کو فوراً اپنا آفس کارڈ دکھائیں۔اگر ڈی ایس این جی میں یا آفس کی کار سے کوریج کررہے ہیں تو گاڑی کے دروازے بند رکھیں۔ کیمرہ مین کوشش کریں کہ وہ کسی بلندی سے عکس بندی کریںاور ہجوم سے اجتناب کریں۔

اب چینلز انتظامیہ پر فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے کارکنان کو مکمل حفاظتی اقدامات کہ ساتھ دھرنے اور دیگر اساینمنٹس پر بھجوائیں۔ اس کے ساتھ حکومت انتظامیہ اور سیاسی جماعتیں بھی اپنے لوگوں کو پابند کریں کہ وہ میڈیا کو ان کا کام آزادی کے ساتھ کرنے دیں۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias

javeria.siddique@janggroup.com.pk
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10150#sthash.KXD3Hqqz.dpuf

Posted in Uncategorized

انقلابی کارکنان کا کوئی پرسانِ حال نہیں

August 16, 2014   ……..جویریہ صدیق……..عمران خان اور طاہر القادری کے مارچ بالآخر اسلام آباد پہنچ گئے۔دونوں کے قافلے کافی سست روی کا شکار رہے اور گذشتہ رات اسلام آباد میں داخل ہوئے۔ 14اگست سے انتظامیہ نے اسلام آباد کے تمام داخلی راستوں سے کنٹینرز ہٹا دیے تھے اس کے بعد سے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنان اسلام آباد میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔ اپنے اپنے قائدین کے آنے سے پہلے سینکڑوں کارکنان زیرو پوائنٹ پر موجود تھے۔ ان تمام کا جوش وخروش اپنی جگہ لیکن 14اگست سے آج 16اگست ہوگئی تاہمتحریک انصاف اور عوامی تحریک کی طرف سے اپنے کارکنان کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے۔

پہلے ہی اسلام آباد میں موجود کارکنان سڑکوں پر بے سروسامانی کے عالم میں تھے، اوپر سے مارچ کے ساتھ آنے والے افراد کے ساتھ یہ تعداد بڑھ گئی۔ انتظامیہ کی طرف سے جگہ کا تعین کرنے کے باوجود دونوں جماعتوں نے ہی اپنے کارکنوں کے لیے سر چھپانے کا بندوبست کیا نہ ہی کھانے پینے کے خاص انتظامات۔ پاکستان کے عوام سادہ لوح ہیں، لیڈروں کے چکنے چپڑے وعدوں میں آکر گھر سے نکل پڑتے ہیں اور بعد میں زحمت اٹھاتے ہیں۔ یہ حال ان جماعتوں کے کارکنوں کا بھی ہوا۔

اس وقت دھرنے کی جگہ پر سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔ عمران خان کے کارکنان آبپارہ چوک کشمیر ہائی وے اور طاہر القادری کے مارچ کے شرکاء خیابان سہروردی پر ہیں۔ نہ ہی کارکنوں کے پاس پینے کے لیے پانی ہے اور نہ ہی وضو کرنے کے لیے۔ ان انقلابی مارچ اور آزادی دھرنوں سے پہلے کوئی حکمت عملی کیوں نہیں طے کی گئی؟ روز لیڈر ٹی وی پر آکر عوام کے جذبات تو ابھارتے رہے لیکن پارٹی کی مقامی قیادت نے کوئی کام نہیں کیا۔ کم از کم اور کچھ نہ ہوتا تو اسلام آباد پی ٹی آئی ونگ اور عوامی تحریک اپنے کارکنان میں مفت پانی تقسیم ہی کر وا دیتے۔

اس کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ اس وقت کھانے کا ہے کیونکہ عمران خان اور طاہر القادری کی جوش خطابت نے اسلام آباد میں ویسے ہی خوف و ہراس پھیلا رکھا تھا اور عملی طور پر بازار 5دن سے جزوی طور پر بند ہیں۔ اس لیے مارچ کے شرکا ہی نہیں اسلام آباد کے شہری بھی غذائی اشیاء کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ملک میں انتشار کی سیاست کی بدولت آدھا اسلام آباد مفلوج پڑا ہے۔اس وقت بھی عوامی تحریک کے کارکنان اور پی ٹی آئی کے کارکنا ن کو اسلام آباد آئے تیسرا دن ہے اور ان کو کھانے کی فراہمی کا کوئی نظام نہیں۔کچھ خوانچہ فروش زیرو پوائنٹ اور کشمیر ہائی وے پر کھانے پینے کی اشیاء بیچ تو رہے ہیں لیکن ان بہت مہنگے داموں۔ دونوں جماعتوں کے کارکنان اس وقت بددل ہیں کہ وہ اپنے شہروں سے صرف اپنے لیڈروں کی کال پر اسلام آباد آئے ہیں اور مقامی قیادت نے ان کو بالکل نظر انداز کردیا ہے۔

قائدین نے تو اپنی رات آرام دہ پانچ ستاروں والے ہوٹل میں گزاری جو خیابان سہروردی پر ہی واقع ہے تاہم خواتین اور مرد کارکنان نے اپنی رات زیرو پوائنٹ اور کشمیر ہائی وے پر گزاری۔ جس وقت میڈیا کوریج اور تقاریر کے بعد لیڈران نرم بستروں پر آرام فرما رہے تھے اس وقت کارکن کھلے آسمان تلے بارش میں بھیگتے رہے۔ انتظامات نہ ہونے کے باعث پہلے سے آئے ہوئے کارکنوں نے دوسری رات سڑک پر گزاری اور مارچ کے ساتھ آنے والوں نے پہلی رات بارش اور سردی میں گزاری۔کارکنان کی بڑی تعداد نے کہا کہ اگر ان کے لیے کوئی رہائش کا بندوبست نہیں کرنا تھا تو کم از کم ان کو خیمے فراہم کر دیے جاتے یا گرم چادریں تاکہ وہ موسمی حدت سے بچ جاتے۔

اس کے ساتھ ساتھ جو اہم مسئلہ اس وقت دونوں ہی پارٹیوں کے کارکنان کو پیش ہے وہ ہے باتھ رومز کا۔ دونوں پارٹیوں کی طرف سے موبائل باتھ رومز کا دعویٰ تو کیا گیا تھا تاہم عملی طور پر ایسا کچھ نہیں ہے۔ کارکنان رفع حاجت کے لیے خیابان سہروردی اور کشمیر ہائی وے سے متصل گرین بیلٹ کا رخ کررہے ہیں۔ خواتین کی بڑی تعداد اس وجہ سے مشکل میں نظر آئی۔خواتین کے مطابق کم از کم خواتین کے لیے ہی الگ بند وبست کر دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔

اس وقت بھی انقلابی اور آزادی مارچ والے سڑکوں پر موجود ہیں اور لیڈرشپ اپنے محلات میں۔ اسلام آباد آئے ہوئے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنان کی مشکلات کو دیکھ کر وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ یہ کمیٹی انقلاب اور آزادی کے لیے آئے ہوئے افراد کے لیے قیام طعام اور پینے کے صاف پانی کا بندوبست کررہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نے سی ڈی اے کو فوری طور پرعارضی باتھ رومز بنانے کا بھی حکم دیا ہے تاکہ عوام کی مشکلات کا کچھ ازالہ ہوسکے۔ اس وقت اسلام آباد آئے ہوئے عوام کو پانی،خشک خوارک، صابن اور رفع حاجت کے لیے باتھ رومز کی فوری ضرورت ہے۔اگر ایسا نہ ہوا تو عوام کی بڑی تعداد بخار، فلو، اسہال، ہیضے اور اعصابی دبا ؤ کا شکار ہوسکتے ہیں۔

انقلاب یا آزادی صرف باتوں یا وعدوں سے نہیں آتے۔ اس کے لیے عوام کی خدمت اور ملک کی ترقی میں حصہ ڈالنا پڑتا ہے۔اس وقت اسٹاک مارکیٹ مندی کا شکار ہے اور اب تک 36ارب کا نقصان ہو چکا ہے۔ کاروباری مراکز غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے بند رہے، تاجروں کو دس ارب کا نقصان ہو چکا ہے۔عید کے بعد سے عملی طور پر پنجاب اور اسلام آباد بند پڑے ہیں۔عوام گھروں میں محصور مشکلات کا شکار ہیں۔بات ہو اگر اسلام آباد آنے والے کارکنان کی تو 14اگست سے وہ آج تک سڑکوں پر ہی ہیں، لیڈرز جوکہ انقلاب اور آزادی کا دعویٰ کررہے ہیں ان کے لیے پانی کھانے اور سر چھپانے کا بندوبست بھی نہ کرسکے تو ملک کی تقدیر کیا بدلیں گے۔ لیڈران نے رات 5ستارے والے ہوٹل اور اپنی ذاتی محلات میں گزاری اور عوام بارش میں بھیگتے انقلاب کا انتظار کرتے رہے۔ اپنی انا اور ذاتی فوائد کے لیے عوام کا یوں استعمال کرنا درست نہیں۔جو لوگ اپنے لیے پانی اور کھانا خریدنے سے قاصر ہیں کیونکہ جیب اجازت نہیں دیتی تو دیکھتے ہیں کہ وہ کتنے دن آزادی اور انقلابی دھرنے میں رک پائیں گے۔ انقلاب میں محتاط اندازے کے مطابق دونوں جماعتوں کے ملا کر30ہزار کارکنان بنتے ہیں اور اگر اعلیٰ قیادت کی عدم توجہی کی یہی صورتحا ل رہی تو اسلام آباد میں آ ئے ہوئے کارکنان جلد بد د ل ہوکر واپس چلے جائیںگے۔

Javeria Siddique is a Journalist and Photographer works for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10058#sthash.c1ywEHJO.dpuf

Posted in Uncategorized

انقلاب کا جھانسہ اورسادہ لوح عوام

.جویریہ صدیق…….
پاکستان میں اکثر عوام نوسربازوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔گلی گلی پھرنے والے یہ دھوکہ باز عوام کو یہ جھانسا دیتے ہیں کہ وہ ان کہ روپے اور زیورات ڈبل کردیں گے تاہم عوام کی آنکھوں میں دھول جھول کر یہ سارا کچھ باندھ کر غائب ہوجاتے ہیں۔اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ شعبدہ باز گلی محلوں میں جعلی پیروں کا روپ دھار کرکے آتے ہیں اور عوام کے سامنے قسمت کو بدل دینے کا دعویٰ کردیتے ہیں۔عوام ٹھہرے سادہ لوح اپنی تمام خواہشات کے اظہار کے ساتھ ساتھ اپنی تمام جمع پونجی ان ڈھونگیوں پرلٹا دیتے ہیں۔جب تک عوام ہوش میں آتے ہیں تو شعبدہ باز کسی دور درازعلاقے میں نکل جا چکا ہوتا ہے اور عوام کے پاس ہاتھ ملنے کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتا۔پاکستانی عوام کی اکثریت معصوم اور غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزر رہی ہے، اسی لیے کوئی بھی ان کے حالات کی تبدیلی کا نعرہ لگاتا ہے تو فوراً اس سے متاثر ہوجاتے ہیں بنا سوچے سمجھے کہ اس تقلید کا انجام کیا ہوگا۔

ماضی قریب سے کچھ سیاسی شخصیات بھی عوام کو تبدیلی اور انقلاب کے سحر میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔ تیرہ اگست سے شروع ہونے والے اس سلسلے نے ملک کو بحران کو کیفیت میں مبتلا کیا رکھا۔ملک میں بے چینی اورغیر یقینی صورتحال نے اقتصادی شعبہ کو بری طرح متاثر کیا۔شاہراہیں بند ہوئیں ملک کا دارلحکومت اور ریاستی ادارے ان انقلابیوں کے یرغمال ہوگئے۔کاروباری اور تعلیمی سرگرمیاں معطل ہوگئیں۔لیکن آزادی اور انقلابی لیڈران کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ انقلاب میں ایسی چھوٹی موٹی قربانیاں تو دی ہی جاتی ہیں۔

سب پہلے انقلاب کا نعرہ بلند ہوا جب ایک دم سے دو ہزار تیرہ میں کینیڈا سے علامہ طاہر القادری جلوہ گر ہوئے ۔علامہ صاحب نے دو ہزار پانچ میں پاکستان چھوڑ کر کینیڈا کی شہریت اختیار کرلی لیکن پھر بھی انقلاب پاکستان میں لانے کے خواہاں۔یک دم کینیڈا سے درآمد شدہ قادری صاحب منہاج القران کے کارکنان کے ساتھ پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دے کربیٹھ گئے۔اب یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کب ان کے کارکنان عوامی تحریک کے ساتھ ہوتے ہیں اور کب منہاج القران کے ساتھ لیکن دونوں ہی کے سربراہ علامہ طاہر القادری ہیں۔سخت سردی میں سیکڑوں کارکنان علامہ صاحب کے ساتھ بیٹھے رہے، ہاں یہ اور بات ہے علامہ صاحب اپنے بلٹ پروف کنٹینر میں تھے جس میں ہیٹر ،بجلی،ٹی وی ،انٹرنیٹ کی تمام سہولیات موجود تھیں۔ ان کے کارکنان جنوری کے موسم میں بارش میں بیٹھے رہے اور یہ اپنے آرام دہ کنٹینر سے بیٹھ کر حکومت، پارلیمنٹ ،سیاستدانوں پر الزام تراشیاں کرتے رہے، پھر اس ہی پارلیمان اور حکومت سے مذاکرات کرکے مبارک ہو مبارک ہو کا نعرہ لگا کر اپنا سامان باندھ کر کینیڈا سدھار گئے۔اب سوچنے کی بعد یہ ہے کہ جس انقلاب کی بات انہوں نے کی تھی وہ تو نا آیا اور نا ہی اس کے ثمرات عوام تک پہنچے۔ تو یہ سب کیا ڈرامہ تھا ،سادہ عوام کی سوچ سے باہر ہے۔ایسے انقلاب سے فائدہ صرف وہ ہی اٹھاتے ہیں جو سب سے اوپر ہوتے ہیں۔اپنا حصہ لیا اور اس کے بعد تو کون میں خواہ مخواہ۔

پھر دوبارہ پاکستان کی یاد دو ہزار چودہ میں آئی ۔پاکستان کو تو انقلاب کی اشد ضرورت ہے کہ اس طرح ہی گرجتے برستے قادری صاحب میڈیا کی فل کوریج کے ساتھ لاہور اترے تو جہاز سے نکلنے سے انکار کردیا۔غیرملکی ایئرلائن کا طیارہ گھنٹوں تک یرغمال بنائے رکھا کہ جب تک کور کمانڈر صاحب ان کو لینے نہیں آئیں گے وہ طیارے سے باہر نہیں نکلیں گے۔وہ تو بھلا ہو غیر ملکی ایئر لائن کے پائلٹ کا جس نے جہاز کا اے سی بند کردیا تو قادری صاحب گرمی برداشت نہیں کرسکے اور گورنر سرور کے ساتھ آخرکار گھر کی طرف روانہ ہوئے۔

لاہور میں خوب گرما گرم تقاریر کا آغاز کیا حکومت کا تختہ الٹانے کی دھمکیاں دی اور غریب عوام کو انقلاب کے سنہرے خواب دکھائے جس میں ہر غریب کے پاس اپنا گھر ہوگا،انصاف کا بول بالا ہوگا،تعلیم ہر بچے کا حق ہوگا کوئی انسان فاقوں کے باعث خود کشی نہیں کرے گا ،خواتین کے لیے یہ معاشرہ مثالی ہوگا ،وغیرہ وغیرہ۔عوام دو ہزار تیرہ کےبعد ایک بار بھر ان کے دکھائے ہوئے انقلاب کے خواب دیکھنے لگے۔ قادری صاحب کی حفاظت کے پیش نظر ان کے مرید ین ان کے گھر کے باہر پہرہ دینے لگے اور گھر سے متصل پارک میں رہائش اختیار کر لی۔سترہ جون کو علامہ طاہر القادری کے کارکنان اور پولیس کے درمیان تصادم کے نتیجے میں چودہ افراد جاں بحق ہوئے جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں ۔شازیہ اور تنزیلہ جس میں تنزیلہ حاملہ تھی۔خیر کارکنان تو ہوتے ہی قربانی کہ لیے ہیں ان کی پرواہ کہاں کسی کو یہاں۔اپنے قائد طاہر القادری کے انقلاب کے خواب کوپورا کرنے کے لیے چودہ افراد نے اپنی جانیں قربان کردی۔

قادری صاحب کے انقلاب کو لاشیں مل گئیں۔مرنے والے کسی کے پیارے تھے جیتے جاگتے انسان تھے لیکن کسی کو لواحقین کا خیال نا آیا۔لیکن ان چودہ لاشوں پر خوب سیاست ہوئی قادری صاحب نے انتقام لینے کی ٹھانی،خون کا بدلہ خون کا نعرہ لگایا اور اپنے مریدوں، کارکنان کے ساتھ اسلام آباد کا رخ کیا۔چودہ اگست سے بائیس اکتوبر تک اسلام آباد میں قادری صاحب کا قیام رہا۔اس دوران اسلام آباد مفلوج رہا ،کاروباری تعلیمی سرگرمیاں تعطل کا شکار ہوئیں۔شہر میں پہلے آبپارہ پھر ڈی چوک پھر شاہراہ دستور اور پارلیمنٹ کا احاطہ ان کے قبضے میں رہا۔انقلاب کے خواہش مند سڑکوں پر ہی دن رات بسر کرنے لگے، کھانا پینا ،نہانا یہاں تک کہ ایک بچی کی پیدائش بھی شاہراہ دستور پر ہوئی،جس کو قادری صاحب نے انقلابی کا نام دیا۔

قادری صاحب کے ایما پر کارکنان نے وزیر اعظم ہائوس پر حملہ کیا پارلیمنٹ ہائوس کا گیٹ توڑ دیا۔پھر انقلابیوں نے اپنی خیمہ بستی پارلیمنٹ ہائوس کے احاطے میں منتقل کرلی۔قادری صاحب اپنے ان تمام غیر جمہوری اقدامات کو انقلاب گردانتے رہے۔قادری صاحب کے ایما پر کارکنان نے سرکاری ٹی وی پر قبضہ کرلیا،بعد میں یہ بات اور ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری دونوں ہی مکر گئے کہ حملہ آور ہمارے کارکن تھے۔چودہ اگست سے بائیس اکتوبر تک ہر دن اعلان ہوتے رہے آج انقلاب متوقع ہے ،نہیں کل پرسوں ،اگلے ہفتے چھوٹی عید پر بڑی عید اور اب اگلے سال کی عید کا کہا جارہا ہے۔انقلاب نے نہیں آنا تھا نہیں آیا۔

انقلاب آیا تو نہیں لیکن عوامی تحریک کا انقلاب آخرکار اسلام آباد سےرخصت ہوگیا ہے ، قادری صاحب اسلام آباد سےروانہ ہوئے، کارکنان کو بھی اجازت دی کہ اپنے گھر لوٹ جائیں۔کارکنان زار و قطار روتے ہوئے شاہراہ دستور سے رخصت ہوئے کیونکہ جو انقلاب کا خوب وہ آنکھوں میں سجائے آئے تھے وہ شرمندہ تعبیر نا ہوسکا۔ دھرنا ختم کرنے کے بعد قادری صاحب نےایک دو جلسے کیے دھواں دھار تقاریر کی کہ اب انقلاب پورے ملک میں پھیلا رہے ہیں۔ آخر کاراٹھائیس اکتوبر کو امریکہ کے لیے روانہ ہوگئے۔جانے سے پہلے کہہ کر گئے ہیں کہ کوئی ڈیل نہیں ہوئی نا ہی پیسے لیے ہیں اور پھر واپس آکر انقلاب لائوں گا۔مذاق اچھا ہے ویسے قوم کے ساتھ، غریب لوگوں کو انقلاب کا جھانسا دینا ،سبز باغ دکھانا، اس کے بعد اپنا فائدہ دیکھتے ہوئے ملک سے چلے جانا۔ایسے انقلاب کبھی نہیں آتے، انقلاب صرف غریب ہی غریبوں کے لیے لاتے ہیں کوئی امرا ء میں سے یا غیر ملکی شہریت اختیار کرنے والے کبھی انقلاب نہیں لاسکتے۔

قصور صرف انقلاب کا جھوٹا نعرہ لگانے والوں کا نہیں ہے، قصور ان کا بھی ہے جو آنکھوں پر پٹی باندھ کر انقلاب کا نعرہ لگانے والوں کی پیروی کرنا شروع کردیتے ہیں۔دھرنے میں70 روز بیٹھے رہے بہت سے غریب عوام نے اپنے گھر چھوڑے نوکریوں سے استعفے دئیے ان کے بچوں کے نام اسکول سے کٹ گئے، آج ان کے دل پر کیا بیت رہی ہوگی کہ انقلابی قائد تو دنیا کی مہنگی ترین ایئر لائن میں بیٹھ کر امریکا روانہ ہوگئے،شازیہ اور تنزیلہ کے گھر والوں پر کیا بیتی ہوگی جنہوں نے اپنے انقلابی قائد کے لیے جان دی تھی ۔قادری صاحب جانے سے پہلے یہ بات کہہ کر گئے ہیں کہ دوبارہ واپس آئوں گا اور اگلی منزل صرف انقلاب ہے۔ میرا قادری صاحب سے یہ سوال ہے اور کتنے سال اور کتنے غیر ملکی دوروں کے بعد انقلاب متوقع ہے ؟ اور عوام سےصرف سے یہ سوال ہے آپ سب کتنی بار نقلی انقلاب کے جھانسے میں آئیں گے ؟ –

See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10326#sthash.nNDKOmlo.dpuf