Posted in Pakistan

تحریک انصاف کی پارلیمنٹ میں واپسی !!

Posted On Tuesday, April 07, 2015   …..جویریہ صدیق…..
پی ٹی آئی نے سات ماہ سے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کررکھا تھا،126دن تک طویل دھرنا دیا ۔ہر روز پارلیمنٹ کے سامنے پارلیمنٹ کو جعلی اور بوگس قرار دیا جاتا رہا،کبھی ایمپائر کی انگلی ، کبھی اوئے اوئےتو کبھی استعفے ، کبھی دھواں دار تقاریر ، تو کبھی سول نافرمانی کی کال تو کبھی الزامات کی بوچھاڑ تو کبھی چار حلقے،تحریک انصاف نے تمام ہی جماعتوں کے قائدین کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔پھر بھی حکومت اور دیگر جماعتیں روٹھے ہوئوں کو منانے میں لگی رہیں اور یہ کفر 6اپریل کو ٹوٹا جب یمن کی صورتحال کے لیے بلائے گئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پی ٹی آئی نے واپس اسمبلی میں آنے کا فیصلہ کرلیا۔خوش و خرم پی ٹی آئی کے ارکان جس وقت اسمبلی میں داخل ہوئے تو ایم کیو ایم ،جمعیت علمائے اسلام ف ، اے این پی اور مسلم لیگ ن کے ارکان نے خوب احتجاج کیا اور یہ سوال اٹھایا کہ تحریک انصاف کے ارکان کس حیثیت میں اسمبلی میں واپس آئے ہیں۔ظاہر سی بات سات ماہ تحریک انصاف نے بھی تو کم نشتر نا برسائے تھے ان سب جماعتوں پر اس ہی لیے اراکین اسمبلی نے موقع اچھا جانا اور اسمبلی ہال’’ گو عمران گو‘‘،پی ٹی آئی یو ٹرن لے کر آئی، معافی مانگو کے نعروں سے گونج اٹھا۔

اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی بار بار درخواست کے بعد کچھ دیر تو ایوان میں خاموشی تو ہوئی لیکن پہلا سیشن یمن کے بجائے پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفوں پر بحث کی نظر ہوگیا۔ ایم کیوایم کے پارلیمانی لیڈر فاروق ستار نے کہا کہ پارلیمنٹ کا آج کا اجلاس غیر قانونی ہے جو رکن چالیس دن تک غیر حاضر رہے وہ مستعفی ہو جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ آرٹیکل کی شق 64 ون اور ٹو واضح ہے اس لیے تحریک انصاف کو واپس آنے کی اجازت دینا غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ایوان کے باہر ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ استعفے تین طلاقوں کی طرح ہے اس لیے نامحرموں کا اسمبلی میں کیا کام۔

اے این پی نے بھی تحریک انصاف کو آڑے ہاتھوں لیا اور سینٹر زاہد خان نے کہا عمران خان کو یہ معلوم ہی نہیں کے وہ کیا کررہے ہیں اب ان کے پاس کیاجواز ہے اس اسمبلی میں آنے کا، جس اسمبلی کو وہ جعلی اور بوگس قرار دے چکے ہیں، تاہم اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے معاملے کو رفع دفع کرواتے ہوئے کہا کہ لڑائی کو لڑائی نہیں بلکہ بات چیت سے ختم کیا جائے۔تحریک انصاف کا واپس پارلیمنٹ آنا خوش آئند ہے۔ جمعیت علمائے اسلام ف کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے بھی خوب پی ٹی آئی کی کلاس لی اور کہا کہ آج پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمنٹ کو ایوان میں اجنبی تصور کیا جائے، آئین کے تحت استعفیٰ دینے والے خود بخود مستعفی ہوجاتے ہیں۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی جب ایوان کا ماحول گرم دیکھا تو وہ بھی یمن کو بھول کر پی ٹی آئی کی کلاس لینے لگے اور کہا اسمبلیوں کو جعلی کہنے والے آج کس منہ کے ساتھ اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا پی ٹی آئی والے شرم کریں اور حیا کریں،تاہم بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا حکومت خود پی ٹی آئی کو ایوان میں لائی ہے تو اب احتجاج کیوں ؟ حکومت کا لہجہ تلخ نہیں ہونا چاہیے۔ اس سب صورتحال کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پارلیمنٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت وزیر دفاع اور ایم کیو ایم کو خوب کھر ی کھری سنائیں اور کہا جوڈیشل کمیشن اصولی موقف تھا اور الیکشن میں دھاندلی ہوئی میں اب بھی اپنے موقف پر قائم ہوں ۔انہوں نے کہا کہ کیا میاں نوازشریف کو پتہ نہیں تھا کہ ان کے وزیر نے کیا بولنا ہے، ان کی موجودگی میں وزیر نے کس طرح کی زبان استعمال کی ایسی زبان تو کوئی تلنگا بھی نہیں استعمال کرتا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کے ہم پارلیمنٹ قومی معاملات پر بات کرنے آئے ہیں جبکہ وزیر دفاع نے ذاتی معاملات کو ترجیح دی۔

تاہم اس تمام کشیدہ صورتحال میں اسپیکر نے صورتحال کو بخوبی سنبھالنے کی کوشش کرتے رہے انہوں نے رولنگ دی کے تحریک انصاف کی پارلیمنٹ واپسی آئین کی خلاف ورزی نہیں آئین کی شق64 کے ساتھ سپریم کورٹ کا آڈر بھی پڑھا جائے۔سپریم کورٹ کے مطابق اسپیکر فیصلہ کرنے کا مجاز ہے کہ کون مستعفی ہورہا ہے اور کون نہیں ۔ ایاز صادق نے مزید کہا کہ تحریک انصاف کی جانب سے کوئی بھی اپنے استعفے کی تصدیق کے لیے نہیں آیا اس لیے استعفے منظور نہیں ہوئےلیکن جاوید ہاشمی اپنے استعفے کی تصدیق خود کرواگئے جو منظور ہوگیا تھا۔

استعفوں کا معاملہ اسمبلی کے فلور اور گیٹ نمبر ون تک محدود نہیں رہا بلکہ ن لیگ کے رہنما سید ظفر علی شاہ نے تحریک انصاف کے ارکان کی پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔ ظفر علی شاہ نے اس درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان سات ماہ قبل استعفا دے چکے ہیں اور آئین کی شق چونسٹھ ون اے اور ٹو اے کے مطابق جو رکن رضا کارانہ طور پر استعفیٰ دے اور چالیس دن مستقل غیر حاضر رہے تو اس کے بعد نشت خالی قرار دے دی جاتی ہے ۔ظفر علی شاہ نے کہا مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ سات مہینے تک بھی اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق ان استعفوں کی تصدیق نا کرسکے حالانکہ استعفے رضاکارانہ طور پر دئیے گئے تھے، یہ بات پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ ان کے مطابق تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی میں بیٹھنے کا آئینی جواز کھو چکے ہیں۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر شعیب رازق نے کہا یہ معاملہ اسپیکر اور ارکان کے درمیان تھا ارکان نے استعفیٰ دیا اور اسپیکر نے قبول نہیں کیا اس لیے اب جوڈیشل کے قیام کے بعد تحریک انصاف کا حق ہے کہ وہ اسمبلی واپس جاسکتے ہیں کیونکہ ان کے استعفے قبول نہیں کئے گئے۔

اگر پہلے ہی پی ٹی آئی جمہوری دائرے سے باہر نا جاتی تو آج پارلیمان واپسی پر مشکل اور خفت کا سامنا نا کرنا پڑتا مسائل کا حل اگر سڑکوں کے بجائے ایوان میں مذاکرات اور قانون سازی کرکے نکالا جاتا توآج ایوان میں اجنبیت کا احساس نا ہوتا ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حالات کس طرف کروٹ لیتے ہیں اور استعفوں کا معاملہ کہاں تک جائے گا اور تحریک انصاف کتنی سنجیدگی کے ساتھ معاملات کو طے کرتی ہے۔گرجنے برسنے سے کچھ حاصل نہیںہوگا، معاملات کا حل صرف افہام و تفیہم سے ہی نکل سکتا ہے۔اب بہت ہوئے پرانے گلے شکوے کچھ مستقبل کی طرف پر بھی پیش قدمی ہو۔   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10782#sthash.B6wH3OpG.dpuf

Posted in Pakistan

پی ٹی آئی کی نرالی سیاست

پی ٹی آئی کی نرالی سیاست !!

  Posted On Monday, January 26, 2015   …..جویریہ صدیق…..
پی ٹی آئی کے انقلاب کے نعرے سے سب سے زیادہ پاکستان کی نی نسل متاثر ہوئی۔ 2013ء کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف نے انقلاب اور تبدیلی کا نعرہ لگایا اور عوام نے قومی اسمبلی میں انہیں تیسری بڑی جماعت بنا ڈالا۔صوبہ خیبر پختون خواہ میں حکومت بھی مل گی ۔پاکستان میں جب بھی عوام اپنے حلقے سے صوبائی یا قومی اسمبلی کا نمائندہ چنتے ہیں تو ان کو امید ہوتی ہے کہ قانون سازی کے ساتھ ساتھ ان کا منتخب کردہ نمائندہ علاقہ مکینوں کے ہر دکھ درد میں شریک ہوگا۔ان کے مسائل سنے گا ،اس کے گھر دفتر کے دروازے ہر وقت شہریوں کے لیے کھلے ہوں گے۔
امید یہ ہی تھی کہ منتخب ارکان اپنے قائد عمران خان کی قیادت میں عوام کی خدمت میں مشغول ہوجائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا،اس جماعت نے جو دھاندلی اور چار حلقوں کا شور ڈالا اس کی گونج اب تک فضائوں میں ہے۔ چلیں ایک پل کو مان لیتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی تو کیا ان نشستوں پر بھی ہوئی جن پرپی ٹی آئی جیت کر آئی اگر نہیں تو کم ازکم انہیں ان ،شفاف ترین سیٹوں ، پر تو کام کرنا چاہیے تھا۔پرایسا نا ہوا ۔۔14 اگست 2014ء سے جو دھرنا شروع ہوا اس میں عوام کو ایک بار پھر نی امید دی گی کہ ہم انقلاب لائیں گے ،سب کچھ تبدیل ہوجائے گا، دھرنے سے کبھی یہ صدا لگتی کے کل انقلاب آرہا تو پرسوں کبھی یوٹیلٹی بل جلا دیے جاتے تو کبھی سول نافرمانی کی مہم شروع ہوجاتی یوں پی ٹی آئی کی ساری قیادت عملی طور پر اسلام آباد میں مصروف رہی اور ان کے حلقے پیچھے یتیم ہوگئے۔پھر تحریک انصاف نے سوائے خیبر پختون خواہ کے تمام اسمبلیوں سے استعفیٰ دے دیا ۔ان استعفوں سے عوام کی وہ امید بھی چلی گی جو انہوں نے نئے چہروں کو منتخب کرکے فرسود نظام کو شکست دینے کے لیے دیکھ رکھی تھی۔
سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کی 4 نشستیں تھیں، لیکن مستعفی ہوکر ان لوگوں کو مایوس کیا جنہوں نے تبدیلی کو ووٹ دیا اور اب ان چاروں ارکان کے استعفے جنوری2015ء میں منظور ہوگئے، جس کے بعد سے تحریک انصاف کی نمائندگی سندھ اسمبلی سے ختم ہوگئی۔ثمر علی خان،حفیظ الرحمان،خرم شاہ زمان اور ڈاکٹر سیما چاروں ہی کراچی سے منتخب ہوئے تھے، یوں کراچی کے جن عوام نے تبدیلی کو ووٹ دیا تھا پی ٹی آئی کی بچگانہ پالیسیوںنے انہیں مایوس کیا۔ ان خالی ہونے والی نشستوں پر ایم کیو ایم اور پی پی نے ضمنی انتخابات کے لیے تیاریاں بھی شروع کردی ہے۔اب کیا پی ٹی آئی بھی ضمنی انتخابات میں حصہ لے گی ؟ اگر فرض کرلیں کہ پارٹی حصہ لیتی ہے یا کسی آزاد امیدوار کی حمایت کرتی ہے تو اب بھی انتخابات کا نظام الیکشن کمیشن تو وہ ہی ہے اب کیسے انہیں یقین ہوگا کہ دھاندلی نہیں ہوگی کیا اس جماعت نے جوکہ تبدیلی کا نعرہ لگاتی ہے شفاف الیکشن اور مضبوط الیکشن کمیشن کے لیے کوئی قانون سازی کی ؟ نہیں انہوں نے تو منتخب ہونے کے بعد سے زیادہ تر وقت سڑکوں پر تبدیلی کو تلاش کرتے ہوئے گزرا ہے۔تبدیلی سڑکوں پر دھرنوں یا نعروں سے نہیں بلکہ کام کرنے سے آتی ہے۔اب جب خالی کی جانے والی نشستوں پر دوبارہ انتخابات ہوں گے اور پی ٹی آئی دوبارہ حصہ لینے کا فیصلہ کرلیتی ہے تو کیا ان حلقوں کے عوام دوبارہ انہیں ووٹ دینے آئیں گے۔جنہوں نے پہلی بار انہیں ووٹ دیا اوریہ ہی ایم این ایز پارٹی کے فیصلے پر اپنی نشستوں سے استعفیٰ دے گئے اور ووٹر پیچھے اکیلے رہ گئے۔
اب اگر پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی سے بھی پی ٹی آئی کے استعفے منظور ہوگئے تو یہ قومی پارٹی سمٹ کر صرف ایک صوبے کی حد تک رہ جائے گی۔قومی اسمبلی میں اس وقت پی ٹی آئی کی 33 نشستیں ہیں اور پنجاب اسمبلی میں 30 نشستیں ہیں، اگر یہ تمام افراد بھی گھر واپس چلے گئے تو عوام کو جواب دہ کون ہے؟ اب تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے کہا کہ ان کی پہلی ترجیح اب خیبر پختون خواہ ہوگا اور ان کی پارٹی سینیٹ الیکشن میں بھی حصہ لے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے پارلیمان کے دو حصے ہیں ایک ایوان بالا ایک ایوان زیریں یعنی سینٹ اور قومی اسمبلی جب آپ کی جماعت قومی اسمبلی میں نہیں بیٹھنا چاہیتی تو وہ پھر سینیٹ میں ایسی کیا کشش ہے جو آپ کی پارٹی کو کھینچے چلی جارہی ہے۔
سینٹ کے52 ارکان گیارہ مارچ کو ریٹائر ہورہے ہیں اور خیبر پختون خواہ سمیت چاروں صوبوں سے گیارہ گیارہ ارکان منتخب ہوں گے اس کے ساتھ ساتھ دو اسلام آباد سے دو ،فاٹا کے چار اور دو اقلیتی ارکان شامل ہوں گے۔ عمران خان کی جماعت صوبہ سندھ صوبہ پنجاب اور قومی اسمبلی سے تو مستعفی ہیں اس لیے ان کی توجہ اب صرف خیبر پختون خواہ پر ہے۔خیبر پختون خواہ میں پندرہ سے سولہ ارکان کے ووٹ سے ایک نشت ملے گی اور تحریک انصاف آرام سے پانچ نشستیں لے جائے گی ۔
لیکن پی ٹی آئی کے ارکان پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی کا کیا قصور ہے ؟ ان سیاستدانوں کا کیا قصور جن کے دل میں عوام کی خدمت کا جذبہ ہے اور وہ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو اسمبلی سے باہر کیا ہوا ہے۔سب سے بڑھ کر ان لوگوں کا کیا قصور ہے جنہوں نے آپ کی پارٹی کو ووٹ دیا ۔عمران خان خود تو خیبر پختون خواہ پر توجہ مرکوز کردیں گے۔ وہاں سے منتخب پی ٹی آئی کے56 ایم این اے اتحادیوں کے ساتھ 2018ء تک مصروف عمل ہوجائیں گے۔پیچھے رہ جائیں گے وہ عوام جنہوں نے ملک بھر سے نمائندے منتخب کرکے قومی اسمبلی میں بھیجے اور جنہوں نے پنجاب سندھ سے تبدیلی کو ووٹ دیا تھا۔
تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس میں کچھ ارکان نے دبے دبے الفاظ میں کہا کہ اگر سینیٹ میں جانا ہے تو پھر اسمبلی میں بھی واپس جایا جائے۔ارکان نے یہ کہا کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔ لیکن عمران خان کے پاس ویٹو پاور ہے اور انہوں نے یہ ہی بات مناسب سمجھی کہ اسمبلی میں نہیں جانا لیکن سینٹ ضرور جانا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پارٹی میں کب تک اتحاد قائم رہے گا اور کب تک سب پارٹی ارکان اپنے چیرمین کی بات کا پاس رکھیں گے ۔جہاں تک بات ہے سینیٹ الیکشن کی اس حوالے سے بھی باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ جن افراد سے پہلے وعدے کیے گئے تھے، اب انہیں بھی ٹکٹ ملتا مشکل نظر آرہا ہے اس حوالے سے بھی پارٹی میں تناو اور کھینچا تانی کی کفیت محسوس کی جارہی ہے۔
پی ٹی آئی کو ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے اب دھرنے، احتجاج ، طعنوں اور الزامات کی سیاست سے نکل کر عوام کی خدمت کرنی ہوگی مہنگائی ، لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کے ستائے ہوئے عوام کے لیے فیس بک یا ٹویٹر کے اسٹیٹس یا ٹرینڈ سیٹ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا عوام کے آگے آپ جب سرخرو ہوں گے جب آپ عملی طور پر عوام کی خدمت کریں گے ۔جن افراد نے ووٹ دیے ہیں بہت دن تک وہ صرف نعروں پر اکتفا نہیں کریں گے انہیں اپنے اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام بھی چاہئیں۔سینٹ کو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی پر فوقیت دینا عوام کے ووٹوں کی توہین کرنا اور63 سیاستدانوں کو واپس گھر بٹھا دینا کہیں تحریک انصاف کی سیاسی خود کشی نا ثابت ہو ۔
Javeria Siddique writes for Jang
Twitter @javerias     – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10624#sthash.x626fiOI.dpuf

Posted in ArmyPublicSchool, Pakistan

پشاور کے بچوں کے لہو پر سیاست

  Posted On Thursday, January 15, 2015   …..جویریہ صدیق…….
کسی بھی انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کے بچے ہوتے ہیں۔ماں اپنی کوکھ میں نو ماہ رکھ کر بچے کو پیدا کرتی ہے تو ورثا بچے کی آمد پر پھولے نہیں سماتے ۔ بچے کے ناز نخرے اس کی کلکاریاں اس کی شرارتیں بس خاندان بھر کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔اگر بچہ کو ہلکی سی بھی چوٹ لگ جایے یا معمولی سی بیماری آجایے تو ماں کے دل پر جو قیامت بیتی ہے اس کا حال صرف ماں ہی بیان کرسکتی ہے۔باپ بھی اتنی ہی شفقت بچے کو دیتا ہے جتنی ماں بچے کو محبت دیتی ہے۔دونوں کی کوشش ہوتی ہے بچے کو ایک ہلکی سی خراش بھی نا پہنچے۔
آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچے بھی اپنے والدین کی آنکھوں کا تارہ تھے ان کے دل کا قرار اور زندگی کا کل اثاثہ ۔موت طالبان کی صورت میں آئی اور بچوں کے ساتھ وہ حیوانیت برتی گی کہ ظلم و بربریت کی ایسی مثال پہلے ملتی ہی نہیں۔مائوں نے اپنے جیتےجاگتے شہزادے سکول بھیجے تھے جب واپس ملے تو کسی کے چہرے پر گولیاں تھیں کسی کا گلا کاٹ دیا گیا تھا کسی پھول کا جسم گولیوں سے چھلنی ملا تو کسی تو جلا دیا گیا تھا۔پشاور کی مائیں روتی رہیں چیختی رہیں لیکن ان کے ہنستے کھیلتے بچے تابوتوں میں بے جان پڑے تھے۔مائیں ان کا نام لیتی رہی ان کو اٹھنے کا کہتی رہیں لیکن جنت کے پھول تو واپس جنت جا چکے تھے۔
اس سانحے کے بعد امید تھی کی سیاسی قیادت ایک ہوجائے لیکن ایسا نا ہوا کچھ دن سوگ کا لبادہ اوڑھے رکھنے کی بیکار کوشش کے بعد وہ ہی آپس کے الزامات،طعنے،لڑائی کی سیاست کا آغاز کردیاگیا۔اس دوران لواحقین کو یکسر فراموش کردیا۔پہلے ایک دو دن تو فوٹو شوٹ کے لیے مرکزی اور صوبائی حکومتی ارکان کے وزٹ ہوتے رہے اس کے بعد وہ ہی دھاندلی دھاندلی کا واویلا شروع ہوگیا۔پھر انقلابی لیڈر کی شادی آگئی۔لواحقین اگر یاد رہے تو صرف آرمی کو لواحقین کے مطابق ٰصرف آرمی کے نمائندے ہماری دلجوئی کرنے آئے۔انہیں گلہ ہے اس بات کا جب سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیے وہ کیوں نا آئے۔
12 تاریخ سے آرمی پبلک سکو ل اور ملک کے تمام سکولوں میں تدریس کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ۔تمام پاکستان کو اس وقت خوش گوار حیرت ہوئی جب بچوں کو پاکستان کے آرمی چیف راحیل شریف نے خود جا کر ریسو کیا۔اپنی اہلیہ کے ساتھ بچوں کی اسمبلی میں شرکت کی۔ سب بچوں سے ملے ان کا حوصلہ بڑھایا۔لواحقین منتظر رہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کب آئیں گے، تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کب آئیں گے، پی پی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری کب آئیں گے لیکن کوئی نا آیا۔جب میڈیا پر بہت شور مچ گیا۔تو عمران خان جن کی پارٹی کی خیبر پختون خواہ میں حکومت ہے یہ کہا کہ ہمیں منع کیا گیا تھا کہ پہلے دن آرمی کا فنکشن ہے آپ مت آئیں۔مسلم لیگ ن نے تو وضاحت دینا بھی ضروری نا سمجھا یہ ہی حال پی پی پی کا ہے۔
14 جنوری کو تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان اکیس گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ آرمی پبلک سکول پہنچے۔ان کی آمد پر سیکورٹی پر مامور پولیس نے شہدائے سانحہ پشاور کے لواحقین سے بدتمیزی کی ، انہیں دھکے دئیے اور برا بھلا کہا۔شہدائے پشاور کے نیم زندہ والدین اس بات پر احتجاج کرنے لگے اور گو عمران گو کے نعرے لگائے۔اسفند یار شہید کی والدہ دہائی دیتی رہیں کہ یہ سیاستدان کیسے ہمارے ساتھ ہیں ؟ ہم تڑپ رہے ہیں یہ شادی کررہے تھے یہ صرف باتیں کرتے ہیں ہمارے لیے تبدیلی کی لیکن اصل میں ان کے یہاں آنے کامقصد صرف فوٹو شوٹ تھا۔احسان شہید کی والدہ بھی روتی رہیں اور کہتی رہیں عمران خان ، نواز شریف، آصف علی زرداری ہمارے دو دو بیٹے چلے گئے اور آپ سب کو احساس ہی نہیں۔
آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں کی مائیں دہائیاں دیتی رہیں، روتی رہیں اور پشاور پولیس پروٹوکول کے نام پر ان کو دھکے دیتی رہی، خیبر پختون خواہ حکومت کے نمائندے انہیں برا بھلا کہتے رہے۔مائیں یہ پوچھتی رہیں کہ ہمارے بچوں کا چالیسواں بھی نہیں ہوا اور یہ سیاستدان خوشی کے شادیانے بجاتے رہے۔16 دسمبر کے بعد سے ہمیں تنہا چھوڑا ہوا ہے ۔اب ہمارے بچوں کی لاشوں پر سیاست کر رہے ہیں اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے آئے ہیں اور کچھ نہیں ان کا مقصد۔
عمران خان کے خلاف احتجاج پر صوبائی وزیر خیبر پختون خواہ مشتاق غنی نے یہ الزام عائد کردیا کہ احتجاج کرنے والے پلانٹڈ تھے اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہا کہ والدین نے احتجاج کیوں کیا ؟ اسکول آرمی کا ہے،صوبہ کے چیف پرویز خٹک ہیں تو میری آمد پر احتجاج کیوں ؟انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگ مجھے بھی والدین نہیں لگے اس کے بعد انہوں نے پھر چار حلقے اور دھاندلی کی گردان شروع کردی۔
عابد رضا بنگش جن کے اپنے بیٹے رفیق بنگش نے آرمی بپلک سکول میں شہادت پائی اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ خیبر پختون خواہ کی حکومت نے انہیں یکسر فراموش کردیا ہے اور اب اوپر سے یہ بھی الزام عائد کیا جارہا ہے کہ احتجاج کرنے والے والدین نقلی تھے،ان کے مطابق اگر یہ بات ثابت ہوگی تو وہ شہدا فورم کو ختم کردیں گے۔
آج جو بھی ہوا بہت افسوس ناک ہے شہید ہونے والے پھولوں کی لاشوں پر سیاست کی کوشش،بچوں کے لواحقین کو نقلی کہنا ان کو پولیس کے ہاتھوں سے ذلیل کروانا ہمارے سیاست دان کہاں جا رہے ہیں ۔نیم مردہ والدین جن کی زندگی تو قبر میں دفن ہوگی، ان والدین پر تشدد کرنے کا کیا جوازہے جن کے بچے چلے گئے ،کیا وہ خیبر پختون خوانئےپاکستان میں احتجاج بھی نہیں کرسکتےِ ؟کیا ہمارے سیاستدانوں اور انتظامیہ میں سے انسانیت ختم ہوگی ہے ؟ آج کے واقعے کے بعد آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں کے والدین نے مطالبہ کیا کہ ان پر تشدد کرنے والے ایس ایس پی آپریشن اور ڈپٹی کمشنر کو فوری طور پر معطل کیا جائے اور صوبائی حکومت میں ذمہ دار افراد مستعفی ہوں۔
سیاست دانوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ کہ سیاست برائے سیاست سے کہیں وہ عوام میں اپنی مقبولیت کھو نا دیں۔ کھوکھلے وعدے اور نعرے انقلاب بہت عرصہ تک عوام کو دلاسا نہیں دے سکتے۔اگر عوام کے لیے کچھ کرنا ہی ہےتو تمام سیاست دان سیاست برائے خدمت کریں۔عوام کے مفاد میں سیاست کی جائے اپنی ذاتی چپقلش اور عناد کو ایک طرف رکھ تمام سیاستدانوں کو دہشت گردی کے ستائے عوام کی داد رسی کے لیے فوری اقدام کرنا ہوں گے،ورنہ پاکستان کی آئندہ نسلوں کے سامنے یہ سر اٹھا کر نہیں چل سکیں گے۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang
Contact at https://twitter.com/#!/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10579#sthash.POoZxwGG.dpuf

Posted in Pakistan

آزادی انقلاب مارچ اور صحافی

آزادی انقلاب مارچ اور صحافی

Posted On Wednesday, September 03, 2014   …….جویریہ صدیق…….پاکستان میں صحافیوں کے لیےحالات سازگار کبھی نہیں رہے لیکن پاکستانی صحافیوں نے حالات کا مقابلہ ہمیشہ جوانمردی سے کیا۔ کبھی دہشت گردوں تو کبھی سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ کا سامنا کیا تو کبھی خفیہ ہاتھ ان کے کام میں روڑے اٹکاتے رہے لیکن پھر بھی صحافی دن رات محنت کرکے سچ اور حقایق عوام کے سامنے لا تے رہے۔پاکستان میں اب تک 75صحافی اور 6میڈیا ورکرز فرایض کی ادائیگی کے دوران اپنے جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ان میں سے 60فیصد صحافی سیاسی جماعتیں کور کیا کرتے تھے، باقی ہیومین رایٹس، کرپشن، کرائم اور وار رپورٹ کیا کرتے تھے۔ صحافیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آزادی اور انقلاب مارچ کا اعلان کیا۔ آغاز سے ہی رپورٹرز نے پل پل کی خبر ناظرین تک پہنچائی لیکن پھر بھی دوران مارچ کارکنان نے میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں کا آغاز کردیا۔ سب سے پہلے تحریک انصاف کے کارکنان نے آبپارہ میں جیو کی ڈی ایس این جی وین پر حملہ کیا اور خاتون صحافی سمیت عملے کو ہراساں کیا اور دو گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا۔ عمران خان کے تندوتیز جملوں نے جلتی پر تیل ڈالا اور اگلے ہی دن دو اور جیو نیوز کے سینئر صحافی تحریک انصاف کے کارکنوں کے عتاب کا نشانہ بننے اور جیو کے کیمرہ مین کو زدوکوب کرکے اس کا کیمرہ توڑ دیا گیا۔ با ت صرف یہاں تک ختم نہیں ہوئی 22اگست کو ڈی چوک میں پھر جیو نیوز کی ٹیم کو کوریج کے دوران نشانہ بنایا گیا اور ڈی ایس این جی کے سسٹم کو زبردستی بند کروادیا۔ اس کےساتھ ساتھ دو بار جیو اور جنگ کے دفاتر پر پتھراؤ کیا گیا جس سے بلڈنگ کے بیشتر شیشے ٹوٹ اور عملے کو ہراساں کیاگیا۔ جیو اور جنگ گروپ کی جانب سے پر امن رہنے کی معتدد اپیلیں کی گیئں تاہم تحریک انصاف کے کارکنان اشتعال انگیری سے باز نہیں آئے۔

دوسری طرف ہفتے کو ڈی چوک میں پولیس نے میڈیا کوریج کے لیے موجود صحافیوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 7نجی چینلز کے 6رپورٹرز، 18کیمرہ مین اور 4میڈیا ورکرز زخمی ہوئے۔ ان کو زدوکوب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مائیک اور کیمرے بھی توڑ دئیے گئے۔ دونوں ہی واقعات میں اعلیٰ حکام اور سیاسی قیادت کی طرف سے زبانی مذمت تو آگئی لیکن نقصان کا ازالہ یا مدد نہیں فراہم کی گئی۔ پی ایف یوجے کے صدرافضل بٹ نے اس صورتحال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ملک بھر میں صحافتی تنظیموں کی طرف سے پر امن احتجاج کی کال دی ہے، ان کے مطابق صحافیوں پر حملے افسوس ناک ہیں لیکن صحافیوں کو بھی چاہیے کہ وہ غیر جانبدار ہوکر رپورٹنگ کریں اور سنسنی پھیلانے سے گریز کریں۔ آزادی اور انقلابی مارچ میں جہاں پرایویٹ میڈیا تو نشانہ بنا ہی وہاں پر سرکاری ٹی وی پی ٹی وی کو بھی نہیں بخشا گیا۔ شاہراہ دستور سے صرف چند منٹ کے فاصلے پر پی ٹی وی کی عمارت واقع ہے، پیر کی صبح تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے سینکڑوں کارکنان نے پی ٹی وی کی عمارت پر حملہ کیا اور اس پر قابض ہوگئے۔ مسلح کارکنان نے ٹی وی کے کنٹرول روم پر قبضہ کرکے پی ٹی وی کی نشریات بند کروادی۔ بعد میں پاک فوج کے افسران اور جوان جوکہ اس وقت ریڈ زون کی سیکورٹی پر مامور ہیں، ان کی مداخلت پر مظاہرین نے عمارت خالی کر دیاس کے بعد مظاہرین نے اپنی توپوں کا رخ پر جیو کی طرف کردیا اور جیو نیوز کے رپورٹرز کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ ڈی ایس این جی پر ڈنڈے برساتے رہے۔ اس ساری صورتحال پر صحافیوں کی عالمی تنظیم آئی ایف جے نے کہا ہے کہ پاکستان میں جاری مارچ میں صحافیوں پر پہ در پہ حملوں نے میڈیا کے لیے حالات کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ پولیس کا کام صحافیوں کی حفاظت کرنا ہے، ان پر تشدد کرے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ آئی ایف جے کے ڈائریکٹر جین ورتھنگٹن نے کہا ہے کہ پاکستانی صحافی بہت مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔ صحافیوں پر حملے قابل مذمت ہیں حکومت اور سیاسی جماعتیں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ اختلاف جمہوریت کا حسن ہے اس لیے دیگر طبقہ فکر کے مؤقف کا احترام کریں اور چینلز کو آزادی کے ساتھ سب کا مؤقف بیان کرنے دیں۔ ان کے مطابق سیاسی جماعتیں آزادیٔ رائے پر قدغن نہ لگائیں۔ پی ٹی وی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ نے کہا کہ سیاسی کارکنان کے طرف سے سرکاری ٹی وی پر حملہ افسوس ناک ہے، اس معاملے فوری طور پر چھان بین کی جائے اور صحافی بنا حفاظتی اقدامات کے کوریج سے گریز کریں یا فاصلہ رکھ کر کوریج کریں۔ آئی ایف جے نے پاکستانی صحافیوں کے لیے حفاظتی ہدایت نامہ جاری کیا جو اس وقت آزادی اور انقلابی مارچ کور کررہیں۔اس کے مطابق صحافی مکمل پلان کے ساتھ کوریج کے لیے جائیں، کوشش کریں کہ اپنی ٹیم کے ساتھ رہیں۔ موبائل فون چارج کرکے لے کر جائیں فرسٹ ایڈ کٹ ساتھ رکھیں، آنسو گیس سے بچنے کے لیے ماسک اور چشمے ساتھ رکھیں۔ شوخ لباس پہننے سے گریز کریں، کھلے کپڑے پہنیں اور آرام دہ جوتے پہن کر جائیں۔بالکل چھوٹا سا بیگ لے کر جائیں جس میں پانی اور کھانے کی اشیاء ہوں۔ کوریج کے مقام پر پہنچ کر اپنے آفس کےشناختی کارڈ چھپا کر رکھیں، اگر ہجوم مشتعل ہے تو لوگوں بھی استعمال نہ کریں۔ لوگوں سے فاصلہ رکھیں اور کسی کا انٹرویو لینا مقصود ہو تو اس شخص کو ہجوم سے الگ لے جا کر بات کریں۔اگر مارچ کور کرتے ہوئے ہنگامے شروع ہوجائیں تو فوری طور پر بھاگ کر اس جگہ سے دور ہو جائیں،ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹ ہرگز نہ اتاریں۔مظاہرین سے مکمل دور رہیں، ان کی کسی اشیاء کو ہاتھ نہیں لگائیں۔ اگر پولیس آنسو گیس کا استعمال کرے تو پانی سے منہ پر چھڑکاؤ کریں اور فوری طور پر اپنی عینک اور ماسک پہن لیں۔ اگر ربڑ کی گولیاں فائر ہوں تو فوری طور پر کسی چیز کی آڑ لے لیں۔ آئی ایف جے کے مطابق صحافی ہیلمٹ، آیئ شیلڈ، بلٹ پروف جیکٹ لازمی طور پر استعمال کریں۔ کوریج کے دوران پولیس اور دھرنے کے شرکاء سے نرمی سے بات کریں، سیکورٹی حکام سے مکمل تعاون کریں، ان کو فوراً اپنا آفس کارڈ دکھائیں۔اگر ڈی ایس این جی میں یا آفس کی کار سے کوریج کررہے ہیں تو گاڑی کے دروازے بند رکھیں۔ کیمرہ مین کوشش کریں کہ وہ کسی بلندی سے عکس بندی کریںاور ہجوم سے اجتناب کریں۔

اب چینلز انتظامیہ پر فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے کارکنان کو مکمل حفاظتی اقدامات کہ ساتھ دھرنے اور دیگر اساینمنٹس پر بھجوائیں۔ اس کے ساتھ حکومت انتظامیہ اور سیاسی جماعتیں بھی اپنے لوگوں کو پابند کریں کہ وہ میڈیا کو ان کا کام آزادی کے ساتھ کرنے دیں۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10150#sthash.TiHz0MTA.dpuf

Posted in Uncategorized

سول نافرمانی اور سوشل میڈیا

Monday, August 18, 2014   ……جویریہ صدیق……
عمران خان کا آزادی مارچ تو اسلام آباد پہنچ گیا لیکن یہ بات عیاں ہے کہ پی ٹی آئی نے اس حوالے سے خاص تیاری نہیں کی تھی۔ انتظامات کے ساتھ ساتھ ویژن کا بھی فقدان نظر آرہا ہے۔عوام توسارا دن پنڈال میں بغیر انتظامات کے لیڈر کے انتظار میں رہتے ہیں لیکن عمران خان جب نیند پوری کرکے بنی گالہ سے واپس دھرنے کے مقام پر آتے ہیں تو اس وقت دن ڈھل چکا ہوتاہے۔ موسیقی کے تڑکے ساتھ پر جوش و ولولے سے بھر پور تقاریر کا آغاز ہوتا ہے جو کہ رات گئے تک جاری رہتا ہے تاکہ کارکنان کا مورال اپ کروایا جاسکے۔دو دن سے جاری تقاریر کا حاصل وصول تو کچھ نہیں لیکن 17اگست کو عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کرکے پورے پاکستان کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ عمران خان نے کہا کہ نہ وہ اب ٹیکس دیں گے نہ ہی بجلی اور گیس کے بل جمع کروائیں گے۔ انہوں کہا کہ سب پاکستانی میرا ساتھ دیں اور ہم سب مل کر میاں نواز شریف کو وزیر اعظم ہاؤس سے گریبان پکڑ کر نکال دیں۔عمران خان نے حکومت کو دو دن کا وقت دیتے ہوئے مزید کہا کہ اگر حکومت مستعفی نہ ہوئی تو وہ اپنے کارکنوںکو مزید روک نہیں سکیں گے۔
اس بیان کے سامنے آتے ہی ملک بھر میں بحث چھڑ گی اور مختلف حلقے اس غیر سنجیدہ بیان کو ملک اور قوم کے ساتھ مذاق گردانتے رہے۔ سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ جمہوریت کسی سول نافرمانی کی تحریک متحمل نہیں ہوسکتی۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا کہ سول نافرمانی گڈے گڑیا کا کھیل نہیں، عمران خان کا سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان قوم کے ساتھ مذاق ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ سول نافرمانی کا اعلان غیر آئینی ہے اور مظاہروں اور دھرنوں سے ملکی معیشت کو بھاری نقصان پہنچ رہا ہے۔ وفاقی وزیر دفاع اور پانی وبجلی خوآجہ آصف نے کہا کہ جو بجلی کا بل دے گا اس کو ہی بجلی ملے گی۔ اے این پی کے اسفند یار ولی نے کہا کہ اگر جمہوریت پٹری سے اتری تو ذمہ دار عمران خان اور طاہر القادری ہوں گے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے صورتحال پر کچھ یوں تبصرہ کیا کہ کسی صورت میں جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے، ہمیں حالیہ بحران کا مل کر حل نکالنا ہوگا۔ عمران خان کے بیان کے ردعمل میں اعتزاز احسن نے کہا کہ عمران خان اور طاہر القادری عوام کو استعمال کررہے ہیں، ان کو دھرنوں سے ناکامی ملی۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے عمران خان کو خوب آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو سول نافرمانی کا مشورہ کس نے دیا؟سول نافرمانی حکومت سے زیادہ ریاست کے خلاف ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی بحث گرم رہی اور سول ڈ س اوبیڈینس یعنی سول نا فرمانی کا ٹرینڈ سب سے اوپر رہا۔ مریم نواز شریف نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ سول نافرمانی گاندھی جی کے پرچار کا حصہ تھی قائد اعظم نے کبھی سول نافرمانی کی بات نہیں کی، دوسرے ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ عمران خان کچھ آرام کرلیں کیونکہ آپ جتنا بولتے ہیں ویسے ویسے آپ کے نظریات عیاں ہورہے ہیں۔ صحافی مشتاق منہاس نے کہا کہ عمران خان اور گلو بٹ کی ذہنیت میں کوئی خاص فرق نہیں، دونوں ہی شعوری طور پر لاقانونیت کا پر چار کررہے ہیں۔ اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے کہا کہ بیشتر پاکستانی تو پہلے بھی بل اور ٹیکس نہیں دیتے۔ صحافی انصار عباسی نے کہا کہ اب بجلی اور گیس چوروں کے مزے ہوجائیںگے ،عمران خان بھی گلو بٹ کے نظریے پر عمل پیراہیں۔ لاہور کے ڈاکٹر فیصل نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ جب عمران خان کے دائیں بائیں شیخ رشید اور جمشید دستی ہوں گے تو حالات ایسے ہی ہوں گے۔ صحافی اور شاعر فاضل جمیلی نے ٹویٹ کیا کہ دو دن کے بعد عوام اور نواز شریف جانیں عمران خان تو بنی گالا محل میں جا کر سو جائیں گے۔ندا یوسف زئی نے اس کو عمران خان کی سیاسی خود کشی قرار دیا۔ نورالعین حسن نے کہا کہ عوام کی تمام نافرمانیاں اب پی ٹی آئی کے کھاتے میں جائیں گی۔ مبشر اکرام نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ آج عمران خان کے سول نافرمانی کے بیان کے بعد ان کی تمام امیدیں عمران خان سے ختم ہوگئی ہیں۔ شہزادی توصیف نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ عمران خان کی تقریر صرف ایک مذاق ہے۔ ارمغان احمد نے کہا کہ اگر عوام نے ٹیکس دینا چھوڑ دیا تو بے دخل افراد کی بحالی اور دہشت گردی کا خاتمہ کیسے ممکن ہوگا۔
کچھ لوگ سول نافرمانی کو ازراہِ مذاق لیتے رہے اور مزاحیہ ٹویٹ کیے، محمد طاہر اکبر نے کہا کہ میں فیس بک اور ٹویٹر استعمال نہیں کروں گا کیونکہ انٹرنیٹ بلز پر جی ایس ٹی ہے۔ احسن عباس رضوی نے کہا کہ ہماری حکومت سول نافرمانی والوں کی بجلی کاٹ دیں اور باقی پاکستان کی بجلی پوری ہوجائے گی۔ انالحق نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ اگر گاندھی جی زندہ ہوتے تو عمران خان کی تجویز پر اپنا عدم تشدد کا فلسفہ بھول کر تشدد پر اتر آتے۔ مریم مصطفیٰ نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ سول نا فرمانی کے بعد سے ملک میں کارخانے بجلی اور گیس سے نہیں عمران خان کے جنون سے چلیں گے۔ رافیہ زکریا نے کہا کہ سول نافرمانی کے بعد کوئی ٹریفک اشاروں پر نہیں رکے گا۔ انعم حمید نے کہا کہ کیا اب ا سکول کالجز کی فیس معاف ہوگی۔ وقاص حبیب نے کہا کہ وہ چائے پینے جارہے ہیں اور بل ول نہیں دیں گے تاہم تھوڑی دیر بعد ٹویٹ کیا کہ شاید کل سے سول نافرمانی شروع ہوگی، وہ بل دے کر ہی چائے پی کر آئے ہیں ۔

Javeria Siddique works for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias

javeria.siddique@janggroup.com.pk   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10070#sthash.WUIN5O7n.dpuf

Posted in Uncategorized

انقلابی مون سون

, August 26, 2014   ………جویریہ صدیق………اگست میں انقلابی مارچ کے مون سون نے بہت سےپاکستانیوں کو سیاسی بخار میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس وقت واضح طور پاکستانی تین حصوں میں بٹ گےہیں۔ ایک ہی گھر میں درمیانی عمر کے افراد مسلم لیگ ن کے حامی یعنی حکومت کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے، اس ہی گھر کے نوجوان انقلاب کے لے پر جوش پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے ساتھ کھڑے اور تیسرا طبقہ وہ ہے جو ان دونوں کو یہ سمجھانے میں لگا ہوا ہے کہ پاکستان کسی نئے تجربے کا متحمل نہیں ہوسکتا، سب کی ترجیحات ملک کی ترقی پرمرکوز ہونی چاہیئے ذاتیات پر نہیں۔

موجودہ حالات میں بیشتر پاکستانی ٹی وی کے آگے بیٹھے رہتے ہیں اور دن رات تجزیئے سننے کے بعد خود بھی کافی حد تک مفکر بن گئے۔ جیسے ہی بریکنگ نیوز ٹی وی پر چلتی ہے پاکستانی عوام فوری طور پر فیس بک اور ٹویٹر پر اپنی آرا کا برملا اظہار کرنے لگ جاتے ہیں۔ سب اپنے اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہیں اور اگر کوئی ان سے اختلاف کی جرأت کرے تو اس کو چھٹی کا دودھ یاد دلادیتے ہیں۔ 13دن ہوگئے اسلام آباد میں تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان دھرنا دیئے بیٹھے ہیں، ہر روز ان دونوں پارٹیوں کی طرف سے نئے مطالبات سامنے آجاتے ہیں۔ پرجوش اور جذباتی تقاریر کارکنان کا جوش گرمانے کے لیے کی جاتی ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کبھی وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہیں، کبھی الیکشن کمیشن پر جانبداری کا الزام لگاتے ہیں تو کبھی توپوں کا رخ جیو جنگ گروپ کی طرف کردیتے ہیں اور جس دن کہنے کو کچھ نہ ہو تو اپنی شادی کا شوشہ چھوڑ کر پورے پاکستان کو ہی حیران کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے کبھی حکومت کی بر طرفی کا مطالبہ کیا تو کبھی اسمبلیاں توڑنے کا مطالبہ اور اس دن تو حد ہوگی کہ جس دن کارکنان کو قومی اسمبلی پر قابض ہونے کا کہہ دیا اور کہا کہ یہاں پارلیمنٹ میں شہدا کا قبرستان بنے گا بعد میں خیر وہ اس مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے، کل وہ کفن لیے آئے جس سے عوامی کارکنان کی بڑی تعداد کی آنکھوں سے آنسو چھلک گئے۔ یہ خطابات کا سلسلہ 13دن سے جاری ہے، عوام سڑکوں پر موجود ہیں اور انقلابی اس کو اپنی اخلاقی فتح قراد دے رہے ہیں۔ انقلاب کے خواہاں پاکستانیوں کے مطابق مسلم لیگ ن کی حکومت بری طرح ناکام ہوچکی ہے اس لیے ان کو مستعفی ہوکر گھر واپس جانا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ملک میں دمادم مست قلندر ہوگا۔ اب یہ دم مست قلندر کیا ہوتا ہے سیانے کہتے ہیں کہ رات گئے شاہراہِ دستور پر موسیقی کی دھن پر دم مست قلندر ہی ہوتا ہے خیر لیکن اس سے انقلاب تو آنے رہا۔

دوسری طرف ایک طبقہ حکومت کو سپورٹ کر رہا ہے ان کے مطابق جمہوریت کا تسلسل ملک میں بر قرار رہنا چاہیے اس لیے 2018سے پہلے انتخابات کا خواب نہ ہی دیکھا جائے۔ مسلم لیگ کے حامیوں کے مطابق حکومت نے مظاہرین کو بہت حد تک فری ہینڈ دے رکھا ہے اس لیے اس آزادی کا ناجائز فائدہ نا اٹھایا جائے۔ وزیر اعظم بھی یہ خود کہہ چکے ہیں کہ ٹانگیں نہ کھینچی جائیں اور ہمیں کام کرنے دینا چاہئے۔ جی میاں صاحب اگر آپ چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ سنجیدگی سے لے لیتے اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلتے تو آج یہ حالات ہی نہیں ہوتے۔

خیرآج کل خوب انقلاب کے حامیوں اور حکومت کے حامیوں میں گرما گرم بحث جاری ہے۔گھر ہو سوشل میڈیا، دفاتر ہو یا تفریح گاہیں، یہ دنوں ہر دم بس ایک دوسرے سے لڑنے کو تیار اور اکثر اوقات اس طرح کی سیاسی بحث کا اختتام دوستی کے اختتام کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ اس ساری صورتحال پر پاکستانی غیرجانبدارسنجیدہ طبقہ بہت سے فکرات کا شکار ہے کیونکہ اگر عوامی سطح پر ہم برداشت اور تحمل سے ایک دوسرے کا مؤقف سننے سے گریزاں ہیں تو ہمارے لیڈران سے پھر ہم آپس میں تحمل مزاجی یا مذاکرات کی امید کیوں رکھتے ہیں۔ اس طبقے کے مطابق اب اس تمام سیاسی بحران کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ملک میں انتشار کی کیفیت پھیل گی اور معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔اب لیڈران کو اپنی اپنی انا اور ذاتی عناد کو ایک طرف رکھتے ہوئے ملکی مفاد میں فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ان دھرنوں کو ختم کیا جائے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج کی جائے۔ اپوزیشن اور حکومت با مقصد مذاکرات کرے اور الیکشن کمیشن میں اصلاحات کے لیے ممبران اسمبلی سفارشات مرتب کریں۔

کب آئے گا، انقلاب اور کب ملے گی، آزادی اس کا انتظار تو سب کو ہے لیکن یہ انقلابی مون سون بادلوں سے تو برسنے سے رہا، اس کے لیے ہم سب کو محنت کرنی ہو گی لیکن قوانین اور جمہوریت کے دائرہ کار میں رہ کر۔اس وقت مہنگائی، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی عوام کا بڑا مسئلہ ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے 9لاکھ حکومت اور عوام کی توجہ کے زیادہ مستحق ہیں۔ اس لیے اب سب مل کر سوچنا ہوگا کہ سب کے اپنے اپنے تجزیے تبصرے مفادات زیادہ اہم ہیں یا پاکستان۔ لیڈران کی انا 9لاکھ آئی ڈی پیز سے بڑھ کر تو نہیں اس لیے سیاسی اختلافات کو ختم کرکے فوری طور پر تکلیف میں مبتلا ہم وطنوں کے درد کا مداوا ضروری ہے۔ دنیا ہماری سیاسی ناپختگی کا مذاق اڑا رہی ہے اس لیے ہمیں سیاسی مسائل کو حل کرکے فوری طور پر بین الاقوامی حالات کے مطابق اپنی سفارتی تعلقات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔نہ ہمیں نیا پاکستان چاہیے نہ ہی روشن پاکستان ہمیں صرف قائد اعظم کا پاکستان چاہیے جس میں اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کا تصور موجود ہے۔ بہت ہوا بس اب اس انقلابی بخار کو اتار پھینکنا ہوگا اس میں ہی پاکستان کی بقا ہے۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias

javeria.siddique@janggroup.com.pk   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10110#sthash.j9m4eDGf.dpuf

Posted in Uncategorized

آزادی انقلاب مارچ اور صحافی

September 03, 2014   …….جویریہ صدیق…….پاکستان میں صحافیوں کے لیےحالات سازگار کبھی نہیں رہے لیکن پاکستانی صحافیوں نے حالات کا مقابلہ ہمیشہ جوانمردی سے کیا۔ کبھی دہشت گردوں تو کبھی سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ کا سامنا کیا تو کبھی خفیہ ہاتھ ان کے کام میں روڑے اٹکاتے رہے لیکن پھر بھی صحافی دن رات محنت کرکے سچ اور حقایق عوام کے سامنے لا تے رہے۔پاکستان میں اب تک 75صحافی اور 6میڈیا ورکرز فرایض کی ادائیگی کے دوران اپنے جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ان میں سے 60فیصد صحافی سیاسی جماعتیں کور کیا کرتے تھے، باقی ہیومین رایٹس، کرپشن، کرائم اور وار رپورٹ کیا کرتے تھے۔ صحافیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آزادی اور انقلاب مارچ کا اعلان کیا۔ آغاز سے ہی رپورٹرز نے پل پل کی خبر ناظرین تک پہنچائی لیکن پھر بھی دوران مارچ کارکنان نے میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں کا آغاز کردیا۔ سب سے پہلے تحریک انصاف کے کارکنان نے آبپارہ میں جیو کی ڈی ایس این جی وین پر حملہ کیا اور خاتون صحافی سمیت عملے کو ہراساں کیا اور دو گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا۔ عمران خان کے تندوتیز جملوں نے جلتی پر تیل ڈالا اور اگلے ہی دن دو اور جیو نیوز کے سینئر صحافی تحریک انصاف کے کارکنوں کے عتاب کا نشانہ بننے اور جیو کے کیمرہ مین کو زدوکوب کرکے اس کا کیمرہ توڑ دیا گیا۔ با ت صرف یہاں تک ختم نہیں ہوئی 22اگست کو ڈی چوک میں پھر جیو نیوز کی ٹیم کو کوریج کے دوران نشانہ بنایا گیا اور ڈی ایس این جی کے سسٹم کو زبردستی بند کروادیا۔ اس کےساتھ ساتھ دو بار جیو اور جنگ کے دفاتر پر پتھراؤ کیا گیا جس سے بلڈنگ کے بیشتر شیشے ٹوٹ اور عملے کو ہراساں کیاگیا۔ جیو اور جنگ گروپ کی جانب سے پر امن رہنے کی معتدد اپیلیں کی گیئں تاہم تحریک انصاف کے کارکنان اشتعال انگیری سے باز نہیں آئے۔

دوسری طرف ہفتے کو ڈی چوک میں پولیس نے میڈیا کوریج کے لیے موجود صحافیوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 7نجی چینلز کے 6رپورٹرز، 18کیمرہ مین اور 4میڈیا ورکرز زخمی ہوئے۔ ان کو زدوکوب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مائیک اور کیمرے بھی توڑ دئیے گئے۔ دونوں ہی واقعات میں اعلیٰ حکام اور سیاسی قیادت کی طرف سے زبانی مذمت تو آگئی لیکن نقصان کا ازالہ یا مدد نہیں فراہم کی گئی۔ پی ایف یوجے کے صدرافضل بٹ نے اس صورتحال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ملک بھر میں صحافتی تنظیموں کی طرف سے پر امن احتجاج کی کال دی ہے، ان کے مطابق صحافیوں پر حملے افسوس ناک ہیں لیکن صحافیوں کو بھی چاہیے کہ وہ غیر جانبدار ہوکر رپورٹنگ کریں اور سنسنی پھیلانے سے گریز کریں۔ آزادی اور انقلابی مارچ میں جہاں پرایویٹ میڈیا تو نشانہ بنا ہی وہاں پر سرکاری ٹی وی پی ٹی وی کو بھی نہیں بخشا گیا۔ شاہراہ دستور سے صرف چند منٹ کے فاصلے پر پی ٹی وی کی عمارت واقع ہے، پیر کی صبح تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے سینکڑوں کارکنان نے پی ٹی وی کی عمارت پر حملہ کیا اور اس پر قابض ہوگئے۔ مسلح کارکنان نے ٹی وی کے کنٹرول روم پر قبضہ کرکے پی ٹی وی کی نشریات بند کروادی۔ بعد میں پاک فوج کے افسران اور جوان جوکہ اس وقت ریڈ زون کی سیکورٹی پر مامور ہیں، ان کی مداخلت پر مظاہرین نے عمارت خالی کر دیاس کے بعد مظاہرین نے اپنی توپوں کا رخ پر جیو کی طرف کردیا اور جیو نیوز کے رپورٹرز کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ ڈی ایس این جی پر ڈنڈے برساتے رہے۔ اس ساری صورتحال پر صحافیوں کی عالمی تنظیم آئی ایف جے نے کہا ہے کہ پاکستان میں جاری مارچ میں صحافیوں پر پہ در پہ حملوں نے میڈیا کے لیے حالات کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ پولیس کا کام صحافیوں کی حفاظت کرنا ہے، ان پر تشدد کرے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ آئی ایف جے کے ڈائریکٹر جین ورتھنگٹن نے کہا ہے کہ پاکستانی صحافی بہت مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔ صحافیوں پر حملے قابل مذمت ہیں حکومت اور سیاسی جماعتیں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ اختلاف جمہوریت کا حسن ہے اس لیے دیگر طبقہ فکر کے مؤقف کا احترام کریں اور چینلز کو آزادی کے ساتھ سب کا مؤقف بیان کرنے دیں۔ ان کے مطابق سیاسی جماعتیں آزادیٔ رائے پر قدغن نہ لگائیں۔ پی ٹی وی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ نے کہا کہ سیاسی کارکنان کے طرف سے سرکاری ٹی وی پر حملہ افسوس ناک ہے، اس معاملے فوری طور پر چھان بین کی جائے اور صحافی بنا حفاظتی اقدامات کے کوریج سے گریز کریں یا فاصلہ رکھ کر کوریج کریں۔ آئی ایف جے نے پاکستانی صحافیوں کے لیے حفاظتی ہدایت نامہ جاری کیا جو اس وقت آزادی اور انقلابی مارچ کور کررہیں۔اس کے مطابق صحافی مکمل پلان کے ساتھ کوریج کے لیے جائیں، کوشش کریں کہ اپنی ٹیم کے ساتھ رہیں۔ موبائل فون چارج کرکے لے کر جائیں فرسٹ ایڈ کٹ ساتھ رکھیں، آنسو گیس سے بچنے کے لیے ماسک اور چشمے ساتھ رکھیں۔ شوخ لباس پہننے سے گریز کریں، کھلے کپڑے پہنیں اور آرام دہ جوتے پہن کر جائیں۔بالکل چھوٹا سا بیگ لے کر جائیں جس میں پانی اور کھانے کی اشیاء ہوں۔ کوریج کے مقام پر پہنچ کر اپنے آفس کےشناختی کارڈ چھپا کر رکھیں، اگر ہجوم مشتعل ہے تو لوگوں بھی استعمال نہ کریں۔ لوگوں سے فاصلہ رکھیں اور کسی کا انٹرویو لینا مقصود ہو تو اس شخص کو ہجوم سے الگ لے جا کر بات کریں۔اگر مارچ کور کرتے ہوئے ہنگامے شروع ہوجائیں تو فوری طور پر بھاگ کر اس جگہ سے دور ہو جائیں،ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹ ہرگز نہ اتاریں۔مظاہرین سے مکمل دور رہیں، ان کی کسی اشیاء کو ہاتھ نہیں لگائیں۔ اگر پولیس آنسو گیس کا استعمال کرے تو پانی سے منہ پر چھڑکاؤ کریں اور فوری طور پر اپنی عینک اور ماسک پہن لیں۔ اگر ربڑ کی گولیاں فائر ہوں تو فوری طور پر کسی چیز کی آڑ لے لیں۔ آئی ایف جے کے مطابق صحافی ہیلمٹ، آیئ شیلڈ، بلٹ پروف جیکٹ لازمی طور پر استعمال کریں۔ کوریج کے دوران پولیس اور دھرنے کے شرکاء سے نرمی سے بات کریں، سیکورٹی حکام سے مکمل تعاون کریں، ان کو فوراً اپنا آفس کارڈ دکھائیں۔اگر ڈی ایس این جی میں یا آفس کی کار سے کوریج کررہے ہیں تو گاڑی کے دروازے بند رکھیں۔ کیمرہ مین کوشش کریں کہ وہ کسی بلندی سے عکس بندی کریںاور ہجوم سے اجتناب کریں۔

اب چینلز انتظامیہ پر فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے کارکنان کو مکمل حفاظتی اقدامات کہ ساتھ دھرنے اور دیگر اساینمنٹس پر بھجوائیں۔ اس کے ساتھ حکومت انتظامیہ اور سیاسی جماعتیں بھی اپنے لوگوں کو پابند کریں کہ وہ میڈیا کو ان کا کام آزادی کے ساتھ کرنے دیں۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias

javeria.siddique@janggroup.com.pk
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10150#sthash.KXD3Hqqz.dpuf

Posted in Uncategorized

صوبائی اسمبلیوں کی پہلے سال کی کارکردگی

September 29, 2014   ………جویریہ صدیق………
پاکستان کی چاروں صوبائی اسمبلیوں پنجاب ، سندھ،خیبر پختون خوااور بلوچستان کی ایک سالہ کارکردگی کی رپورٹ پلڈاٹ نے جاری کردی ہے۔ چاروں اسمبلیاں 2013کے عام انتخابات کے بعد وجود میں آئیں۔ پلڈاٹ کی رپورٹ میں میں 2013سے جون 2014تک کی صوبائی اسمبلیوں کی کارکردگی شامل کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ قانون سازی، ارکان کی حاضری، وزرائے اعلیٰ کی حاضری، قائمہ کمیٹیوں کی کارکردگی اور کام کے اوقات کار پر مبنی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سب سے بہتر کارکردگی سندھ اسمبلی کی رہی،دوسرے نمبر پر خیبر پختون خوا ،تیسرے نمبر پر بلوچستان اور چوتھے نمبر پر پنجاب اسمبلی رہی۔ 12مہینے پر مشتمل پہلے پارلیمانی سال میں بلوچستان اسمبلی نے 54،خیبرپختون خواہ 72 ،پنجاب اسمبلی 70اور سندھ اسمبلی نے 57 دن کام کیا۔

سب سے پہلے بات ہوگی سندھ اسمبلی کی جو کارکردگی کے لحاظ سے اول نمبر پر رہی۔ صوبائی سندھ اسمبلی کے پہلے پارلیمانی سال کا آغاز 29مئی 2013سے شروع ہوکر 28مئی 2014کو مکمل ہوا۔ دس مہینے کی تاخیر کے بعد قائمہ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، ہر محکمے کے لیے 37مجالس کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا۔ تاہم 37میں سے صرف 22مجالس فعال ہوئیں اور ان کے چیئرپرسن کا انتخاب ہوا۔ قانون سازی میں 36سرکاری بل قانون کی حیثیت اختیار کرگئے۔ ان میں سندھ کریمنل پراسیکیوشن سروس، ماحولیاتی تحفظ اور لوکل گورنمنٹ سے متعلقہ قوانین شامل ہیں۔صوبا ئی اسمبلی نےپیش کی جانے والی 65قراردادیں متفقہ طور پر منظور کیں۔ اسمبلی قواعد کے تحت 226قردادیں موصول ہوئیں جن میں سے 11کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا جن میں لڑکے اور لڑکی کی شادی کے لیے کم ازکم عمر 18سال، کم عمری کی شادی کا خاتمہ، صوبے میں گھریلو صنعتوں کا قیام، خواتین کو فنی تربیت کے لیے بلا سودی اسکیموں کا معتارف کرایا جانا شامل ہے۔ صوبائی اسمبلی سندھ کے پورے پہلے پارلیمانی سال کے دوران اسمبلی کا اجلاس دو گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے 57نشستوں میں 27میں شرکت کی۔سندھ اسمبلی سے کوئی بھی وفد بیرون ملک نہیں گیا۔ اسمبلی نے اپنے 100ایام کار کے دوران 12اجلاس منعقد کیے جن میں اصل ورکنگ ڈے 57تھے۔ موجودہ اسمبلی نے اپنے پہلے سال میں قانون سازی کے حوالے سے اپنی کارکردگی میں گزشتہ اسمبلی کے اوسط کے حساب سے 58فیصد اضافہ کیا اور 174گھنٹے کام کیا۔

کارکردگی کے لحاظ سے خیبر پختون خوا اسمبلی دوسرے نمبر پر رہی، اگر اس کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی تشکیل میں 7ماہ کی تاخیر ہوئی۔ بعد ازاں 46قائمہ کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا جن میں سے صرف 17کا اجلاس ہوا۔ پہلے پارلیمانی سال میں 9کمیٹیوں کا اجلاس ہوا ہی نہیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سب سے زیادہ 16اجلاس بلائے۔ ایوان میں پیش کیے جانے والے 39میں سے 28منظور ہوئے۔ غیرسرکاری 15مسوادت پیش ہوئے جن میں سے دو منظور ہوگئے۔ اسمبلی نے جن اہم قوانین کی منظوری دی ان میں معلومات کی رسائی کا قانون، احتساب کمیشن کا مثالی قانون۔موجودہ اسمبلی نے 100نشستوں کے مقابلے میں 104دن کام کیا۔ کل 243گھنٹے۔ اس اسمبلی میں124ارکان میں سے 75ارکان پہلی بار منتخب ہوکر ایوان میں آئےاورایوان میں اکثریت پاکستان تحریک انصاف کی ہے۔ اسمبلی سیکرٹریٹ میں 604قراردادیں موصول ہوئیں، ان میں سے 34منظور ہوئیں۔ خبیر پختون خوا کے اسپیکر نے 3غیر ملکی دورے کیے اور اخراجات صوبائی اسمبلی خیبر پختوانخوا نے برداشت کیے۔ پہلے پارلیمانی سال کے دوران 12اجلاس ہوئے جن میں 8حکومت اور 4اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلائے گئے۔وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک نے 75نشستوں میں سے 31میں حاضر رہے۔

تیسرے نمبر پر بلوچستان کی صوبائی اسمبلی رہی۔ اسمبلی کا پہلا اجلاس یکم جون 2013کو ہوا اور پہلا پارلیمانی سال 22مئی 2014کو مکمل ہوا۔ بلوچستان اسمبلی میں نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، پاکستان مسلم لیگ، مجلس وحدت المسلمین اور پاکستان مسلم لیگ ن نے مل کر حکومت بنائی۔ حزب اختلاف میں عوامی نیشنل پارٹی،جمعیت علمائے اسلام،بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل شامل ہیں۔10ویں اسمبلی نے 96دن کام کیا اور 100دن کم ازکم ایام کار کا آئینی تقاضہ پورا نہیں کیا۔ اسمبلی نے صرف 142گھنٹے کام کیا۔ قائمہ کمیٹیوں کی بات ہو تو پارلیمانی سال کے اختتام تک صرف دو مجالس تشکیل ہوسکیں۔ اسمبلی نے 21قوانین متفقہ طور پر منظور کیے جن میں مسودہ قانون مالیات،لازمی تعلیم کا قانون 2014بھی شامل ہیں۔10ویں صوبائی اسمبلی نے 28حکومتی اور 38غیر سرکاری ارکان کی قراردادیں منظور کیں۔ان میں اہم ہینڈری میسح،نجی صنعتی یونٹوں اور دیگر کمپنیوں میں ملازمت کے لیے مقامی نوجوانوں کے لیے 70فیصد کوٹہ مختص، بلوچستان کی ساحلی پٹی کا نیا نام رکھنے اور پولیو مہم کی اہمیت کے حوالے سے قراردادیں شامل ہیں۔ پہلے پارلیمانی سال کے دوران بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے تین غیر ملکی دورے کیے۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبد المالک بلوچ نے 54نشستوں میں سے 26میں شرکت کی۔

پنجاب اسمبلی کی کارکردگی سب سے آخر میں رہی۔ پنجاب اسمبلی نے اپنا پہلا پارلیمانی سال 31مئی 2014میں مکمل کیا۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے 70میں سے صرف 3اجلاس میں شرکت کی۔ اسپیکر رانا محمد اقبال کا رویہ نرم رہا اور تمام اجلاس ہی دو گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوئے۔کل 8اجلاس بلائے گئے جن میں 70نشستیں ہوئیں۔ پنجاب اسمبلی کو بھی 7ماہ تاخیر کے بعد قائمہ کمیٹیاں قیام کرنے کا خیال آیا۔ 37حکومتی بل پیش ہوئے جن میں 33پاس ہوئے۔پہلے پارلیمانی سال میں آٹھ پرائیوٹ ممبر بل پیش کیے گئے جن میں سے ایک کلیئر ہوا۔پہلے پارلیمانی سال میں 213گھنٹے کام کیا گیا۔ 478قراردایں پیش ہوئیں۔ 628توجہ دلاؤ نو ٹس پیش کیے گیے جن میں سے صرف 48کا جواب موصول ہوا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی 14میٹنگز ہوئیں۔جو اہم بل پا س ہوکر قانون کا حصہ بنے ان میں پنجاب فنانس بل، پنجاب مینٹل ہیلتھ ترمیمی بل، ماں بچے اور نومولود بچوں کی صحت کا بل، باب پاکستان فاؤنڈیشن بل، محمد نواز شریف یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی بل اہم ہیں۔ پنجاب اسمبلی نے 213گھنٹے کام کیا۔

اس ہی رپورٹ میں کیے گئے سروے کے مطابق ملک کی بڑی تعداد نے اسمبلیوں کی پورے سال کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔ ان کے مطابق عوام کے بڑے مسائل توانائی،مہنگائی، بے روزگاری اور دہشت گردی کے حوالے سے کوئی مؤثر قانون سازی ہی نہیں کی گئی۔نہ ہی عوامی نمائندوں نے عوام کے مسائل مؤثر طریقے سے ایوان میں پیش کیے۔ اس رپورٹ میں سفارشات کی گئیں کہ وقفۂ سوالات میں اضافہ ناگزیر ہے اور ہفتے میں ایک بار وزیر اعلیٰ خود جواب دیں۔ بجٹ دورانیے کو 11سے 13یوم بڑھا کر کم از کم 30تا 40دن کردیا جائے۔ہر روز کی کارروائی میں ایک گھنٹہ صرف عوامی اور حلقے کے مسائل کے لیے مختص ہو۔ قائمہ کمیٹیوں میں اہم شعبوں کے ماہر اور پوسٹ گریجوٹ طالب علموں سے بھی معاونت حاصل کریں۔ صوبائی اسمبلیوں میں پارلیمانی کیلنڈربنایا جائے اور اس کی پابندی ہو۔اس کے ساتھ ساتھ اسمبلی میں اسٹاف بھرتی کرتے وقت قواعد وضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے میرٹ پر بھرتیاں کی جائیں۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias

javeria.siddique@janggroup.com.pk   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10238#sthash.LIwJ1vpR.dpuf

Posted in Uncategorized

انقلابی کارکنان کا کوئی پرسانِ حال نہیں

August 16, 2014   ……..جویریہ صدیق……..عمران خان اور طاہر القادری کے مارچ بالآخر اسلام آباد پہنچ گئے۔دونوں کے قافلے کافی سست روی کا شکار رہے اور گذشتہ رات اسلام آباد میں داخل ہوئے۔ 14اگست سے انتظامیہ نے اسلام آباد کے تمام داخلی راستوں سے کنٹینرز ہٹا دیے تھے اس کے بعد سے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنان اسلام آباد میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔ اپنے اپنے قائدین کے آنے سے پہلے سینکڑوں کارکنان زیرو پوائنٹ پر موجود تھے۔ ان تمام کا جوش وخروش اپنی جگہ لیکن 14اگست سے آج 16اگست ہوگئی تاہمتحریک انصاف اور عوامی تحریک کی طرف سے اپنے کارکنان کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے۔

پہلے ہی اسلام آباد میں موجود کارکنان سڑکوں پر بے سروسامانی کے عالم میں تھے، اوپر سے مارچ کے ساتھ آنے والے افراد کے ساتھ یہ تعداد بڑھ گئی۔ انتظامیہ کی طرف سے جگہ کا تعین کرنے کے باوجود دونوں جماعتوں نے ہی اپنے کارکنوں کے لیے سر چھپانے کا بندوبست کیا نہ ہی کھانے پینے کے خاص انتظامات۔ پاکستان کے عوام سادہ لوح ہیں، لیڈروں کے چکنے چپڑے وعدوں میں آکر گھر سے نکل پڑتے ہیں اور بعد میں زحمت اٹھاتے ہیں۔ یہ حال ان جماعتوں کے کارکنوں کا بھی ہوا۔

اس وقت دھرنے کی جگہ پر سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔ عمران خان کے کارکنان آبپارہ چوک کشمیر ہائی وے اور طاہر القادری کے مارچ کے شرکاء خیابان سہروردی پر ہیں۔ نہ ہی کارکنوں کے پاس پینے کے لیے پانی ہے اور نہ ہی وضو کرنے کے لیے۔ ان انقلابی مارچ اور آزادی دھرنوں سے پہلے کوئی حکمت عملی کیوں نہیں طے کی گئی؟ روز لیڈر ٹی وی پر آکر عوام کے جذبات تو ابھارتے رہے لیکن پارٹی کی مقامی قیادت نے کوئی کام نہیں کیا۔ کم از کم اور کچھ نہ ہوتا تو اسلام آباد پی ٹی آئی ونگ اور عوامی تحریک اپنے کارکنان میں مفت پانی تقسیم ہی کر وا دیتے۔

اس کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ اس وقت کھانے کا ہے کیونکہ عمران خان اور طاہر القادری کی جوش خطابت نے اسلام آباد میں ویسے ہی خوف و ہراس پھیلا رکھا تھا اور عملی طور پر بازار 5دن سے جزوی طور پر بند ہیں۔ اس لیے مارچ کے شرکا ہی نہیں اسلام آباد کے شہری بھی غذائی اشیاء کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ملک میں انتشار کی سیاست کی بدولت آدھا اسلام آباد مفلوج پڑا ہے۔اس وقت بھی عوامی تحریک کے کارکنان اور پی ٹی آئی کے کارکنا ن کو اسلام آباد آئے تیسرا دن ہے اور ان کو کھانے کی فراہمی کا کوئی نظام نہیں۔کچھ خوانچہ فروش زیرو پوائنٹ اور کشمیر ہائی وے پر کھانے پینے کی اشیاء بیچ تو رہے ہیں لیکن ان بہت مہنگے داموں۔ دونوں جماعتوں کے کارکنان اس وقت بددل ہیں کہ وہ اپنے شہروں سے صرف اپنے لیڈروں کی کال پر اسلام آباد آئے ہیں اور مقامی قیادت نے ان کو بالکل نظر انداز کردیا ہے۔

قائدین نے تو اپنی رات آرام دہ پانچ ستاروں والے ہوٹل میں گزاری جو خیابان سہروردی پر ہی واقع ہے تاہم خواتین اور مرد کارکنان نے اپنی رات زیرو پوائنٹ اور کشمیر ہائی وے پر گزاری۔ جس وقت میڈیا کوریج اور تقاریر کے بعد لیڈران نرم بستروں پر آرام فرما رہے تھے اس وقت کارکن کھلے آسمان تلے بارش میں بھیگتے رہے۔ انتظامات نہ ہونے کے باعث پہلے سے آئے ہوئے کارکنوں نے دوسری رات سڑک پر گزاری اور مارچ کے ساتھ آنے والوں نے پہلی رات بارش اور سردی میں گزاری۔کارکنان کی بڑی تعداد نے کہا کہ اگر ان کے لیے کوئی رہائش کا بندوبست نہیں کرنا تھا تو کم از کم ان کو خیمے فراہم کر دیے جاتے یا گرم چادریں تاکہ وہ موسمی حدت سے بچ جاتے۔

اس کے ساتھ ساتھ جو اہم مسئلہ اس وقت دونوں ہی پارٹیوں کے کارکنان کو پیش ہے وہ ہے باتھ رومز کا۔ دونوں پارٹیوں کی طرف سے موبائل باتھ رومز کا دعویٰ تو کیا گیا تھا تاہم عملی طور پر ایسا کچھ نہیں ہے۔ کارکنان رفع حاجت کے لیے خیابان سہروردی اور کشمیر ہائی وے سے متصل گرین بیلٹ کا رخ کررہے ہیں۔ خواتین کی بڑی تعداد اس وجہ سے مشکل میں نظر آئی۔خواتین کے مطابق کم از کم خواتین کے لیے ہی الگ بند وبست کر دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔

اس وقت بھی انقلابی اور آزادی مارچ والے سڑکوں پر موجود ہیں اور لیڈرشپ اپنے محلات میں۔ اسلام آباد آئے ہوئے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنان کی مشکلات کو دیکھ کر وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ یہ کمیٹی انقلاب اور آزادی کے لیے آئے ہوئے افراد کے لیے قیام طعام اور پینے کے صاف پانی کا بندوبست کررہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نے سی ڈی اے کو فوری طور پرعارضی باتھ رومز بنانے کا بھی حکم دیا ہے تاکہ عوام کی مشکلات کا کچھ ازالہ ہوسکے۔ اس وقت اسلام آباد آئے ہوئے عوام کو پانی،خشک خوارک، صابن اور رفع حاجت کے لیے باتھ رومز کی فوری ضرورت ہے۔اگر ایسا نہ ہوا تو عوام کی بڑی تعداد بخار، فلو، اسہال، ہیضے اور اعصابی دبا ؤ کا شکار ہوسکتے ہیں۔

انقلاب یا آزادی صرف باتوں یا وعدوں سے نہیں آتے۔ اس کے لیے عوام کی خدمت اور ملک کی ترقی میں حصہ ڈالنا پڑتا ہے۔اس وقت اسٹاک مارکیٹ مندی کا شکار ہے اور اب تک 36ارب کا نقصان ہو چکا ہے۔ کاروباری مراکز غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے بند رہے، تاجروں کو دس ارب کا نقصان ہو چکا ہے۔عید کے بعد سے عملی طور پر پنجاب اور اسلام آباد بند پڑے ہیں۔عوام گھروں میں محصور مشکلات کا شکار ہیں۔بات ہو اگر اسلام آباد آنے والے کارکنان کی تو 14اگست سے وہ آج تک سڑکوں پر ہی ہیں، لیڈرز جوکہ انقلاب اور آزادی کا دعویٰ کررہے ہیں ان کے لیے پانی کھانے اور سر چھپانے کا بندوبست بھی نہ کرسکے تو ملک کی تقدیر کیا بدلیں گے۔ لیڈران نے رات 5ستارے والے ہوٹل اور اپنی ذاتی محلات میں گزاری اور عوام بارش میں بھیگتے انقلاب کا انتظار کرتے رہے۔ اپنی انا اور ذاتی فوائد کے لیے عوام کا یوں استعمال کرنا درست نہیں۔جو لوگ اپنے لیے پانی اور کھانا خریدنے سے قاصر ہیں کیونکہ جیب اجازت نہیں دیتی تو دیکھتے ہیں کہ وہ کتنے دن آزادی اور انقلابی دھرنے میں رک پائیں گے۔ انقلاب میں محتاط اندازے کے مطابق دونوں جماعتوں کے ملا کر30ہزار کارکنان بنتے ہیں اور اگر اعلیٰ قیادت کی عدم توجہی کی یہی صورتحا ل رہی تو اسلام آباد میں آ ئے ہوئے کارکنان جلد بد د ل ہوکر واپس چلے جائیںگے۔

Javeria Siddique is a Journalist and Photographer works for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10058#sthash.c1ywEHJO.dpuf

Posted in Uncategorized

پہلا پارلیمانی سال اور ارکان کی کارکردگی

May 30, 2014   …جویریہ صدیق…

پاکستان کی چودہویں منتخب اسمبلی نے اپنا پہلا پارلیمانی سال مکمل کرلیا۔ یہ ایوان 2013 میں ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ پہلے پارلیمانی سال کی مدت یکم جون 2013 سے 30 مئی 2014 پر مشتمل ہے۔اس بار ایوان میں اکثریت مسلم لیگ نواز کی ہے اوران کی نشستوں کی تعداد 190 ہے جن میں ایک 149 جنرل نشستیں، 35 مخصوص نشستیں اور 6 اقلیتی ارکان شامل ہیں۔ مسلم لیگ ن کے بعد اسمبلی میں بڑی تعداد پیپلز پارٹی کی ہے جن کی نشستوں کی تعداد 46 ہے جس میں 37جنرل نشستیں، 8 مخصوص نشستیں اور ایک اقلیتی رکن کی نشست ہے۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کا نمبر ہے جو34 نشستوں کے ساتھ پارلیمان میں تیسرے نمبر پر ہے جن میں 27 جنرل،6 مخصوص اور ایک نشست اقلیتی رکن کی ہے۔ چوتھی بڑی جماعت ایم کیوایم ہے اور اس کے ارکان کی تعداد 24 ہے، جس میں 19 جنرل، 4 مخصوص، ایک اقلیتی نشست ہے۔ پانچویں نمبر پر جمعیت علمائے اسلام ہے، جس کی کل 13 نشستیں ہیں، 9 جنرل، 3 مخصوص اور ایک اقلیتی نشست۔ مسلم لیگ (ف) 5 ، جماعت اسلامی 4، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی 4، نیشنل عوامی پارٹی 2، پاکستان مسلم لیگ 2،اے این پی 2، بی این پی ایک، قومی وطن پارٹی شیر پاؤ گروپ ایک، مسلم لیگ ضیا ایک، نیشنل پارٹی ایک،عوامی مسلم لیگ ایک،اے جے ائی پی ایک، اے پی ایم ایل ایک اور آٹھ نشستوں کے ساتھ آزاد امیدوار نشستوں کے ساتھ نمایاں ہیں۔ قومی اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد 342 ہے۔

اس پارلیمانی سال کا آغازیکم جون دو ہزار تیرہ سے ہوا اورپارلیمانی سال کا آخری اجلاس پانچ مئی دوہزار چودہ سے شروع ہوا اور سولہ مئی دو ہزار چودہ تک جاری رہا۔ اس پارلیمانی سال میں گیارہ اجلاس ہوئے اور ایک اجلاس مشترکہ بھی تھا جس میں صدر پاکستان نے خطاب کیا۔ اگر کارکردگی کی بات کریں تو یوں پارلیمانی کارروائی میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں رہا جس میں ایوان سے تمام تین سو بیالیس ارکان موجود ہوں۔ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف ایوان میں صرف سات بار آئے اور وزرا کا حال بھی کچھ ایسا ہی رہا، ایوان میں اکیس بار کورم نا پورا ہونے کی نشاندھی کی گئی۔

اپوزیشن بھی اس دوڑ میں پیچھے نا رہی، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پورے پارلیمانی سال میں صرف گیارہ بار ہی ایوان میںآ ئے۔ مولانا فضل الرحمان بھی کیوں پیچھے رہتے وہ بھی صرف پندرہ دن ایوان کو اپنا دیدار کرا گئے، یہی حال پرویز الہٰی کا بھی رہا۔ایوان کی کاروائی ایک سو اکتالیس دن چلی لیکن نیشنل پارٹی کے کامل خان اور آذاد امیدوار عثمان ترکئی صرف دو دن ہی ایوان میں آنے کا وقت نکال سکے۔ شاید ان سب معزز ممبران کو پارلیمان سے بھی کچھ زیادہ اہم کام نمٹانے ہوں گے۔ گیارہ بار اسمبلی کا اجلاس صرف اس ہی وجہ سے ملتوی ہوا کہ ارکان کی تعداد بہت کم تھی۔

پرائیویٹ ممبران کی طرف سے 43 بل ایوان میں پیش کیے گیے، جن میں سے ایک بھی منظور نا ہوسکا۔ گذشتہ پارلیمانی سال میں حکومت نے تیرہ بل اور بارہ آرڈیننس پیش کیے جن میں سے گیارہ بل منظور ہوئے جن میں فنانس بل دو ہزار تیرہ، فیڈرل کورٹ بل دوہزار چودہ، انسداد دہشت گردی ترمیمی بل دو ہزار چودہ، انسداد دہشت گردی دوسرا ترمیمی بل دو ہزار چودہ، لیگل پریکٹشنر و بار کونسل ترمیمی ایکٹ دو ہزار چودہ، نیشنل جوڈیشل کمیٹی ایکٹ دو ہزار چودہ،لاء اور جسٹس کمیشن آف پاکستان ترمیمی ایکٹ دوہزار چودہ، فیڈرل پبلک سروس کمیشن ترمیمی ایکٹ دو ہزار چودہ، سروے اور میپنگ ایکٹ دو ہزار چودہ، سروس ٹریبونل ترمیمی ایکٹ دو ہزار چودہ اور پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ شامل ہے۔

اگر ارکان کی کارکردگی اور حاضری کا جائزہ لیں تو فافن کے مطابق گیارہ اجلاس بلائے گئے، جن میں ننانوے نشستوں میں اسپیکر ایاز صادق تراسی بار ، ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی چھیاسٹھ بار ایوان میں آٰئے۔ لیڈر آف اپوزیشن خورشید شاہ ننانوے میں سے پیچھتر بار آئے اور نواز شریف وزیر اعظم پاکستان نے صرف سات بار ہی دیدار کرایا۔

پہلے پارلیمانی سال میں تو ایوان میں اراکین کی کارکردگی مایوس کن رہی اور صرف گیارہ بل ہی پاس ہوئے جن میں سے کوئی بھی قانون کی صورت اختیار نا کرسکا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ایوان بالا میں اکثریت پی پی کی ہے اور ایوان زیریں میں مسلم لیگ کی۔ حکومتی ارکان کی بھی عدم توجہی عروج پر رہی اور وہ ایوان سے زیادہ تر غیر حاضر رہے۔ امید پر دنیا قائم ہے دو جون سے دوسرے پارلیمانی سال کا آغاز ہو رہا ہے اور عوام کی یہ خواہش ہے ان کے منتخب نمائندے دوسرے پارلیمانی سال میں دل جمعی کے ساتھ کام کریں اور حاضری کو بھی یقینی بنایں اور موثر قانون سازی کریں تاکہ عوام کو اسکے ثمرات مل سکیں۔ – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9876#sthash.7irsL1hi.dpuf