Posted in Uncategorized

صوبائی اسمبلیوں کی پہلے سال کی کارکردگی

September 29, 2014   ………جویریہ صدیق………
پاکستان کی چاروں صوبائی اسمبلیوں پنجاب ، سندھ،خیبر پختون خوااور بلوچستان کی ایک سالہ کارکردگی کی رپورٹ پلڈاٹ نے جاری کردی ہے۔ چاروں اسمبلیاں 2013کے عام انتخابات کے بعد وجود میں آئیں۔ پلڈاٹ کی رپورٹ میں میں 2013سے جون 2014تک کی صوبائی اسمبلیوں کی کارکردگی شامل کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ قانون سازی، ارکان کی حاضری، وزرائے اعلیٰ کی حاضری، قائمہ کمیٹیوں کی کارکردگی اور کام کے اوقات کار پر مبنی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سب سے بہتر کارکردگی سندھ اسمبلی کی رہی،دوسرے نمبر پر خیبر پختون خوا ،تیسرے نمبر پر بلوچستان اور چوتھے نمبر پر پنجاب اسمبلی رہی۔ 12مہینے پر مشتمل پہلے پارلیمانی سال میں بلوچستان اسمبلی نے 54،خیبرپختون خواہ 72 ،پنجاب اسمبلی 70اور سندھ اسمبلی نے 57 دن کام کیا۔

سب سے پہلے بات ہوگی سندھ اسمبلی کی جو کارکردگی کے لحاظ سے اول نمبر پر رہی۔ صوبائی سندھ اسمبلی کے پہلے پارلیمانی سال کا آغاز 29مئی 2013سے شروع ہوکر 28مئی 2014کو مکمل ہوا۔ دس مہینے کی تاخیر کے بعد قائمہ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، ہر محکمے کے لیے 37مجالس کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا۔ تاہم 37میں سے صرف 22مجالس فعال ہوئیں اور ان کے چیئرپرسن کا انتخاب ہوا۔ قانون سازی میں 36سرکاری بل قانون کی حیثیت اختیار کرگئے۔ ان میں سندھ کریمنل پراسیکیوشن سروس، ماحولیاتی تحفظ اور لوکل گورنمنٹ سے متعلقہ قوانین شامل ہیں۔صوبا ئی اسمبلی نےپیش کی جانے والی 65قراردادیں متفقہ طور پر منظور کیں۔ اسمبلی قواعد کے تحت 226قردادیں موصول ہوئیں جن میں سے 11کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا جن میں لڑکے اور لڑکی کی شادی کے لیے کم ازکم عمر 18سال، کم عمری کی شادی کا خاتمہ، صوبے میں گھریلو صنعتوں کا قیام، خواتین کو فنی تربیت کے لیے بلا سودی اسکیموں کا معتارف کرایا جانا شامل ہے۔ صوبائی اسمبلی سندھ کے پورے پہلے پارلیمانی سال کے دوران اسمبلی کا اجلاس دو گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے 57نشستوں میں 27میں شرکت کی۔سندھ اسمبلی سے کوئی بھی وفد بیرون ملک نہیں گیا۔ اسمبلی نے اپنے 100ایام کار کے دوران 12اجلاس منعقد کیے جن میں اصل ورکنگ ڈے 57تھے۔ موجودہ اسمبلی نے اپنے پہلے سال میں قانون سازی کے حوالے سے اپنی کارکردگی میں گزشتہ اسمبلی کے اوسط کے حساب سے 58فیصد اضافہ کیا اور 174گھنٹے کام کیا۔

کارکردگی کے لحاظ سے خیبر پختون خوا اسمبلی دوسرے نمبر پر رہی، اگر اس کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی تشکیل میں 7ماہ کی تاخیر ہوئی۔ بعد ازاں 46قائمہ کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا جن میں سے صرف 17کا اجلاس ہوا۔ پہلے پارلیمانی سال میں 9کمیٹیوں کا اجلاس ہوا ہی نہیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سب سے زیادہ 16اجلاس بلائے۔ ایوان میں پیش کیے جانے والے 39میں سے 28منظور ہوئے۔ غیرسرکاری 15مسوادت پیش ہوئے جن میں سے دو منظور ہوگئے۔ اسمبلی نے جن اہم قوانین کی منظوری دی ان میں معلومات کی رسائی کا قانون، احتساب کمیشن کا مثالی قانون۔موجودہ اسمبلی نے 100نشستوں کے مقابلے میں 104دن کام کیا۔ کل 243گھنٹے۔ اس اسمبلی میں124ارکان میں سے 75ارکان پہلی بار منتخب ہوکر ایوان میں آئےاورایوان میں اکثریت پاکستان تحریک انصاف کی ہے۔ اسمبلی سیکرٹریٹ میں 604قراردادیں موصول ہوئیں، ان میں سے 34منظور ہوئیں۔ خبیر پختون خوا کے اسپیکر نے 3غیر ملکی دورے کیے اور اخراجات صوبائی اسمبلی خیبر پختوانخوا نے برداشت کیے۔ پہلے پارلیمانی سال کے دوران 12اجلاس ہوئے جن میں 8حکومت اور 4اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلائے گئے۔وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک نے 75نشستوں میں سے 31میں حاضر رہے۔

تیسرے نمبر پر بلوچستان کی صوبائی اسمبلی رہی۔ اسمبلی کا پہلا اجلاس یکم جون 2013کو ہوا اور پہلا پارلیمانی سال 22مئی 2014کو مکمل ہوا۔ بلوچستان اسمبلی میں نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، پاکستان مسلم لیگ، مجلس وحدت المسلمین اور پاکستان مسلم لیگ ن نے مل کر حکومت بنائی۔ حزب اختلاف میں عوامی نیشنل پارٹی،جمعیت علمائے اسلام،بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل شامل ہیں۔10ویں اسمبلی نے 96دن کام کیا اور 100دن کم ازکم ایام کار کا آئینی تقاضہ پورا نہیں کیا۔ اسمبلی نے صرف 142گھنٹے کام کیا۔ قائمہ کمیٹیوں کی بات ہو تو پارلیمانی سال کے اختتام تک صرف دو مجالس تشکیل ہوسکیں۔ اسمبلی نے 21قوانین متفقہ طور پر منظور کیے جن میں مسودہ قانون مالیات،لازمی تعلیم کا قانون 2014بھی شامل ہیں۔10ویں صوبائی اسمبلی نے 28حکومتی اور 38غیر سرکاری ارکان کی قراردادیں منظور کیں۔ان میں اہم ہینڈری میسح،نجی صنعتی یونٹوں اور دیگر کمپنیوں میں ملازمت کے لیے مقامی نوجوانوں کے لیے 70فیصد کوٹہ مختص، بلوچستان کی ساحلی پٹی کا نیا نام رکھنے اور پولیو مہم کی اہمیت کے حوالے سے قراردادیں شامل ہیں۔ پہلے پارلیمانی سال کے دوران بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے تین غیر ملکی دورے کیے۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبد المالک بلوچ نے 54نشستوں میں سے 26میں شرکت کی۔

پنجاب اسمبلی کی کارکردگی سب سے آخر میں رہی۔ پنجاب اسمبلی نے اپنا پہلا پارلیمانی سال 31مئی 2014میں مکمل کیا۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے 70میں سے صرف 3اجلاس میں شرکت کی۔ اسپیکر رانا محمد اقبال کا رویہ نرم رہا اور تمام اجلاس ہی دو گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوئے۔کل 8اجلاس بلائے گئے جن میں 70نشستیں ہوئیں۔ پنجاب اسمبلی کو بھی 7ماہ تاخیر کے بعد قائمہ کمیٹیاں قیام کرنے کا خیال آیا۔ 37حکومتی بل پیش ہوئے جن میں 33پاس ہوئے۔پہلے پارلیمانی سال میں آٹھ پرائیوٹ ممبر بل پیش کیے گئے جن میں سے ایک کلیئر ہوا۔پہلے پارلیمانی سال میں 213گھنٹے کام کیا گیا۔ 478قراردایں پیش ہوئیں۔ 628توجہ دلاؤ نو ٹس پیش کیے گیے جن میں سے صرف 48کا جواب موصول ہوا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی 14میٹنگز ہوئیں۔جو اہم بل پا س ہوکر قانون کا حصہ بنے ان میں پنجاب فنانس بل، پنجاب مینٹل ہیلتھ ترمیمی بل، ماں بچے اور نومولود بچوں کی صحت کا بل، باب پاکستان فاؤنڈیشن بل، محمد نواز شریف یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی بل اہم ہیں۔ پنجاب اسمبلی نے 213گھنٹے کام کیا۔

اس ہی رپورٹ میں کیے گئے سروے کے مطابق ملک کی بڑی تعداد نے اسمبلیوں کی پورے سال کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔ ان کے مطابق عوام کے بڑے مسائل توانائی،مہنگائی، بے روزگاری اور دہشت گردی کے حوالے سے کوئی مؤثر قانون سازی ہی نہیں کی گئی۔نہ ہی عوامی نمائندوں نے عوام کے مسائل مؤثر طریقے سے ایوان میں پیش کیے۔ اس رپورٹ میں سفارشات کی گئیں کہ وقفۂ سوالات میں اضافہ ناگزیر ہے اور ہفتے میں ایک بار وزیر اعلیٰ خود جواب دیں۔ بجٹ دورانیے کو 11سے 13یوم بڑھا کر کم از کم 30تا 40دن کردیا جائے۔ہر روز کی کارروائی میں ایک گھنٹہ صرف عوامی اور حلقے کے مسائل کے لیے مختص ہو۔ قائمہ کمیٹیوں میں اہم شعبوں کے ماہر اور پوسٹ گریجوٹ طالب علموں سے بھی معاونت حاصل کریں۔ صوبائی اسمبلیوں میں پارلیمانی کیلنڈربنایا جائے اور اس کی پابندی ہو۔اس کے ساتھ ساتھ اسمبلی میں اسٹاف بھرتی کرتے وقت قواعد وضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے میرٹ پر بھرتیاں کی جائیں۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias

javeria.siddique@janggroup.com.pk   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10238#sthash.LIwJ1vpR.dpuf

Posted in Uncategorized

تھرکی افسوسناک صورتحال

March 11, 2014  

…جویریہ صدیق…
تھر کے بچوں کو بھوک اور افلاس نگل رہی اور الزامات کی سیاست عروج پر ہے۔ انسانوں کو کھا نا میسر ہے نا ہی مویشوں کو چارہ۔ تھر میں اب تک ایک سو اکیتس سے زائد بچے جان بحق ہوچکے ہیں اور دو لاکھ سے زائد خاندان متاثر ہیں۔ غذائی قلت اور قحط سالی کے حوالے سے جب میڈیا پر خبریں آئیں تو سندھ حکومت جاگی کہ عوام کی مدد کے لیے بھی کچھ کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے وہاں مرنے والے بچے قحط سالی سے نہیں بلکہ دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہوئے ہیں اور سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ سمیت دیگر پی پی لیڈران بھی اس بات کی تائید کرتے رہے تاہم صورتحال اس کے برعکس ہے۔تھر ایک صحرائی علاقہ ہے اور اس سال بارشیں بھی کم ہوئیں جس کے بارے میں حکومت سندھ کو محکمہ موسمیات پہلے ہی آگاہی دے چکی تھی تاہم حکومت سندھ کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور مربوط پالیسی کے فقدان کے باعث تھر میں قحط کی صورتحال پیدا ہوگئی۔
اس وقت تھر میں متاثر بچے اسپتالوں میں شدید کرب سے گزر رہے ہیں کم عملہ، ادویات کی قلت اور جدید مشینری کی کمی کے باعث بہت سی اور اموات کا خدشہ ہے۔جیو پر خبر نشر ہونے کے بعد بہت سے عالمی ادارے اور مخیر حضرات حرکت میں آگئے اور متاثرین تک امداد کا سلسلہ شروع ہوا، تاہم سندھ حکومت نے پہلے تو صرف بیان بازی اور بعد میں ایک تھر متاثرین فنڈ قائم کرنے کو ہی کافی سمجھا۔ تاہم میڈیا اور سوشل میڈیا کی تنقید کے بعد تھر کے دوروں کا آغاز ہوا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ جو کہ سندھ کے وزیر صحت بھی ہیں اور ان کے داماد اقبال درانی سیکریٹری صحت ہیں، انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کہ سرکاری سطح پر گندم کی تقسیم صحیح طور پر نا ہو سکی اور انہوں نے حکومت کی غفلت کا اعتراف کیا۔تاہم اس اعتراف کے ساتھ ساتھ جہاں لوگ تھر میں بھوکے مر رہے ہیں، وہاں وزیر اعلیٰ سندھ کی آمد پر پرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا گیا جس میں انواع اقسام کے کھانے پیش کیے گئے۔ یہ صورتحال افسوس ناک ہے کہ ایک طرف علاقے میں لوگ بھوک افلاس سے مر رہے ہوں اور دوسری طرف افسر شاہی صرف حکومتی ارکان کو خوش کرنے میں مصروف اور جہاں لوگ ایک ایک دانے کو ترس رہے ہوں وہاں دوسری طرف ظہرانے میں ملائی تکہ، ریشمی کباب، مٹن بریانی، ذردہ موجود ہوں افسوس کا مقام ہے۔
دس مارچ کو چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف بھی مٹھی تھر پارکر پہنچ گئے ان کے دورے سے پہلے تما م سڑکیں صاف کی گئی، تما م دکانیں، بازار بند کروادیے گئے اور ستم ظریفی تو ملا حظہ ہو واحد سرکاری اسپتال کے دروازے بھی سیکورٹی کے نام پر بند کردیے گئے اور مریض بے یارومدگار در بدر ٹھوکریں کھاتے رہے۔ وزیراعظم نے ایک ارب روپے امداد کا اعلان کیا اور ساتھ ساتھ حکومت سندھ سے اس صورتحال پر انکوائری کرنے کا حکم دیا اب وزیر اعلیٰ جو خود ہی وزیر صحت بھی ہیں، کیا کاروائی کریں گے؟ اور کس کے خلاف؟ یہ محکمہ تو ان کے خاندان کے ہی ماتحت ہے۔
صرف تھر کی کیا بات کریں سندھ کے چوبیس میں سے آٹھ دیگر اضلاع بھی غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اور بات ہو اگر پورے پاکستان کی تو اس وقت پاکستان کی اڑتالیس فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے اور کہنے کو یہ زرعی ملک ہے۔وقت کی ضرورت اس وقت صرف اعلانات یا انکوائریاں کروانے کا نہیں بلکے یہ وقت فوری طور پر تھر کے متاثرین کو امداد پہنچانے کا ہے۔ان کو اس وقت امرا کے دوروں یا اعلانات کی نہیں، اناج کی ضرورت ہے ان کو فوری طور پر پانی، بسکٹ، دودھ، کپڑوں اور خیموں کی ضرورت ہے۔تھر میں لوگ امداد کے منتظر ہیں، گندم کی تقسیم کا کام بہت سست روی سے جاری ہے مانگنے والے بہت ہیں لیکن دینے والے بہت کم۔آٹا، چاول، دودھ سب ہی تھر میں نا پید ہے اس لیے ہم سب کو تھر کے عوام کی مدد کے لیے کھڑا ہونا ہوگا اور حکومت کو ایسی پالیسیاں بنا نا ہوں گی جس سے خشک سالی، قحط سالی اور غذائی قلت پر قابو پایا جاسکے اور اس مجرمانہ غفلت پر محمکہ خوراک کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے۔

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9637#sthash.G8l5oYd3.dpuf

Posted in Uncategorized

سندھ اسمبلی میں شادی خانہ آبادی

November 04, 2013   ۔۔۔ جویریہ صدیق ۔۔۔
پاکستان میں یوں تو اکثر عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں تاہم تین نومبر کو سندھ اسمبلی میں ایسا واقعہ رونما ہوا جوکہ آج تک تاریخ میں رونما نہیں ہوا۔سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کے بھتیجے کی شادی کی تقریب سندھ اسمبلی میں منعقد کروا دی گی ۔یہ اسمبلی کی تاریخ میں پہلا موقع تھا جب ایک ہزار کے قریب خواتین اور مرد حضرات خوب زرق برق ملبوسات میں ملبوس ہوکر اسمبلی پہنچے جہاں ان کی تواضع مشروبات اور انواع اقسام کے کھانوں سے کی گی ۔دلہا دلہن، مہمان، سیاسی شخصیات،وسیع وعریض شامیانے اور برقی قمقموں کی بھرمار ایسا منظر اس اسمبلی کی پر شکوہ عمارت نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا اور تو اور بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی ان وی وی آیی پی مہمانوں کے لیے معتدد سیکورٹی اہلکار بھی تعینات کیے گیے تھے تاکہ کسی بھی قسم کا ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔
جیو ٹی وی کی آنکھ سے یہ تقریب اوجھل نا رہ سکی اور پل بھر میں اسپیکر موصوف کا یہ کارنامہ پورے پاکستان کے سامنے تھا ۔ مہمان تو شادی سے لطف اندوز ہوتے رہے اور عوام یہ ٹی وی دیکھ کر یہ سوچتے رہے کہ اے کاش وہ بھی مفتے میں ایسے ہی شادیاں بھگتا لیا کریں سرکاری مفت کا ہال ، سرکاری پیسوں پر مفت کا کھانا، سرکار کی بجلی پر برقی قمقموں کی جگماگاہٹ اور سرکاری خرچے پر ہی مفت سیکیورٹی مل جایے تو مزہ ہی آجایے ۔
شادی کی تقریب رات گیے تک جاری رہی اور صبح انیس سو بیالس میں بنایی گی سندھ اسمبلی کی تاریخی عمارت مہمانوں کے زردے بریانیوں کے تھال ،استعمال شدہ برتنوں ، ٹشو پیپرز اور چھوڑے ہویے کھانے سے بھری پڑی تھی۔اکہتر سالہ پرانی عمارت جو کہ قومی ورثہ میں شامل ہے اس کو خود اس کے ہی اسپیکر کی طرف سے نقصان پہنچایا جانا قابل مذمت ہے ۔ موصو ف آغاہ سراج درانی اپنے کیے پر شرمندہ نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ گورنر ہاوس اور وزیراعلی ہاوس میں بھی تو شادیاں ہوتی ہیں ارے جی جناب ہوتی ہیں اس لیے کے گورنر اور وزیر اعلی کی رہایش گاہیں جو ان عمارتوں کے اندر ہیں لیکن جناب اسپیکر اسمبلی میں تو کسی کی رہایش گاہ نہیں تو پھر وہاں شادی کی تقریب کیوں ؟
اسپیکر موصوف ڈھٹائی کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے ہیں کہ اسمبلی میں شادی کی تقریب کا انعقاد ان کا قانونی اور آیینی حق ہے اب امکان اس بات کا ہے کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے اور کہیں مستقبل قریب میں ایسا نا ہونے لگے کہ شامیانے قومی اسمبلی کے احاطے میں بھی لگنے لگیں چلو قانون سازی نا سہی شادی خانہ آبادی ہی سہی۔ – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9235#sthash.jpoiG8Uj.dpuf