Posted in Uncategorized

بڑھتے سفاکانہ واقعات، غربت کا شاخسانہ

April 17, 2014   ……جویریہ صدیق….

..ملک میں گزشتہ دنوں میں ہونے والے واقعات نے ہر کسی کو حیران کر دیا کہ کوئی ذی روح ایسا کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے۔ مری میں ماموں نے سیر کے بہانے لے جا کر اپنے تین بھانجوں کے گلے تیز دھار آلے سے کاٹ ڈالے صرف اس لیے کہ ایک جعلی پیر نے مراد پوری ہونے کے لیے یہ شرط بتائی تھی اس لئے ماموں نے سفاکی کی نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے اپنی ہی بہن کے گلشن کے پھول مسل ڈالے۔ دوسرے واقعے میں بھکر کے دو بھائیوں نے قبروں سے مردے نکال کر ان کا گوشت کھانا شروع کردیا اور تیسرے افسوس ناک واقعے میں ایک جعلی پیر کے بہکاوے میں آکر نوجوان اپنے ہی گھر میں خزانے کی نشاندہی کے بعد سرنگ کھودتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔جس ملک میں عوام کی بیشتر آبادی غربت کی لکیر کے نیچے رہ رہی ہے نہ ہی انہیں روٹی میسر ہے نہ پینے کا صاف پانی ہے۔ انہیں پہننے کو لباس میسر ہے نہ ہی سر پہ چھت تو ایسے واقعات وہاں کیوں نہ جنم لیں۔ 18کروڑ آبادی والے ملک میں پانچ کروڑ 87لاکھ افراد خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں۔ نو کروڑ افراد غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ ڈھائی کروڑ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ ہر دس میں سے ایک پاکستانی بے روزگار ہے تو ایسے واقعا ت کا جنم ہوگا۔ جب دنوں میں امیر بنے کے چکر میں لالچ کرتے ہوئے عوام غلط راستوں کا انتخاب کریں گے۔ پاکستان وہ ریاست ہے جہاں آزادی کے 67برس بعد بھی حکومتوں کی عدم توجہی کے باعث لوگ پینے کے صاف پانی، صحت کی بینادی سہولتوں، انصاف، بجلی اور سڑکوں کے لیے ترس رہے ہیں۔ لاقانونیت، بے ایمانی، نااہلی اور بدانتظامی عروج پر ہے کوئی کام رشوت دیے بغیر نہیں ہوتا۔ ایک فیصد امراء طبقہ تو دنیا کی ہر نعمت سے لطف اندوز باقی پاکستان صرف دال روٹی کی چکی میں پستے ہوئے تو اس ملک کے لوگ غلط راہ کا انتخاب کرتے ہوئے جعلی پیروں کے آستانوں پر سر پٹختے ہیں اور مزید دلدل میں دھنس جاتے ہیں لیکن عوام کو بھی یہ جان لینا چاہیے۔ لالچ، غصہ اور جہالت آپ کو تختہ دار تک بھی پہنچا سکتی ہے یا پھر موت کے منہ میں لیے جا سکتی ہے۔ دین سے دوری اور عقیدے کی کمزوری بھی ان واقعات کے پیچھے کار فرما ہے غربت کبھی بھی یہ نہیں کہتی کہ دین سے منہ موڑ لیا جائے یا محنت سے جی چرایا جائے۔

ماہر نفسیات رابعہ منظور ان واقعات کا سبب غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کو قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق لوگ اپنے مسائل کا فوری حل چاہتے ہیں، اس لیے وہ جعلی پیروں کا رخ کرتے ہیں اور تعویذ اور مختلف غلط عملیات میں پڑ کر اپنی دین اور دنیا دونوں خراب کرتے ہیں۔ رابعہ منظور کے مطابق ان تینوں واقعات کے پیچھے جہالت اور غربت کار فرما ہے اور گوشت خوری جسے فعل کے پیچھے بھی سماجی مسائل کا عمل دخل ہوتا ہے۔ ان کے مطابق اگر پریشانی یا مایوسی کی صورت میں عوام جعلی پیروں کے بجائے ماہر نفسیات سے رجوع کریں تو ان کی رہنمائی سے بہت سے مسائل ختم نہ سہی پر ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری اسپتالوں میں یہ سہولت موجود ہے کہ لوگ آئیں اور معالجین کے ساتھ اپنے مسائل کو زیر بحث لائیں اور بات چیت اور بعض اوقات ادویات سے بھی ذہنی پریشانیوں کو قابو کیا جاسکتا ہے۔ ذہن پر سکون ہوگا تب ہی انسان محنت کرکے اپنی راہیں آسان کرسکتا ہے۔جعلی پیروں کی چاندی صرف اس وجہ سے ہے کہ معاشرے سے ایثار، ہمدردی اور احساس ختم ہوتا جارہا ہے۔ سادہ لوح افراد اپنے مسائل کے فوری حل کے لیے ان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جن میں سے کچھ جمع پونجی سے محروم اور کچھ جان سے چلے جاتے ہیں، ان حالات میں ضرورت ہے کہ معاشرے میں روادری اور اخوت کو فروغ دیا جائے صرف اس بات کا انتظار نہ کیا جائے کہ حکومت آپ کے حالات تبدیل کرے گی بلکے ہمیں خود اپنے حالات تبدیل کرنا ہوں گے، اگر آپ کے گھر میں کھانا زائد ہو تو گلی میں موجود کسی غریب ہمسائے کے گھر بھی بھجوایا جاسکتا ہے، اگر اپنے بچوں کی کتابیں لینے جارہے ہیں تو کسی غریب نوکر کے بچوں کا بھی کورس لایا جاسکتا ہے، اگر اپنے لیے ڈیزائنر لان کے ڈھیروں سوٹ لیے جارہے تو کسی غریب کی ستر پوشی کا بھی انتظام کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم سب خود اپنے غریب محلے داروں اور رشتہ داروں کی مالی مدد کرنا شروع کردیں تو ایسے واقعات کا سدباب ہوجائے۔

کسی بھی کمزور عقیدے کے بہن بھائی کو تکلیف میں دیکھیں تو اس کو یہ کہیں اللہ کی ذات پر یقین کامل رکھو۔ سجدے طویل کرو اور قرآن پاک کی تلاوت کرو وہ خود حل نکالے گا۔ جو جعلی پیر دوسروں کی قسمت بدلنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ پہلے اپنی تقدیر کیوں نہیں بدل لیتے؟ اس لیے کے تقدیر صرف اللہ تعالی ہی بدل سکتے ہیں ان کے سوا کوئی نہیں۔ اس لیے ہمیں بحثیت قوم بدلنا ہوگا کہ ہاں ضرور کسی نے مجھے نظر لگا دی ہے یا کسی نے جل کر ہم پہ جادو کرادیا ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اگر مشکل حالات ہیں تو اللہ کی مدد، دعا اور محنت سے سب حالات ٹھیک کیے جاسکتے ہیں۔ ان تینوں واقعات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ لاعلمی، جہالت، لالچ، طمع ایسے کام کرا جاتی ہے جن کا پھر کوئی مداوا نہیں اور جہاں تک گوشت خور بھائیوں کی بات ہے ان کو فوری طور پر طبی معائنے کی ضرورت ہے، علاج کے ذریعے سے ان کے اس ذہنی خلل پر قابو پا یا جاسکتا ہے۔

Javeria Siddique is a Journalist and Award winning photographer.

Contact at https://twitter.com/javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9753#sthash.KXxF38DG.dpuf

Posted in Uncategorized

تھرکی افسوسناک صورتحال

March 11, 2014  

…جویریہ صدیق…
تھر کے بچوں کو بھوک اور افلاس نگل رہی اور الزامات کی سیاست عروج پر ہے۔ انسانوں کو کھا نا میسر ہے نا ہی مویشوں کو چارہ۔ تھر میں اب تک ایک سو اکیتس سے زائد بچے جان بحق ہوچکے ہیں اور دو لاکھ سے زائد خاندان متاثر ہیں۔ غذائی قلت اور قحط سالی کے حوالے سے جب میڈیا پر خبریں آئیں تو سندھ حکومت جاگی کہ عوام کی مدد کے لیے بھی کچھ کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے وہاں مرنے والے بچے قحط سالی سے نہیں بلکہ دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہوئے ہیں اور سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ سمیت دیگر پی پی لیڈران بھی اس بات کی تائید کرتے رہے تاہم صورتحال اس کے برعکس ہے۔تھر ایک صحرائی علاقہ ہے اور اس سال بارشیں بھی کم ہوئیں جس کے بارے میں حکومت سندھ کو محکمہ موسمیات پہلے ہی آگاہی دے چکی تھی تاہم حکومت سندھ کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور مربوط پالیسی کے فقدان کے باعث تھر میں قحط کی صورتحال پیدا ہوگئی۔
اس وقت تھر میں متاثر بچے اسپتالوں میں شدید کرب سے گزر رہے ہیں کم عملہ، ادویات کی قلت اور جدید مشینری کی کمی کے باعث بہت سی اور اموات کا خدشہ ہے۔جیو پر خبر نشر ہونے کے بعد بہت سے عالمی ادارے اور مخیر حضرات حرکت میں آگئے اور متاثرین تک امداد کا سلسلہ شروع ہوا، تاہم سندھ حکومت نے پہلے تو صرف بیان بازی اور بعد میں ایک تھر متاثرین فنڈ قائم کرنے کو ہی کافی سمجھا۔ تاہم میڈیا اور سوشل میڈیا کی تنقید کے بعد تھر کے دوروں کا آغاز ہوا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ جو کہ سندھ کے وزیر صحت بھی ہیں اور ان کے داماد اقبال درانی سیکریٹری صحت ہیں، انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کہ سرکاری سطح پر گندم کی تقسیم صحیح طور پر نا ہو سکی اور انہوں نے حکومت کی غفلت کا اعتراف کیا۔تاہم اس اعتراف کے ساتھ ساتھ جہاں لوگ تھر میں بھوکے مر رہے ہیں، وہاں وزیر اعلیٰ سندھ کی آمد پر پرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا گیا جس میں انواع اقسام کے کھانے پیش کیے گئے۔ یہ صورتحال افسوس ناک ہے کہ ایک طرف علاقے میں لوگ بھوک افلاس سے مر رہے ہوں اور دوسری طرف افسر شاہی صرف حکومتی ارکان کو خوش کرنے میں مصروف اور جہاں لوگ ایک ایک دانے کو ترس رہے ہوں وہاں دوسری طرف ظہرانے میں ملائی تکہ، ریشمی کباب، مٹن بریانی، ذردہ موجود ہوں افسوس کا مقام ہے۔
دس مارچ کو چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف بھی مٹھی تھر پارکر پہنچ گئے ان کے دورے سے پہلے تما م سڑکیں صاف کی گئی، تما م دکانیں، بازار بند کروادیے گئے اور ستم ظریفی تو ملا حظہ ہو واحد سرکاری اسپتال کے دروازے بھی سیکورٹی کے نام پر بند کردیے گئے اور مریض بے یارومدگار در بدر ٹھوکریں کھاتے رہے۔ وزیراعظم نے ایک ارب روپے امداد کا اعلان کیا اور ساتھ ساتھ حکومت سندھ سے اس صورتحال پر انکوائری کرنے کا حکم دیا اب وزیر اعلیٰ جو خود ہی وزیر صحت بھی ہیں، کیا کاروائی کریں گے؟ اور کس کے خلاف؟ یہ محکمہ تو ان کے خاندان کے ہی ماتحت ہے۔
صرف تھر کی کیا بات کریں سندھ کے چوبیس میں سے آٹھ دیگر اضلاع بھی غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اور بات ہو اگر پورے پاکستان کی تو اس وقت پاکستان کی اڑتالیس فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے اور کہنے کو یہ زرعی ملک ہے۔وقت کی ضرورت اس وقت صرف اعلانات یا انکوائریاں کروانے کا نہیں بلکے یہ وقت فوری طور پر تھر کے متاثرین کو امداد پہنچانے کا ہے۔ان کو اس وقت امرا کے دوروں یا اعلانات کی نہیں، اناج کی ضرورت ہے ان کو فوری طور پر پانی، بسکٹ، دودھ، کپڑوں اور خیموں کی ضرورت ہے۔تھر میں لوگ امداد کے منتظر ہیں، گندم کی تقسیم کا کام بہت سست روی سے جاری ہے مانگنے والے بہت ہیں لیکن دینے والے بہت کم۔آٹا، چاول، دودھ سب ہی تھر میں نا پید ہے اس لیے ہم سب کو تھر کے عوام کی مدد کے لیے کھڑا ہونا ہوگا اور حکومت کو ایسی پالیسیاں بنا نا ہوں گی جس سے خشک سالی، قحط سالی اور غذائی قلت پر قابو پایا جاسکے اور اس مجرمانہ غفلت پر محمکہ خوراک کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے۔

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9637#sthash.G8l5oYd3.dpuf