Posted in ArmyPublicSchool, Pakistan, ZarbeAzb, جویریہ صدیق

شہید رفیق رضا بنگش‎

13754116_1770452179899252_934988793871424411_n

 …..جویریہ صدیق……

یوں تو آرمی پبلک اسکول کے شہید اساتذہ اور بچوں کا چالیسواں ہوچکا ہے لیکن لواحقین کے لیے16 دسمبر کے بعد سے وقت تھم گیاہے۔وہ زندگی سے وابستہ امیدیں اور تمام رونقیں منوں مٹی تلے دبا چکے ہیں۔شہدا کے لواحقین ہیں اس لیے صبر و استقامت کی مثال تو ہیں لیکن ہیں تو انسان ہی نا جیتے جاگتے، اپنے پیاروں کو کھو دینے کا غم انہیں اندر ہی اندر کھائے جارہا ہے۔جانے والے چلے گئے لیکن لواحقین کو زندگی بھر کا روگ دے گئے۔جہاں پہلے پھول مسکرایا کرتے تھے اب وہاں خزاں کا موسم ہے۔
رفیق رضا بنگش بھی ان ہی ایک پھولوں میں ایک پھول ہے جو 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پر حملے کے دوران مرجھا گیا۔رفیق شہید بھی ہال میں دوسرے بچوں کے ساتھ موجود تھا ،جہاں ابتدائی طبی امداد کی تربیت دی جارہی تھی۔طالبان ظالمان موت کی صورت میں نازل ہوئے اور بچوں ان کے استاتذہ پر گولیاں برسانی شروع کردی۔رفیق بنگش کو بھی سر میں گولی لگی اور یوں صرف 15 سال کی عمر میں اس نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ جام شہادت نوش کرلیا۔
زندگی سے بھرپور تابعدارمیٹرک کا طالب علم رفیق رضا بنگش ہمیشہ کلاس میں پوزیشن لیتا تھا۔پانچ سال سے آرمی پبلک سکول میں زیر تعلیم تھا ،والدین نے اس لیے آرمی پبلک سکول میں داخل کروایا کیونکہ یہ پشاور کے بہترین اسکولوں میں شمار میں ہوتا ہے۔رفیق کے ساتھ ہی اس کے چھوٹے بھائی مرتجب رضا بنگش کو بھی آرمی پبلک سکول میں داخل کروایا گیا اور یوں دونوں بھائی روزانہ ساتھ اسکول جاتے۔ رفیق پوزیشن ہولڈر ہونے کے ساتھ ساتھ اسکول میں نعت خوانی کرتا اور رمضان ،ربیع الاول میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ضرور حصہ لیتا۔
رفیق رضا بنگش سائنس کا طالب علم تھا لیکن وہ سائنس کو روزمرہ زندگی پر بھی اپلائی کرتا،گھر میں کوئی چیز بھی خراب ہوجاتی رفیق اپنا ٹول بکس اٹھاتا اور خود ہی گھر میں چیزیں ٹھیک کرنا شروع کردیتا اور اکثر کامیابی سے انہیں ٹھیک کردیتا۔رفیق کو بچپن سے ہی گاڑیوں کا بہت شوق تھا پہلے تو خوب سارے کھلونے جمع کرتا اور پھر خوب کار ریسنگ ہوتی۔عمر کے ساتھ ساتھ گاڑیوں میں اس قدر دلچسی بڑھی کہ ڈرایونگ ہی سکھ ڈالی۔اپنی ایک چھوٹی سے گاڑی ڈیزائن کی اور اسکول کے بعد بس ایک ہی مشغلہ اس چھوٹی گاڑی کو روز جدید چیزوں سے لیس کرتے رہنا۔رفیق کی یہ خواہش تھی کہ وہ اسکول کے سائنس پراجیکٹس کی نمائش میں اپنی یہ چھوٹی ڈیزائن کردہ گاڑی کو لے کر جائے گا لیکن ایسا نا ہوا اور وہ اپنی اس خواہش کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگیا۔
رفیق رضا بنگش کے والد عابد بنگش نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کا لخت جگر ان کو یوں اچانک چھوڑ جائے گا۔ 16 دسمبر کو وہ اپنے دفتر میں کام میں مصروف تھے کہ میسج آیا آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوگیا ہے ماتحت سے موٹر سائیکل لی کیونکہ وہاں گاڑی لے کر جانا ناممکن تھا ، راستہ جام ہوچکا تھا وہاں پہنچے ۔موٹر سائیکل جانے تک کی جگہ نہیں تھی اور وہ پیدل ہی اپنے بچوں کو ڈھونڈتے رہے مرتجب رضا بنگش تو اللہ کے کرم سے محفوظ رہا لیکن رفیق رضا بنگش کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔عابد بنگش نے مختلف اسپتالوں میں چکر لگائے اپنے بیٹے کو ڈھونڈتے رہے ۔بیٹے کی سلامتی کے لیے دعائیں کرتے رہے لیکن ان کی تلاش سی ایم ایچ میں اس وقت ختم ہوئی جب ان کے شہید بیٹے رفیق رضا بنگش کا جسد خاکی ان کے سامنے موجود تھا ۔سفید کفن میں لپٹا معصوم ننھا شہید وطن کی خاطر اپنی جان قربان کر چکا تھا۔
رفیق بنگش کے ساتھ اس کے دوستوں مبین شاہ اور محمد یاسین نے بھی شہادت پائی۔یہ سب ساتھ پلے بڑھے اور ایک ساتھ ہی سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔رفیق رضا بنگش شہید کی والدہ بہت بے چین ہیں ان پر غموں کا پہاڑ جو ٹوٹ پڑا اتنا نازوں سے پالا بیٹا طالبان کی بربریت کی بھینٹ چڑھ گیا۔وہ ہر وقت ہر پل اس بات کی منتظر رہتی ہیں کہ کب کون سا لمحہ آئے اور وہ رفیق کو چاہےا یک پل کیوں نا ہو دوبارہ دیکھ سکیں ،بس کسی طرح ان کا لخت جگر واپس آجائے لیکن ایسا ممکن نہیں۔رفیق تو شہادت کا درجہ پا کر جنت میں چلا گیا۔ماں کا دل بے قرار ہے ہر پل ہروقت ہر آہٹ پر وہ صرف اپنے بیٹے کو پکار رہا ہے۔رفیق کی کاپیاں کتابیں کھلونے کپڑے سب ہی تو موجود ہیں وہ گاڑی بھی جس کو اس نے سائنسی نمائش میں لے کر جانا تھا بس اگر کوئی موجود نہیں ہے تو وہ رفیق خود ہے۔جو اپنے تمام پیاروں کو چھوڑکر چلا گیا۔
رفیق بنگش کے والد عابد بنگش کہتے ہیں کہ اس واقعے نے ان سب کی زندگی کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ رفیق جیسے انمول کو کھونے کا کرب بیان سے باہر ہے لیکن وطن پر جان نچھاور کرکے اس نے ہم سب کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کئی بار ان کی ہمشیرہ انہیں کینیڈا امیگریشن کے لیے کہہ چکی ہیں لیکن رفیق جب تک زندہ رہا اس نے ہر بار کہا کہ ہماراو طن پاکستان ہے اور ہمیں کسی غیر ملک میں جاکر کبھی نہیں رہیں گے۔ہمارا جینا بھی یہاں ہےاور مرنا بھی یہاں ہے یہ بات وہ سچ کرگیا اور اس مادر وطن پر اپنی جان نثار کردی۔شہید رفیق رضا بنگش کے بھائی مرتجب رضا بنگش کے مطابق میرا بھائی ہم سب کو بہت پیارا تھا لیکن میرے خیال میں اللہ تعالی کو وہ ہم سب سے زیادہ پیارا تھا اس لیے اس کو شہادت کے رتبے پر فائز کرکےاللہ نے اپنے پاس بلوالیا۔ مرتجب کا کہنا ہے میں نے اپنے آنسو روک لیے ہیں کیونکہ میرے بھائی کو میرے آنسو سے تکلیف نا ہو ۔میں نے اسکول جانا دوبارہ شروع کردیا ہے کیونکہ ہم پاکستانی بچے کسی دہشتگرد سے نہیں ڈرتے لیکن بھائی کی کمی کا احساس مجھے شدت سے ہے پہلے ہم دونوں ساتھ جاتے تھے اور اب میں اکیلا اسکول جاتا ہوں۔
رفیق رضا بنگش شہید کے خاندان کے مطابق ہم اپنے بیٹے کی قربانی پر نازاں ہے لیکن یہ وقت قوم کے متحد ہونے کا ہے ہم سب کو اپنے مفادات کو پس پشت رکھتے ہوئے اب صرف اس مادر وطن کے لیے متحد ہونا ہوگا۔ سول سوسائٹی کو مل کر فوج کا ساتھ دینا ہوگا تب ہی ہم سن مل کر ہی اس دہشت گردی کو ختم کرسکتے ہیں۔بچوں کی قربانی کو ہم رائیگاں نہیں جانے دےسکتے ،صرف متحد ہو کر ہی ہم دہشت گردی کے اس ناسور کو معاشرے سے اکھاڑ کر پھینک سکتے ہیں ۔
تمام پاکستانی جہاں شہید بچوں کے لیے رنجیدہ ہیں وہاں انہیں ان ننھے شہیدوں پر فخر بھی ہے کہ آرمی پبلک سکول میں بچوں اور استاتذہ نےموت کا جرات سے سامنا کیا اور وطن کے لیے جان قربان کردی،شہید رفیق رضا بنگش کو سلام، آرمی پبلک اسکول کے تمام شہدا کی عظمت اور جرات کوسلام۔

 

Posted On Thursday, January 22, 2015

Posted in ArmyPublicSchool, Pakistan

گل رعنا کا دکھ

گل رعنا کا دکھ

  Posted On Thursday, December 25, 2014   …..جویریہ صدیق……
مردان طورو سے تعلق رکھنے والی گل رعنا کے گھر محمد علی کی پیدایش12 اکتوبر1998 کو ہوئی۔گل رعنا اور ان کے شوہر شہاب الدین کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔تین بہنوں کا اکلوتا بھائی اسکا نام بھی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام کی مناسبت سے محمد علی رکھا گیا۔محمد علی کو شروع سے ہی آرمی میں جانے کا شوق تھا اور وہ بچپن میں جب بھی مچل مچل کر گاڑی جہازفوجی ٹینک والے کھلونوں کی ضد کرتا تو شہاب الدین مسکراتے ہوئے جابجا کھلونے اس کو لے دیتے اکلوتا جو تھا ۔گل رعنا کی آنکھوں کی ٹھنڈک اس کے دل کا قرار جب گھر سے تعلیم کے حصول کے لیے نکلا تو اس کے لیے اس کو شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے آرمی پبلک سکول ورسک روڈ کا انتخاب کیا گیا۔محمد علی کا تعلیمی سلسلہ شروع ہوا ہر مضمون میں بہترین اور ساتھ میں سکول کی باسکٹ بال ٹیم کا سب سے بہترین کھلاڑی۔سکول میں شوٹنگ میں بھی سب سے آگے اور ہمیشہ نشانے لیے ہوئے کہتا کہ ایک دن وہ دہشت گردوں پر بھی اسی ہی طرح نشانہ رکھ کر انہیں جہنم واصل کرےگا ۔گل رعنا کا شرارتی بیٹا ہر چیز میں آگے تھا گھر میں بہنوں کے ساتھ خوب شرراتیں ماما سے فرمائش، ماما چپس بنا دیں، ماما کیچپ دیں، ماما فرنچ ٹوسٹ کہاں ہے، ماما ریموٹ کہاں ہے میں نے سی آئی ڈی دیکھنا ہے بس جہاں کہیں ایکشن سسپنس سے بھرپور ڈرامہ یا پروگرام آرہا ہو وہاں ریموٹ صرف اس کاہی ہوتا۔محمد علی اپنے والد شہاب الدین کا خاص لاڈلا تھا گل رعنا پھر بھی سختی کرتی تھیں کہ اکلوتا ہے کہیں خود سر نا ہوجائے لیکن شہاب الدین تو کہتے کہ گل میرے بیٹے کو کچھ نا کہو کرنے دو اسکو شرارتیں یہ ہی دن ہیں ان کے کھیلنے کودنے کے پھر بڑا ہوجائے گا تو کہاں وقت ملےگا ۔
نوجوانی کی دہلیز پر دستک دیتا محمد علی کبھی دوستوں کے ساتھ کرکٹ کبھی باسکٹ بال تو کبھی کیرم کی بازی جہاں کہیں بھی محمد علی کھیل رہا ہوتا گل رعنا ایک نظر اس کو چپکے سے دیکھ ہی آتی جب محمد علی ان کو دیکھتا تو گھر آکر خفا ہوتا ماما اب میں بڑا ہوگیا میرے سب دوست دیکھتے ہیں کہ جہاں علی جاتا ہے اس کی ماما اس کو ضرور ایک نظر دیکھ کر جاتی ہیں لیکن گل رعنا مسکرا کر کہتی بیٹا یہ ماں کا دل ہے تم نہیں سمجھو گے۔دس دسمبر کو محمد علی باسکٹ بال میں میڈیل جیت کر آیا تو ماں نے بے ساختہ دعا دی بیٹا تم فخر خاندان ہو خدا تمہیں فخر پاکستان بنائے اور تم دیکھنا ایک دن اخبارات میں تمہاری تصاویر آئیں گی لیکن کسی کو کیا معلوم تھا محمد علی کی گل رعنا کے ساتھ ہی تصاویر آئیں گی لیکن سانحہ پشاور کے بعد۔
سولہ دسمبر کا دن طلوع ہوا محمد علی نے صبح کے وقت قرآن پاک ترجمے کے ساتھ پڑھا گل رعنا نے آواز دی بیٹا تیار ہوکر ناشتہ کرلو علی سکول کے لیے تیار تو ہوگیا لیکن ناشتہ نا کیا اور دوبارہ قرآن کی تلاوت شروع کردی ماں نے پھر آواز دی تو کہا امی میں چاہتا ہوں وین آنے سے پہلے سپارہ ختم کرلوں۔مامتا سے مجبور ماں نے کہا چائے ہی پی لو بس دو گھونٹ چائے پی اور سکول کے لیے روانہ ہوگیا ۔علی کےتمام دوست سکول کی باسکٹ بال ٹیم کا حصہ تھے۔باسکٹ بال کی پریکٹس کی بعد میں روٹین کی پڑھائی۔ اس دن ہال میں طبی امداد کی ٹرینگ دی جانی تھی اور میڈم افشاں کے ساتھ علی کی کلاس نائن ڈی بھی ہال میں آگئی ۔دوسری طرف گل رعنا اپنی بیٹیوں اور بیٹے کو سکول بھیجنے کے بعد گھر کے کاموں میں مصروف ہوگی ۔
موت طالبان ظالمان کی صورت آرمی پبلک سکول میں داخل ہوئی اور بچوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی گئی۔ طالبان کی طرف سےحیوانیت کا وہ کھیل کھیلا گیا کہ عرش کانپ اٹھا ۔میڈیم افشاں دہشت گردوں اور بچوں کے بیچ میں آگئی اور بچوں کو ہال سے بھاگنے کے لیے کہا۔محمد علی ان کچھ چند خوش نصیب بچوں میں تھا جوکہ ہال میں نکلنے سے کامیاب ہوگئے لیکن جب پیچھے دیکھا تو اس کے باسکٹ بال کے پلیئر ساتھی اس کے دوست اس کے کلاس فیلو اذان علی ،علی رحمان اور وقار تو پیچھے ہی رہ گئے تھے وہ پھر پلٹا تو ظالم دہشت گردوں نے گل رعنا کے پھول جیسے بیٹے کی ٹانگوں پر گولیاں ماردی۔وہ گر پڑا لیکن ہمت نا ہاری زمین پر رینگتا ہوا سکول کے گیٹ کی طرف بڑھا لیکن وحشی درندوں نے ایک بار پھر اس معصوم کو نشانہ بنایا اور گولیوں سے چھلنی کردیا یوں محمد علی اس وطن پر قربان ہوگیا۔
گل رعنا اور شہاب الدین کو جب اس واقعے کی اطلاع ہوئی تو فوری طور پر سکول کی طرف بھاگے لیکن وہاں آرمی آپریشن شروع ہوچکا تھا وہاں سے اسپتال کا رخ کیا تو گل رعنا کو یہ ہی امید تھی اس کا اکلوتا بیٹا اسکا نور نظر زندہ ہوگا ہسپتال میں قیامت صغری برپا تھی ہر طرف آرمی پبلک سکول کے ننھے پھولوں کی مسخ لاشیں تھیں۔اسپتال کے ایک کونے میں آرمی پبلک سکول کی پوری باسکٹ بال کی ٹیم کی لاشیں بھی موجود تھیں اسکول کی پوری باسکٹ بال ٹیم ہی ختم ہوگئی۔وہ بچے جو سنہرے خواب آنکھوں میں سجائے سکول گئے تھے اب ان کی بے نور آنکھیں سوال کر رہی تھیں کہ ہمارا کیا قصور تھا ہمیں کیوں اس نے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا؟گل رعنا کا جیتا جاگتا بیٹا جس کو گھر سے سکول تعلیم کے لیے بھیجا تھا جس کو ابھی پاک فوج میں بھیج کر ملک کا پاسبان بننا تھا جس کے سہرے کے پھول ابھی دیکھنے تھے وہ بچہ دیگر ایک سو پینتیس بچوں کے ساتھ سفید کفن میں ملبوس تھا۔زمین کیوں نا پھٹی آسمان کیوں نا ٹوٹ پڑا آہ گل رعنا کی کل کاینات اس کا بیٹا محمد علی چلا گیا۔
محمد علی کے تابوت سے لپٹ کر روتی رہی اسکو اٹھنے کا کہتی رہی گھنٹوں روتہ رہی پھر بیٹا نا اٹھا کیونکہ محمد علی تو اپنی جان اس وطن کے لیے قربان کرکے شہید کا درجہ حاصل چکا تھا۔گل رعنا جس وقت اپنے بیٹے کے لیے تڑپ تڑپ کر رو رہی تو متعدد کیمروں نے اس کی اپنے شہید بیٹے کے ساتھ تصویر محفوظ کرلی،جس جس پاکستانی نے یہ تصویر دیکھی وہ تڑپ اٹھا گل رعنا کی تکلیف دیکھ کر جس بیٹے کو نو ماہ کوکھ میں رکھ کر پیدا کیا راتوں کو اٹھ اٹھ کر اس کی دیکھ بھال کی اتنی محنت کرکے پندرہ سال کا کیا آنے والے درندوں نے پندرہ منٹ بھی نا لگائے او گل رعنا کی امیدوں ارمانوں اور خوشیوں کا خون کرکے چلے گئے۔محمد علی کے جنازے میں پشاور اور مردان طورو میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔علاقے کا ہر شخص محمد علی کی تابع داری اور بڑوں کے ساتھ حسن سلوک کا چرچا کرتا رہا۔مردان میں طورو کے علاقے میں ننھے شہید محمد علی کو سپرد خاک کردیاگیا۔
گل رعنا کے وجود کا حصہ اس کی پندرہ سال کی محنت اس کا پیار اس کی آنکھوں کی تارہ اب ایک سرد قبر کا مکین ہے وہ بچہ جسے کو ماں نے کبھی ایک پل آنکھ سے دور نا کیا تھا آج مردان میں ابدی نیند سو رہا ہے۔گل رعنا کے گھر پاک فوج کے افسران اور اے این پی کے لیڈران حاجی غلام احمد بلور،ہارون بشیر بلور،میاں افتخار حسین اور شگفتہ مالک آئے اور انہیں تسلی دی اور دہشت گردوں کو نیست و نابود کرنے کا عندیہ دیا۔لیکن گل رعنا انتظار کرتی رہی کہ کب وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف،وزیر اعلی خیبر پختون خواہ پرویز خٹک کب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان،مریم نواز شریف اورپی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس کے گھر آئیں گے اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھیں گے ،شہاب الدین کو تسلی دیں گے محمد علی کی تین کم سن بہنوں کے آنسو پونچھیں گے لیکن ایسا نا ہوا کوئی بھی نا آیا۔ جب ووٹ لینے کے لیے لیڈران ہمارے علاقوں اور گھروں میں آسکتے ہیں تو ہمارے غم میں شرکت کرنے کیوں نہیں آسکتے جب گل رعنا کو یہ پتہ چلا کہ عمران خان آرمی پبلک سکول آرہے ہیں تو گل رعنا سوگ کی کیفیت میں اسکول چلی گئی اور عمران خان سے سوال کیا کہ یہ ہے وہ تبدیلی جس کا خواب آپ سب کو دیکھا رہے ہیں ؟ ہمارے بچے چلے گئے اور ہمیں پرسہ دینے بھی کوئی نہیں آیا۔آپ کب طالبان کے خلاف ایکشن لیں گے ؟ ہمارے بچوں کو انصاف کون دےگا؟ لیکن تحریک انصاف کے چیئرمین کے پاس کوئی جواب نا تھا۔
گل رعنا کہتی ہیں کہ میرا بیٹا محمد علی تو اس ملک پر اپنی جان نچھاور کرگیا لیکن میں نہیں چاہتی کہ اس قربانی رائیگاں جائے۔میں چاہتی ہوں میرے بیٹے کے لہو کی قربانی سے ملک میں امن آجائے اور کوئی ماں ایسا غم پھر نا دیکھے جو میں نے اور دیگر ایک سو چونتیس بچوں کی مائوں نے دیکھا ہے۔گل رعنا نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ انکے بیٹے باقی شہید ہونے والے بچوں کوسرکاری طور پر شہید کا درجہ دیا جائے اور آرمی پبلک کے شہدا کی یاد میں ایک یادگار تعمیر کی جائے۔انہوں نے آرمی اور حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ ایک ایک دہشت گرد کو اسکو انجام تک پہنچایا جائے تاکہ پھر کسی ماں کی گود نا اجڑے۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at :Twitter @javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10477#sthash.1OdFvxwO.dpuf