Posted in ArmyPublicSchool, Pakistan

پشاور کے بچوں کے لہو پر سیاست

  Posted On Thursday, January 15, 2015   …..جویریہ صدیق…….
کسی بھی انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کے بچے ہوتے ہیں۔ماں اپنی کوکھ میں نو ماہ رکھ کر بچے کو پیدا کرتی ہے تو ورثا بچے کی آمد پر پھولے نہیں سماتے ۔ بچے کے ناز نخرے اس کی کلکاریاں اس کی شرارتیں بس خاندان بھر کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔اگر بچہ کو ہلکی سی بھی چوٹ لگ جایے یا معمولی سی بیماری آجایے تو ماں کے دل پر جو قیامت بیتی ہے اس کا حال صرف ماں ہی بیان کرسکتی ہے۔باپ بھی اتنی ہی شفقت بچے کو دیتا ہے جتنی ماں بچے کو محبت دیتی ہے۔دونوں کی کوشش ہوتی ہے بچے کو ایک ہلکی سی خراش بھی نا پہنچے۔
آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچے بھی اپنے والدین کی آنکھوں کا تارہ تھے ان کے دل کا قرار اور زندگی کا کل اثاثہ ۔موت طالبان کی صورت میں آئی اور بچوں کے ساتھ وہ حیوانیت برتی گی کہ ظلم و بربریت کی ایسی مثال پہلے ملتی ہی نہیں۔مائوں نے اپنے جیتےجاگتے شہزادے سکول بھیجے تھے جب واپس ملے تو کسی کے چہرے پر گولیاں تھیں کسی کا گلا کاٹ دیا گیا تھا کسی پھول کا جسم گولیوں سے چھلنی ملا تو کسی تو جلا دیا گیا تھا۔پشاور کی مائیں روتی رہیں چیختی رہیں لیکن ان کے ہنستے کھیلتے بچے تابوتوں میں بے جان پڑے تھے۔مائیں ان کا نام لیتی رہی ان کو اٹھنے کا کہتی رہیں لیکن جنت کے پھول تو واپس جنت جا چکے تھے۔
اس سانحے کے بعد امید تھی کی سیاسی قیادت ایک ہوجائے لیکن ایسا نا ہوا کچھ دن سوگ کا لبادہ اوڑھے رکھنے کی بیکار کوشش کے بعد وہ ہی آپس کے الزامات،طعنے،لڑائی کی سیاست کا آغاز کردیاگیا۔اس دوران لواحقین کو یکسر فراموش کردیا۔پہلے ایک دو دن تو فوٹو شوٹ کے لیے مرکزی اور صوبائی حکومتی ارکان کے وزٹ ہوتے رہے اس کے بعد وہ ہی دھاندلی دھاندلی کا واویلا شروع ہوگیا۔پھر انقلابی لیڈر کی شادی آگئی۔لواحقین اگر یاد رہے تو صرف آرمی کو لواحقین کے مطابق ٰصرف آرمی کے نمائندے ہماری دلجوئی کرنے آئے۔انہیں گلہ ہے اس بات کا جب سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیے وہ کیوں نا آئے۔
12 تاریخ سے آرمی پبلک سکو ل اور ملک کے تمام سکولوں میں تدریس کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ۔تمام پاکستان کو اس وقت خوش گوار حیرت ہوئی جب بچوں کو پاکستان کے آرمی چیف راحیل شریف نے خود جا کر ریسو کیا۔اپنی اہلیہ کے ساتھ بچوں کی اسمبلی میں شرکت کی۔ سب بچوں سے ملے ان کا حوصلہ بڑھایا۔لواحقین منتظر رہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کب آئیں گے، تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کب آئیں گے، پی پی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری کب آئیں گے لیکن کوئی نا آیا۔جب میڈیا پر بہت شور مچ گیا۔تو عمران خان جن کی پارٹی کی خیبر پختون خواہ میں حکومت ہے یہ کہا کہ ہمیں منع کیا گیا تھا کہ پہلے دن آرمی کا فنکشن ہے آپ مت آئیں۔مسلم لیگ ن نے تو وضاحت دینا بھی ضروری نا سمجھا یہ ہی حال پی پی پی کا ہے۔
14 جنوری کو تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان اکیس گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ آرمی پبلک سکول پہنچے۔ان کی آمد پر سیکورٹی پر مامور پولیس نے شہدائے سانحہ پشاور کے لواحقین سے بدتمیزی کی ، انہیں دھکے دئیے اور برا بھلا کہا۔شہدائے پشاور کے نیم زندہ والدین اس بات پر احتجاج کرنے لگے اور گو عمران گو کے نعرے لگائے۔اسفند یار شہید کی والدہ دہائی دیتی رہیں کہ یہ سیاستدان کیسے ہمارے ساتھ ہیں ؟ ہم تڑپ رہے ہیں یہ شادی کررہے تھے یہ صرف باتیں کرتے ہیں ہمارے لیے تبدیلی کی لیکن اصل میں ان کے یہاں آنے کامقصد صرف فوٹو شوٹ تھا۔احسان شہید کی والدہ بھی روتی رہیں اور کہتی رہیں عمران خان ، نواز شریف، آصف علی زرداری ہمارے دو دو بیٹے چلے گئے اور آپ سب کو احساس ہی نہیں۔
آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں کی مائیں دہائیاں دیتی رہیں، روتی رہیں اور پشاور پولیس پروٹوکول کے نام پر ان کو دھکے دیتی رہی، خیبر پختون خواہ حکومت کے نمائندے انہیں برا بھلا کہتے رہے۔مائیں یہ پوچھتی رہیں کہ ہمارے بچوں کا چالیسواں بھی نہیں ہوا اور یہ سیاستدان خوشی کے شادیانے بجاتے رہے۔16 دسمبر کے بعد سے ہمیں تنہا چھوڑا ہوا ہے ۔اب ہمارے بچوں کی لاشوں پر سیاست کر رہے ہیں اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے آئے ہیں اور کچھ نہیں ان کا مقصد۔
عمران خان کے خلاف احتجاج پر صوبائی وزیر خیبر پختون خواہ مشتاق غنی نے یہ الزام عائد کردیا کہ احتجاج کرنے والے پلانٹڈ تھے اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہا کہ والدین نے احتجاج کیوں کیا ؟ اسکول آرمی کا ہے،صوبہ کے چیف پرویز خٹک ہیں تو میری آمد پر احتجاج کیوں ؟انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگ مجھے بھی والدین نہیں لگے اس کے بعد انہوں نے پھر چار حلقے اور دھاندلی کی گردان شروع کردی۔
عابد رضا بنگش جن کے اپنے بیٹے رفیق بنگش نے آرمی بپلک سکول میں شہادت پائی اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ خیبر پختون خواہ کی حکومت نے انہیں یکسر فراموش کردیا ہے اور اب اوپر سے یہ بھی الزام عائد کیا جارہا ہے کہ احتجاج کرنے والے والدین نقلی تھے،ان کے مطابق اگر یہ بات ثابت ہوگی تو وہ شہدا فورم کو ختم کردیں گے۔
آج جو بھی ہوا بہت افسوس ناک ہے شہید ہونے والے پھولوں کی لاشوں پر سیاست کی کوشش،بچوں کے لواحقین کو نقلی کہنا ان کو پولیس کے ہاتھوں سے ذلیل کروانا ہمارے سیاست دان کہاں جا رہے ہیں ۔نیم مردہ والدین جن کی زندگی تو قبر میں دفن ہوگی، ان والدین پر تشدد کرنے کا کیا جوازہے جن کے بچے چلے گئے ،کیا وہ خیبر پختون خوانئےپاکستان میں احتجاج بھی نہیں کرسکتےِ ؟کیا ہمارے سیاستدانوں اور انتظامیہ میں سے انسانیت ختم ہوگی ہے ؟ آج کے واقعے کے بعد آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں کے والدین نے مطالبہ کیا کہ ان پر تشدد کرنے والے ایس ایس پی آپریشن اور ڈپٹی کمشنر کو فوری طور پر معطل کیا جائے اور صوبائی حکومت میں ذمہ دار افراد مستعفی ہوں۔
سیاست دانوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ کہ سیاست برائے سیاست سے کہیں وہ عوام میں اپنی مقبولیت کھو نا دیں۔ کھوکھلے وعدے اور نعرے انقلاب بہت عرصہ تک عوام کو دلاسا نہیں دے سکتے۔اگر عوام کے لیے کچھ کرنا ہی ہےتو تمام سیاست دان سیاست برائے خدمت کریں۔عوام کے مفاد میں سیاست کی جائے اپنی ذاتی چپقلش اور عناد کو ایک طرف رکھ تمام سیاستدانوں کو دہشت گردی کے ستائے عوام کی داد رسی کے لیے فوری اقدام کرنا ہوں گے،ورنہ پاکستان کی آئندہ نسلوں کے سامنے یہ سر اٹھا کر نہیں چل سکیں گے۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang
Contact at https://twitter.com/#!/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10579#sthash.POoZxwGG.dpuf

Posted in Uncategorized

صوبائی اسمبلیوں کی پہلے سال کی کارکردگی

September 29, 2014   ………جویریہ صدیق………
پاکستان کی چاروں صوبائی اسمبلیوں پنجاب ، سندھ،خیبر پختون خوااور بلوچستان کی ایک سالہ کارکردگی کی رپورٹ پلڈاٹ نے جاری کردی ہے۔ چاروں اسمبلیاں 2013کے عام انتخابات کے بعد وجود میں آئیں۔ پلڈاٹ کی رپورٹ میں میں 2013سے جون 2014تک کی صوبائی اسمبلیوں کی کارکردگی شامل کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ قانون سازی، ارکان کی حاضری، وزرائے اعلیٰ کی حاضری، قائمہ کمیٹیوں کی کارکردگی اور کام کے اوقات کار پر مبنی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سب سے بہتر کارکردگی سندھ اسمبلی کی رہی،دوسرے نمبر پر خیبر پختون خوا ،تیسرے نمبر پر بلوچستان اور چوتھے نمبر پر پنجاب اسمبلی رہی۔ 12مہینے پر مشتمل پہلے پارلیمانی سال میں بلوچستان اسمبلی نے 54،خیبرپختون خواہ 72 ،پنجاب اسمبلی 70اور سندھ اسمبلی نے 57 دن کام کیا۔

سب سے پہلے بات ہوگی سندھ اسمبلی کی جو کارکردگی کے لحاظ سے اول نمبر پر رہی۔ صوبائی سندھ اسمبلی کے پہلے پارلیمانی سال کا آغاز 29مئی 2013سے شروع ہوکر 28مئی 2014کو مکمل ہوا۔ دس مہینے کی تاخیر کے بعد قائمہ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، ہر محکمے کے لیے 37مجالس کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا۔ تاہم 37میں سے صرف 22مجالس فعال ہوئیں اور ان کے چیئرپرسن کا انتخاب ہوا۔ قانون سازی میں 36سرکاری بل قانون کی حیثیت اختیار کرگئے۔ ان میں سندھ کریمنل پراسیکیوشن سروس، ماحولیاتی تحفظ اور لوکل گورنمنٹ سے متعلقہ قوانین شامل ہیں۔صوبا ئی اسمبلی نےپیش کی جانے والی 65قراردادیں متفقہ طور پر منظور کیں۔ اسمبلی قواعد کے تحت 226قردادیں موصول ہوئیں جن میں سے 11کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا جن میں لڑکے اور لڑکی کی شادی کے لیے کم ازکم عمر 18سال، کم عمری کی شادی کا خاتمہ، صوبے میں گھریلو صنعتوں کا قیام، خواتین کو فنی تربیت کے لیے بلا سودی اسکیموں کا معتارف کرایا جانا شامل ہے۔ صوبائی اسمبلی سندھ کے پورے پہلے پارلیمانی سال کے دوران اسمبلی کا اجلاس دو گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے 57نشستوں میں 27میں شرکت کی۔سندھ اسمبلی سے کوئی بھی وفد بیرون ملک نہیں گیا۔ اسمبلی نے اپنے 100ایام کار کے دوران 12اجلاس منعقد کیے جن میں اصل ورکنگ ڈے 57تھے۔ موجودہ اسمبلی نے اپنے پہلے سال میں قانون سازی کے حوالے سے اپنی کارکردگی میں گزشتہ اسمبلی کے اوسط کے حساب سے 58فیصد اضافہ کیا اور 174گھنٹے کام کیا۔

کارکردگی کے لحاظ سے خیبر پختون خوا اسمبلی دوسرے نمبر پر رہی، اگر اس کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی تشکیل میں 7ماہ کی تاخیر ہوئی۔ بعد ازاں 46قائمہ کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا جن میں سے صرف 17کا اجلاس ہوا۔ پہلے پارلیمانی سال میں 9کمیٹیوں کا اجلاس ہوا ہی نہیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سب سے زیادہ 16اجلاس بلائے۔ ایوان میں پیش کیے جانے والے 39میں سے 28منظور ہوئے۔ غیرسرکاری 15مسوادت پیش ہوئے جن میں سے دو منظور ہوگئے۔ اسمبلی نے جن اہم قوانین کی منظوری دی ان میں معلومات کی رسائی کا قانون، احتساب کمیشن کا مثالی قانون۔موجودہ اسمبلی نے 100نشستوں کے مقابلے میں 104دن کام کیا۔ کل 243گھنٹے۔ اس اسمبلی میں124ارکان میں سے 75ارکان پہلی بار منتخب ہوکر ایوان میں آئےاورایوان میں اکثریت پاکستان تحریک انصاف کی ہے۔ اسمبلی سیکرٹریٹ میں 604قراردادیں موصول ہوئیں، ان میں سے 34منظور ہوئیں۔ خبیر پختون خوا کے اسپیکر نے 3غیر ملکی دورے کیے اور اخراجات صوبائی اسمبلی خیبر پختوانخوا نے برداشت کیے۔ پہلے پارلیمانی سال کے دوران 12اجلاس ہوئے جن میں 8حکومت اور 4اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلائے گئے۔وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک نے 75نشستوں میں سے 31میں حاضر رہے۔

تیسرے نمبر پر بلوچستان کی صوبائی اسمبلی رہی۔ اسمبلی کا پہلا اجلاس یکم جون 2013کو ہوا اور پہلا پارلیمانی سال 22مئی 2014کو مکمل ہوا۔ بلوچستان اسمبلی میں نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، پاکستان مسلم لیگ، مجلس وحدت المسلمین اور پاکستان مسلم لیگ ن نے مل کر حکومت بنائی۔ حزب اختلاف میں عوامی نیشنل پارٹی،جمعیت علمائے اسلام،بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل شامل ہیں۔10ویں اسمبلی نے 96دن کام کیا اور 100دن کم ازکم ایام کار کا آئینی تقاضہ پورا نہیں کیا۔ اسمبلی نے صرف 142گھنٹے کام کیا۔ قائمہ کمیٹیوں کی بات ہو تو پارلیمانی سال کے اختتام تک صرف دو مجالس تشکیل ہوسکیں۔ اسمبلی نے 21قوانین متفقہ طور پر منظور کیے جن میں مسودہ قانون مالیات،لازمی تعلیم کا قانون 2014بھی شامل ہیں۔10ویں صوبائی اسمبلی نے 28حکومتی اور 38غیر سرکاری ارکان کی قراردادیں منظور کیں۔ان میں اہم ہینڈری میسح،نجی صنعتی یونٹوں اور دیگر کمپنیوں میں ملازمت کے لیے مقامی نوجوانوں کے لیے 70فیصد کوٹہ مختص، بلوچستان کی ساحلی پٹی کا نیا نام رکھنے اور پولیو مہم کی اہمیت کے حوالے سے قراردادیں شامل ہیں۔ پہلے پارلیمانی سال کے دوران بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے تین غیر ملکی دورے کیے۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبد المالک بلوچ نے 54نشستوں میں سے 26میں شرکت کی۔

پنجاب اسمبلی کی کارکردگی سب سے آخر میں رہی۔ پنجاب اسمبلی نے اپنا پہلا پارلیمانی سال 31مئی 2014میں مکمل کیا۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے 70میں سے صرف 3اجلاس میں شرکت کی۔ اسپیکر رانا محمد اقبال کا رویہ نرم رہا اور تمام اجلاس ہی دو گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوئے۔کل 8اجلاس بلائے گئے جن میں 70نشستیں ہوئیں۔ پنجاب اسمبلی کو بھی 7ماہ تاخیر کے بعد قائمہ کمیٹیاں قیام کرنے کا خیال آیا۔ 37حکومتی بل پیش ہوئے جن میں 33پاس ہوئے۔پہلے پارلیمانی سال میں آٹھ پرائیوٹ ممبر بل پیش کیے گئے جن میں سے ایک کلیئر ہوا۔پہلے پارلیمانی سال میں 213گھنٹے کام کیا گیا۔ 478قراردایں پیش ہوئیں۔ 628توجہ دلاؤ نو ٹس پیش کیے گیے جن میں سے صرف 48کا جواب موصول ہوا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی 14میٹنگز ہوئیں۔جو اہم بل پا س ہوکر قانون کا حصہ بنے ان میں پنجاب فنانس بل، پنجاب مینٹل ہیلتھ ترمیمی بل، ماں بچے اور نومولود بچوں کی صحت کا بل، باب پاکستان فاؤنڈیشن بل، محمد نواز شریف یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی بل اہم ہیں۔ پنجاب اسمبلی نے 213گھنٹے کام کیا۔

اس ہی رپورٹ میں کیے گئے سروے کے مطابق ملک کی بڑی تعداد نے اسمبلیوں کی پورے سال کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔ ان کے مطابق عوام کے بڑے مسائل توانائی،مہنگائی، بے روزگاری اور دہشت گردی کے حوالے سے کوئی مؤثر قانون سازی ہی نہیں کی گئی۔نہ ہی عوامی نمائندوں نے عوام کے مسائل مؤثر طریقے سے ایوان میں پیش کیے۔ اس رپورٹ میں سفارشات کی گئیں کہ وقفۂ سوالات میں اضافہ ناگزیر ہے اور ہفتے میں ایک بار وزیر اعلیٰ خود جواب دیں۔ بجٹ دورانیے کو 11سے 13یوم بڑھا کر کم از کم 30تا 40دن کردیا جائے۔ہر روز کی کارروائی میں ایک گھنٹہ صرف عوامی اور حلقے کے مسائل کے لیے مختص ہو۔ قائمہ کمیٹیوں میں اہم شعبوں کے ماہر اور پوسٹ گریجوٹ طالب علموں سے بھی معاونت حاصل کریں۔ صوبائی اسمبلیوں میں پارلیمانی کیلنڈربنایا جائے اور اس کی پابندی ہو۔اس کے ساتھ ساتھ اسمبلی میں اسٹاف بھرتی کرتے وقت قواعد وضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے میرٹ پر بھرتیاں کی جائیں۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias

javeria.siddique@janggroup.com.pk   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10238#sthash.LIwJ1vpR.dpuf

Posted in Uncategorized

پہلا پارلیمانی سال اور ارکان کی کارکردگی

May 30, 2014   …جویریہ صدیق…

پاکستان کی چودہویں منتخب اسمبلی نے اپنا پہلا پارلیمانی سال مکمل کرلیا۔ یہ ایوان 2013 میں ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ پہلے پارلیمانی سال کی مدت یکم جون 2013 سے 30 مئی 2014 پر مشتمل ہے۔اس بار ایوان میں اکثریت مسلم لیگ نواز کی ہے اوران کی نشستوں کی تعداد 190 ہے جن میں ایک 149 جنرل نشستیں، 35 مخصوص نشستیں اور 6 اقلیتی ارکان شامل ہیں۔ مسلم لیگ ن کے بعد اسمبلی میں بڑی تعداد پیپلز پارٹی کی ہے جن کی نشستوں کی تعداد 46 ہے جس میں 37جنرل نشستیں، 8 مخصوص نشستیں اور ایک اقلیتی رکن کی نشست ہے۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کا نمبر ہے جو34 نشستوں کے ساتھ پارلیمان میں تیسرے نمبر پر ہے جن میں 27 جنرل،6 مخصوص اور ایک نشست اقلیتی رکن کی ہے۔ چوتھی بڑی جماعت ایم کیوایم ہے اور اس کے ارکان کی تعداد 24 ہے، جس میں 19 جنرل، 4 مخصوص، ایک اقلیتی نشست ہے۔ پانچویں نمبر پر جمعیت علمائے اسلام ہے، جس کی کل 13 نشستیں ہیں، 9 جنرل، 3 مخصوص اور ایک اقلیتی نشست۔ مسلم لیگ (ف) 5 ، جماعت اسلامی 4، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی 4، نیشنل عوامی پارٹی 2، پاکستان مسلم لیگ 2،اے این پی 2، بی این پی ایک، قومی وطن پارٹی شیر پاؤ گروپ ایک، مسلم لیگ ضیا ایک، نیشنل پارٹی ایک،عوامی مسلم لیگ ایک،اے جے ائی پی ایک، اے پی ایم ایل ایک اور آٹھ نشستوں کے ساتھ آزاد امیدوار نشستوں کے ساتھ نمایاں ہیں۔ قومی اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد 342 ہے۔

اس پارلیمانی سال کا آغازیکم جون دو ہزار تیرہ سے ہوا اورپارلیمانی سال کا آخری اجلاس پانچ مئی دوہزار چودہ سے شروع ہوا اور سولہ مئی دو ہزار چودہ تک جاری رہا۔ اس پارلیمانی سال میں گیارہ اجلاس ہوئے اور ایک اجلاس مشترکہ بھی تھا جس میں صدر پاکستان نے خطاب کیا۔ اگر کارکردگی کی بات کریں تو یوں پارلیمانی کارروائی میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں رہا جس میں ایوان سے تمام تین سو بیالیس ارکان موجود ہوں۔ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف ایوان میں صرف سات بار آئے اور وزرا کا حال بھی کچھ ایسا ہی رہا، ایوان میں اکیس بار کورم نا پورا ہونے کی نشاندھی کی گئی۔

اپوزیشن بھی اس دوڑ میں پیچھے نا رہی، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پورے پارلیمانی سال میں صرف گیارہ بار ہی ایوان میںآ ئے۔ مولانا فضل الرحمان بھی کیوں پیچھے رہتے وہ بھی صرف پندرہ دن ایوان کو اپنا دیدار کرا گئے، یہی حال پرویز الہٰی کا بھی رہا۔ایوان کی کاروائی ایک سو اکتالیس دن چلی لیکن نیشنل پارٹی کے کامل خان اور آذاد امیدوار عثمان ترکئی صرف دو دن ہی ایوان میں آنے کا وقت نکال سکے۔ شاید ان سب معزز ممبران کو پارلیمان سے بھی کچھ زیادہ اہم کام نمٹانے ہوں گے۔ گیارہ بار اسمبلی کا اجلاس صرف اس ہی وجہ سے ملتوی ہوا کہ ارکان کی تعداد بہت کم تھی۔

پرائیویٹ ممبران کی طرف سے 43 بل ایوان میں پیش کیے گیے، جن میں سے ایک بھی منظور نا ہوسکا۔ گذشتہ پارلیمانی سال میں حکومت نے تیرہ بل اور بارہ آرڈیننس پیش کیے جن میں سے گیارہ بل منظور ہوئے جن میں فنانس بل دو ہزار تیرہ، فیڈرل کورٹ بل دوہزار چودہ، انسداد دہشت گردی ترمیمی بل دو ہزار چودہ، انسداد دہشت گردی دوسرا ترمیمی بل دو ہزار چودہ، لیگل پریکٹشنر و بار کونسل ترمیمی ایکٹ دو ہزار چودہ، نیشنل جوڈیشل کمیٹی ایکٹ دو ہزار چودہ،لاء اور جسٹس کمیشن آف پاکستان ترمیمی ایکٹ دوہزار چودہ، فیڈرل پبلک سروس کمیشن ترمیمی ایکٹ دو ہزار چودہ، سروے اور میپنگ ایکٹ دو ہزار چودہ، سروس ٹریبونل ترمیمی ایکٹ دو ہزار چودہ اور پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ شامل ہے۔

اگر ارکان کی کارکردگی اور حاضری کا جائزہ لیں تو فافن کے مطابق گیارہ اجلاس بلائے گئے، جن میں ننانوے نشستوں میں اسپیکر ایاز صادق تراسی بار ، ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی چھیاسٹھ بار ایوان میں آٰئے۔ لیڈر آف اپوزیشن خورشید شاہ ننانوے میں سے پیچھتر بار آئے اور نواز شریف وزیر اعظم پاکستان نے صرف سات بار ہی دیدار کرایا۔

پہلے پارلیمانی سال میں تو ایوان میں اراکین کی کارکردگی مایوس کن رہی اور صرف گیارہ بل ہی پاس ہوئے جن میں سے کوئی بھی قانون کی صورت اختیار نا کرسکا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ایوان بالا میں اکثریت پی پی کی ہے اور ایوان زیریں میں مسلم لیگ کی۔ حکومتی ارکان کی بھی عدم توجہی عروج پر رہی اور وہ ایوان سے زیادہ تر غیر حاضر رہے۔ امید پر دنیا قائم ہے دو جون سے دوسرے پارلیمانی سال کا آغاز ہو رہا ہے اور عوام کی یہ خواہش ہے ان کے منتخب نمائندے دوسرے پارلیمانی سال میں دل جمعی کے ساتھ کام کریں اور حاضری کو بھی یقینی بنایں اور موثر قانون سازی کریں تاکہ عوام کو اسکے ثمرات مل سکیں۔ – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9876#sthash.7irsL1hi.dpuf

Posted in Uncategorized

سندھ اسمبلی میں شادی خانہ آبادی

November 04, 2013   ۔۔۔ جویریہ صدیق ۔۔۔
پاکستان میں یوں تو اکثر عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں تاہم تین نومبر کو سندھ اسمبلی میں ایسا واقعہ رونما ہوا جوکہ آج تک تاریخ میں رونما نہیں ہوا۔سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کے بھتیجے کی شادی کی تقریب سندھ اسمبلی میں منعقد کروا دی گی ۔یہ اسمبلی کی تاریخ میں پہلا موقع تھا جب ایک ہزار کے قریب خواتین اور مرد حضرات خوب زرق برق ملبوسات میں ملبوس ہوکر اسمبلی پہنچے جہاں ان کی تواضع مشروبات اور انواع اقسام کے کھانوں سے کی گی ۔دلہا دلہن، مہمان، سیاسی شخصیات،وسیع وعریض شامیانے اور برقی قمقموں کی بھرمار ایسا منظر اس اسمبلی کی پر شکوہ عمارت نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا اور تو اور بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی ان وی وی آیی پی مہمانوں کے لیے معتدد سیکورٹی اہلکار بھی تعینات کیے گیے تھے تاکہ کسی بھی قسم کا ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔
جیو ٹی وی کی آنکھ سے یہ تقریب اوجھل نا رہ سکی اور پل بھر میں اسپیکر موصوف کا یہ کارنامہ پورے پاکستان کے سامنے تھا ۔ مہمان تو شادی سے لطف اندوز ہوتے رہے اور عوام یہ ٹی وی دیکھ کر یہ سوچتے رہے کہ اے کاش وہ بھی مفتے میں ایسے ہی شادیاں بھگتا لیا کریں سرکاری مفت کا ہال ، سرکاری پیسوں پر مفت کا کھانا، سرکار کی بجلی پر برقی قمقموں کی جگماگاہٹ اور سرکاری خرچے پر ہی مفت سیکیورٹی مل جایے تو مزہ ہی آجایے ۔
شادی کی تقریب رات گیے تک جاری رہی اور صبح انیس سو بیالس میں بنایی گی سندھ اسمبلی کی تاریخی عمارت مہمانوں کے زردے بریانیوں کے تھال ،استعمال شدہ برتنوں ، ٹشو پیپرز اور چھوڑے ہویے کھانے سے بھری پڑی تھی۔اکہتر سالہ پرانی عمارت جو کہ قومی ورثہ میں شامل ہے اس کو خود اس کے ہی اسپیکر کی طرف سے نقصان پہنچایا جانا قابل مذمت ہے ۔ موصو ف آغاہ سراج درانی اپنے کیے پر شرمندہ نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ گورنر ہاوس اور وزیراعلی ہاوس میں بھی تو شادیاں ہوتی ہیں ارے جی جناب ہوتی ہیں اس لیے کے گورنر اور وزیر اعلی کی رہایش گاہیں جو ان عمارتوں کے اندر ہیں لیکن جناب اسپیکر اسمبلی میں تو کسی کی رہایش گاہ نہیں تو پھر وہاں شادی کی تقریب کیوں ؟
اسپیکر موصوف ڈھٹائی کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے ہیں کہ اسمبلی میں شادی کی تقریب کا انعقاد ان کا قانونی اور آیینی حق ہے اب امکان اس بات کا ہے کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے اور کہیں مستقبل قریب میں ایسا نا ہونے لگے کہ شامیانے قومی اسمبلی کے احاطے میں بھی لگنے لگیں چلو قانون سازی نا سہی شادی خانہ آبادی ہی سہی۔ – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9235#sthash.jpoiG8Uj.dpuf