Posted in ArmyPublicSchool

شہیدصائمہ طارق جرات وعظمت کی مثال

10891447_500767603397936_768906388404956407_n

…جویریہ صدیق..….

گھر سے باہر جو پہلا رشتہ کسی بھی بچے کا ماں باپ کے بعد قائم ہوتا ہے وہ ہے استاد اور شاگرد کا رشتہ۔استاد کو روحانی ماں باپ کا درجہ حاصل ہے۔بچہ ماں کی گود سے نکل کر جب درسگاہ آتا ہے تو اس کی شخصیت کو بنانے میں اساتذہ کرام کا سب سے بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔بچہ جب تین سال کی عمر میں اسکول پہنچتا ہے تو روتا ہے مچلتا ہے کہ ماں باپ کے بنا اسے کہیں بھی نہیں رہنا وہ بار بار روتا ہے اور گھر جانے کی ضد کرتا ہے لیکن استاد اس بچے کا ننھا منا ہاتھ پکڑ اسے درسگاہ میں لا تا ہے وہ ایک شفقت بھرا لمس بچے کو غیر مانوس جگہ سے انسیت پیدا ہونے میں مدد دیتا ہے۔ استاد ہرجگہ بچے کا مددگار ہوتا انہیں لکھنا سکھاتا ہے، پڑھنا دین کی سمجھ دنیوی تعلیم اور معاشرے میں جینے کا طریقہ اور آگے چل کر یہ ہی استاد بچوں کو ترقی کرتا دیکھ کر فخر کرتے ہیں۔
آرمی پبلک اسکول میں بھی گیارہ سو سے زائد بچے ایسے ہی استاتذہ کے زیر چھائوں تعلیم حاصل کرنے میں مگن تھے۔جب والدین صبح اپنے بچوں کو اسکول چھوڑ کرجاتے تو یہ استاتذہ مسکراتے ہوئے بچوں کا استقبال کرتے۔ کتنے ہی چھوٹے چھوٹے بچے جب صبح ماں کے پہلو کے ساتھ چپک کر روتے تو یہ ہی استاتذہ اپنے ہاتھوں سے ان کے آنسو پونچھ کر گلے لگاتے اور تسلی دیتے کہ وہ سکول میں اکیلے نہیں ان کے لیے پیار شفقت تعلیم سب ہی کچھ موجود ہے۔نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے بچے تو اب استاتذہ کے دوستوں میں شمار ہوتے ۔ان کی تعلیم سے لے کر ان کے غیر نصابی مشاغل میں استاتذہ ان کے ہم قدم ان کی رہنمائی کرنے لیے موجود۔
اس ہی اسکول میں ایک ہر دل استاد صائمہ طارق بھی تھیں۔جنہوں نے اساتذہ کی تاریخ میں رحم دلی پیار محبت ایثار کی نی داستان رقم کر ڈالی۔آٹھویں کلاس کی ٹیچر جن کے ذمہ تمام سکیشنز کی انگریزی کی کلاس تھی۔صائمہ طارق شہید مردان سے تعلق رکھتی تھیں اور بی اے کرنے کے بعد ہی تدریس کا عمل شروع کردیا۔تدریس کے ساتھ تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا پہلے انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور بعد میں ایجوکیشن میں ایم فل۔انیس سو اٹھانوے سے تدریس کا آغاز کیا اور مردان کے عزیز بھٹی شہید اسکول میں پندرہ سال تعلیم کی روشنی بانٹتی رہیں۔پاک فوج کے بریگیڈیر طارق سعید کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور شادی کے بعد بھی تدریسی عمل ترک نا کیا۔اپنے شوہر کی ٹرانسفر کی وجہ سے پشاور میں سکونت اختیار کی اور چھبیس اکتوبر کو آرمی پبلک سکول ورسک روڈ جوائن کیا۔
جلد ہی صائمہ طارق کا شمار آرمی پبلک سکول ورسک روڈ میں زیرتعلیم بچوں کی ہر دلعزیز ٹیچر میں ہونے لگا آٹھویں جماعت کی کلاس ٹیچر ہونے کے ساتھ دیگر سکشینز کو انگریزی پڑھانے کا ذمہ بھی انہیں ملا۔صائمہ طارق نے ایم فل کے بعد پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ کیا تو بریگیڈیر طارق سعید نے انہیں کچھ عرصہ تدریسی عمل سے بریک لینے کا مشورہ دیا لیکن انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں گھر اسکول اور تعلیم کا سلسلہ آرام سے ہینڈل کر لو ںگی آپ فکر نا کریں ۔سولہ دسمبر کی صبح صائمہ طارق تہجد کی نماز پڑھنے کے بعد طالب علموں کی کاپیاں چیک کرنے لگیں ،کچن کے ضروری کاموں کو انجام دینے کے بعد اسکول کے لیے روانہ ہوگئیں ۔اہل خانہ کے مطابق گھر میں ملازمین ہونے کے باوجود وہ گھر کے سب کام خود کرنا پسند کرتی تھیں۔تہجدکے ساتھ ساتھ پانچ وقت کی نماز باقاعدگی سے پڑھا کرتی تھیں۔
اسکول میں تدریسی عمل کا آغاز ہوا اور صائمہ طارق کی کلاس نے ہال میں آرمی میڈیکل کور سے ابتدائی طبی امداد کی ٹرینگ لینا تھا۔صائمہ طارق تمام بچوں کو لے کر ہال میں گئیں اور نویں کلاس کے طالب عملوں نے بھی انہیں جوائن کرلیا۔تمام بچے اپنے استاتذہ کے ساتھ ہمہ تن گوش تھے اور ابتدائی طبی امداد سیکھنے لگے۔کسی زی روح کے گمان میں بھی یہ نا تھا کہ موت کے کالے سائے ان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔اسکول میں فرسٹ ائیر سکینڈ ائیر کا پرچہ بھی تھا۔تدریسی عمل معمول کے مطابق جاری تھا کہ عینی شاہدین کے مطابق اچانک اسکول سے فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں۔معصوم بچے سہم گئے اور استاتذہ نے ہال کے دروازے بند کردیے تاکہ بچے محفوظ رہ سکیں۔
لیکن ایسا نا ہوسکا طالبان نے ہال کے دو داخلی دروازے توڑ دیے اور موت بن کر بچوں پر گولیاں برسانا شروع کردیں۔ہال میں موجود ٹیچرز نے ہمت نا ہاری اور دہشت گردوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گئیں۔انہوں نے بچوں کو ہال سے بھاگنے کے لیے کہا تاکہ بچے اپنی جان بچاسکیں لیکن ظالم دہشت گردوں نے ہال میں موجود صائمہ طارق پر کیمیکل پھینک کر انہیں زندہ جلا دیا اور سحر افشاں ،سیدہ فرحت کو گولیاں مار کے شہید کیا گیا ،ان خواتین استاتذہ کے آخری الفاظ یہ ہی تھے کہ بچوں جائو اپنی جان بچائو متعدد بچے ہال سے نکلنے میں کامیاب بھی ہوگئے لیکن شہید صائمہ طارق،شہید سیدہ فرحت اور شہید سحر افشاں سمیت ایک سو پچاس افراد جن میں بیشتر بچے تھے اس دہشت گردی کے واقعے میں جام شہادت نوش کیا۔
آرمی کی کوئیک رسپانس ٹیم اور ایس ایس جی کمانڈو پندرہ منٹ کے اندر اندر سکول پہنچے اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا لیکن دہشت گرد کسی کو یرغمال بنانے نہیں آئے تھے ان کا مقصد صرف خون کی ہولی کھیلنا تھا۔آرمی پبلک اسکول کی پرنسل طاہرہ قاضی،استاتذہ اور 135 پھولوں نے اس سانحے میں شہادت پائی۔یوں ان سب نے بہادری اور جرات کی وہ داستان رقم کی ہے جو تا قیامت یاد رکھی جائے گی۔
صائمہ طارق شہید کو جب مردان میں دفن کیا گیا تو ان کے شاگرد دھاڑیں مار مار کر روتے رہے پندرہ سال مردان کے عزیز بھٹی شہید اسکول میں وہ ایک نسل کو تعلیم سےلیس کرگئی تھیں۔ ایک شاگرد کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ میں اپنی پیدا کرنے والی ماں کو تو بھول سکتا ہوں لیکن اپنی روحانی ماں صائمہ طارق کو کبھی فراموش نہیں کرسکتامیں آج جو کچھ ہوں اپنی استاد شہید صائمہ کی وجہ سے ہوں۔آرمی پبلک اسکول ورسک روڈ کے طالب علموں کا کہنا تھا کہ صائمہ طارق کا شفیق چہرہ ہم کبھی بھول نہیں سکتے ہیں اللہ نے ہماری میم کو شہادت جیسے بڑے رتبے پر فائز کیا ہے اور ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ ان سمیت ہمارے دیگر شہید ہونے والے استاتذہ کو بہادری کے تمغوں سے نوازا جائے۔
صائمہ طارق کے گھر والوں کا صبر کا قابل دید ہے ان کے شوہر بریگیڈیر طارق سعید ان کے بچے اور خاندان کے دیگر لوگ صائمہ طارق کی بہادری پر نازاں ہیں کس طرح اپنی جان کی پرواہ نا کرتے ہوئے روحانی ماں نے اپنے شاگردوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔اہل خانہ کے مطابق صائمہ بہت ہی ملنسار اور رحم دل شخصت کی مالک تھیں ان کی زندگی کا نصب العین صرف اور صرف بچوں میں علم کی روشنی بانٹنا تھا۔وہ صوم وصلوٰــۃ کی پابند تھیں اور بچوں کو بھی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دین اسلام پر عمل کرنے کی تلقین کرتی تھیں۔صائمہ شہید گھریلو کاموں میں بھی بہت دلچسپی لیتی تھیں اور خاص طور پر نت نئے کھانے بنانے کا شوق رکھتی تھیں۔اہل خانہ کے مطابق صائمہ شہید فوٹوگرافی کی بہت شوقین تھیں فون سے تصاویر لینے میں ماہر تھیں اس کے ساتھ ساتھ کیمرے سے بھی لمحات کو قید کرنے کی شوقین تھیں۔
صائمہ طارق کے اہل خانہ کے مطابق تصاویر کا ایک بہت بڑا ذخیرہ تو صائمہ کے ساتھ ہی چلا گیا جوکہ ان کے فون میں موجود تھا لیکن ان کے لکھے ہوئے مضامین اور افسانے گھر کے کمپیوٹر میں محفوظ تھے جوکہ اب ان کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔صائمہ طارق کے اہل خانہ کے مطابق ان کا پاکستان کے رہنے والوں کے لیے یہ ہی پیغام ہے ہمیں صائمہ طارق شہید اور دیگر شہدا کی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دینا ہم سب کو مل کر دہشت گردی کے خلاف جہدوجہد کرنا ہوگی اور اس سوچ کو شکست دینا ہوگی جو دہشت گردی کو اس ملک میں پروان چڑھا رہی ہے۔ہمیں فخر ہے کہ صائمہ طارق نے اپنے شاگردوں کو بچاتے ہوئے اس ملک اور اپنے روحانی بچوں کے لیے جان قربان کی۔

آتش و دہن میں کھڑی تھی تو
گلشن کے تحفظ میں کڑی تھی تو
درندے گھس آئے تھے وہاں
معصوم کلیوں کا تھا جو گلستاں
استاد بڑے شجیع ہوتے ہیں
سمندر جیسے وسیع ہوتے ہیں
شہید ہو کر امر ہوئی
وحشت پر ممتا لے گئی بازی

Javeria Siddique

Contact at https://twitter.com/#!/javerias

Posted On Monday, December 22, 2014

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10466#sthash.C8ypURJ2.dpuf

Posted in ArmyPublicSchool, Pakistan

باقر کی آنکھیں سوال کرتی ہیں

باقر کی آنکھیں سوال کرتی ہیں

  Posted On Friday, January 16, 2015   ……جویریہ صدیق……
بچہ دنیا میں آکر جو پہلا پیار کا لمس محسوس کرتا ہے وہ ماں کا ہے۔ بچہ روتا ہے چیختا ہے ضد کرتا ہے لیکن ماں کی گود میں آکر بالکل چپ ہوجاتا ہے۔ ماں کی گرم آغوش بچے کو تسکین فراہم کرتی ہے۔ باقر نے جب 15سال پہلے آنکھ کھولی تو پہلا لمس محسوس کیا وہ سیدہ فرحت کا تھا۔ اس کی ماں سیدہ فرحت کوئی عام خاتون نہیں تھی۔ حافظ قرآن، ایم اے اسلامیات، ایم اےعربی اور بی ایڈ فرحت درس و تدریس کے شعبے سے منسلک تھی۔ 1996ء میں پشاور سے تعلق رکھنےوالے سید عابد علی شاہ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ پہلے سید سطوت کی پیدائش ہو ئی پھر سید باقر نے ان کی زندگی مکمل کردی۔ سید باقر نے ہوش سنبھالا تو اپنے ارداگرد تعلیمی ماحول پایا۔ والدہ سیدہ فرحت صبح جب اسے اور سطوت کو اٹھاتیں تو پورا گھر صاف، ان کے یونیفارم تیار اور ساتھ میں گرما گرم ناشتہ تیار ہوتا۔ ایک ساتھ ناشتے کرکے یہ روز ایک ہی ساتھ آرمی پبلک اسکول ورسک روڈ کے لیے روانہ ہوتے۔ سطوت فرسٹ ائیر میں اور باقر نویں جماعت میں اور ان کی والدہ سیدہ فرحت فرسٹ ائیر کی استاد ۔ سیدہ فرحت اپنے سکول آرمی پبلک کی مقبول ترین اساتذہ میں سے ایک تھیں۔ صوم وصلاۃ کی پابند اور قاریہ بھی تھیں۔ خوش اخلاق اور ملنسار سیدہ فرحت طالب علموں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھتی اور ان کی اخلاقی تربیت میں پیش پیش رہتیں۔
باقر کو تو یہ بہت ہی اچھا لگتا تھا کہ جہاں وہ پڑھتا ہے مما بھی وہاں ہی پڑھاتی ہیں لیکن باقر کی مما اس کو کہتیں بیٹا میں گھر میں آپ کی مما ہوں لیکن اسکول میں آپ کی استاد اس لیے کوئی مارجن نہیں ملے گا۔ کتنی بار ایسا ہوتا کہ باقر اپنی مما کی کلاس کے پاس سے گزرتا، ان کی ایک جھلک دیکھ کر پھر اپنی کلاس میں جاتا، کتنا اچھا لگتا ہے ناں ماں اسکول میں بھی بچے کے ساتھ ہو اور گھر میں بھی۔ باقر اسکول بریک میں مما کے ہاتھ کا بنا مزے مزے کا لنچ کرتا۔ کتنی بار ہوتا کہ پیار بھری ضد سے وہ اپنی مما سے پیسے بھی لیے لیتا اور کینٹین سے بھی چیزیں خریدتا۔ گھر واپسی ہوتی تو باقر اور سطوت مزے سے سو جاتے۔ فرحت گھر کے کام کاج میں لگ جاتیں شام کو بچوں کو چائے اور مزے مزے کے اسنیکس کے ساتھ اٹھاتیں، کبھی شامی کباب، کبھی چکن بوٹیاں تو کبھی نوڈلز۔ اس کے بعد وہ خود بچوں کو پڑھاتیں، ساتھ میں اسکول کا کام بھی کرتی رہتیں، بچوں کی کاپیاں، کبھی پیپرز تو کبھی نوٹس۔ رات گئے جب سید عابد گھر واپس آتے سب مل کر ٹی وی دیکھتے، کبھی تو باقر اور سطوت کا ٹی وی ریموٹ پر ہی جھگڑا ہو جاتا تو فرحت بہت پیار سے دونوں کی صلح کروادیتیں۔ رات کا کھانا سب مل کر ساتھ کھاتے۔ زندگی کتنی خوش گوار تھی۔
16دسمبر کو بھی معمول کے مطابق دن کا آغاز ہوا، سیدہ فرحت اٹھیں، فجر کی نماز پڑھی، گھر کی صفائی کیلئے کچن میں گئیں، اپنے شوہر اور بچوں کے لیے ناشتہ بنایا لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ فرحت کا بنایا ہوا یہ ناشتہ ان کا آخری ناشتہ ہوگا، اس کے بعد سطوت اور باقر کبھی بھی ان کے ہاتھ کا ذائقہ دوبارہ محسوس نہیں کرپائیں گے۔ اپنے ہاتھوں سے اپنےبچوں کے کپڑے استری کیے، ان کے جوتے پالش کیے۔ باقر اور سطوت دونوں ہی کہتے تھے کہ مما اب ہم بڑے ہوگئے ہیں، کر لیں گے کام، لیکن ماں کے لیے تو بچے ہمیشہ بچے ہی رہتے ہیں۔ بچے تیار ہوگئے، پھر اپنے شوہر کو ناشتہ کروایا، ان کو تیار ہونے میں مدد کی۔ سیدہ فرحت راستے میں سورۂ یٰسین پڑھتی رہیں جوکہ ان کا روز کا معمول تھا، وہ سفر میں کم بات کرتی تھیں، قرآنی آیات کا ورد کرنا ان کا معمول تھا۔ فرسٹ ائیر کا پرچہ تھا۔ سید سطوت اور سیدہ فرحت اوپر کی منزل کی طرف چلے گئے اورسید باقر نیچے ہال میں۔
فرسٹ ائیر، سکینڈ ائیر جس کا پرچہ تھا، سیدہ فرحت بھی وہاں موجو د تھیں، ان کی ڈیوٹی کمرۂ امتحان میں تھی اور باقر کی کلاس اور نویں جماعت کے سارے سیکشنز نے ہال میں ابتدائی طبی امداد کی تربیت لینی تھی۔ اچانک دہشت گردوں نے اسکول پر حملہ کردیا اور ہال میں آکر فائرنگ شروع کردی۔ اساتذہ کو جلایا گیا اور بچوں پر گولیاں برسائیں۔ سیدہ فرحت نے جب فائرنگ سنی تو وہ اوپر کی منزل سے نیچے کی طرف بھاگیں جہاں سے فائرنگ کی آواز آرہی تھی، انہوں نے بچوں کو بچانے کی کوشش کی، باقر بھی ان ہی بچوں میں کہیں تھا، ہر طرف شور اور آہ و پکار تھی۔ دہشت گردوں نے اپنی گولیوں کا رخ فرحت کی طرف کردیا اور یوں اپنے شاگردوں کے ساتھ سیدہ فرحت بھی شہادت کے درجے پر فائز ہوگئیں۔ باقر بھی وہاں ہی تھا، ایک گولی چھوتی ہوئی اس کے سر کے پاس سے نکل گئی، خوش قسمتی سے اس کی جان تو بچ گئی لیکن اس کی ماں سیدہ فرحت اس کے سامنے جام شہادت نوش کرگئیں۔
ہنستا کھیلتا باقر اب بالکل چپ ہوکررہ گیا ہے، وہ سب کام تو کررہا ہے لیکن کسی روبوٹ کی طرح، وہ سب سے خفا ہے لیکن اپنی خفگی ظاہر نہیں کررہا۔ سید عابد کہتے ہیں کہ فرحت کو دفناتے وقت انہوں نے خود کو بہت تنہا محسوس کیا، سیاسی قیادت میں سے کوئی بھی ان ساتھ کھڑا نہ ہوا۔ وہ منتظر رہے کہ تحریک انصاف، جماعت اسلامی، مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کا کوئی نمائندہ تو آئے گا لیکن کوئی نہ آیا۔ باقر زخمی تھا لیکن سید عابد اس گھر لے آئے کیونکہ اس کی والدہ کا جنازہ تھا، باقر کی دلجوئی کے لیے بھی کوئی نہ آیا۔ کہتے ہیں بچے تو سب کے ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن شاید سیاستدانوں کے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ سید عابد کے مطابق ہماری داد رسی کے لیے صرف پشاور کے کور کمانڈر آئے اور بعد میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ہمیں بلایا اور ہمارے غم کو بانٹا۔
سید عابد علی شاہ کہتے ہیں کہ میری اہلیہ سیدہ فرحت تو شہادت کا رتبہ پا کر اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوگئیں تاہم میرے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد کرگئی۔ اب میں خود صبح اٹھتا ہوں، سطوت اور باقر کے لیے ناشتہ بناتا ہوں، ان کے لیے آفس سے واپس آکر کھانا بناتا ہوں۔ مگر مجھے یہ معلوم ہے ان کی زندگی میں ماں کی کمی کا خلا اب کوئی بھی پورا نہیں کرسکتا۔ میرے بچےبہت بہادری سے اسکول دوبارہ جانا شروع ہوگئے ہیں تاہم میں یہ جانتا ہوں کہ ان کے دل پر کیا بیت رہی ہے۔
سطوت اور باقر نے 12جنوری سے دوبارہ اسکول جانا تو شروع کردیا ہے لیکن اب سب چیزیں بدل گئی ہیں، اب ان کو ماں کے ہاتھ کا کھانا میسر نہیں، ماں کی آغوش میسر نہیں، ماں کا ساتھ میسر نہیں۔ باقر اور سطوت کے اسکول میں اب ان کی ماں استاد سیدہ فرحت موجود نہیں۔ اب سکول میں کبھی بھی وہ اس ماں کو نہیں دیکھ سکیں گے جن کے ساتھ وہ لنچ کرتے تھے اور پیسے لے کر کینٹین بھی جاتے تھے۔ اس سانحے کے بعد بھی باقر اس کلاس کے آگے سے گزرا ہوگا جہاں فرحت پڑھاتی تھیں۔اس کرب کو بیان کرنے کے لیے باقر کی نیم سرخ اور سوجی ہوئی آنکھیں ہی کافی ہیں۔ باقر کی کلاس 9بی کے 8بچے شہید ہوگئے، کلاس میں ان کی خالی کرسیاں باقی ہم جماعتوں کے لیے بہت تکلیف دہ ہیں۔
اب ذمہ داری حکمرانوں پر ہے جن ظالم دہشت گردوں کی وجہ سے باقر نے اپنی کل کائنات کو کھو دیا، ان سے حساب کب لیں گے۔ باقر کے لب خاموش ہیں لیکن آنکھوں میں بہت سے سوال ہیں، اس کو اپنی ماں کی اور ساتھیوں کی شہادت پر فخر ہے لیکن وہ خفا بھی ہےکیونکہ جن کے ساتھ زندگی کی شروعات کی وہ تمام ساتھی ابدی نیند سو گئے۔ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت جن کو سیاست سے ہی فرصت ہی نہیں اور اب انہوں نے شہدائے پشاور پر بھی الزامات کی سیاست شروع کردی ہے، اس طرح سے سانحہ پشاور کے دکھوں کا مداوا نہیں ہوسکتا۔ 16جنوری کو سانحہ پشاور کو ایک ماہ مکمل ہوگیا، اس وقت ہمیں ضرورت ہے کہ باقر جیسے بچوں کو آگے بڑھ کر گلے لگائیں ان کو کھل کر رونے کا موقع دیں، ان کے آنسو صاف کریں، ان کے گلے شکوے سنیں، ان کو یہ احساس دلائیں کہ وہ مشکل کی گھڑی میں اکیلے نہیں پورا پاکستان ان کے ساتھ ہے۔ اگر اب بھی سیاستدان اپنے مفادات کی سیاست کرتے رہے، یہی ہوتا رہا اور کچھ جماعتوں کی مجرمانہ خاموشی اس ہی طرح جاری رہی تو قوم کے نونہال انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ خیبر پختون خوا حکومت کو اب دوسرے صوبوں کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ دو سا ل ہونے کو ہیں، انہوں نے تبدیلی کے کھوکھلے نعروں کے علاوہ کچھ صوبے کو دیا بھی ہے یا نہیں اور وفاق میں مسلم لیگ کو بھی اپنی مجرمانہ غفلت ختم کرکے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا خاتمہ کرے۔ عوام ان کی ذاتی چپقلش اور عناد کا کافی تماشہ دیکھ چکے ہیں، اب بہتری اسی میں ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے کام کیا جائے تاکہ باقر اور اس کے دوستوں کو انصاف مل سکے۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang
Contact at https://twitter.com/#!/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10585#sthash.898ki5Xp.dpuf