Posted in Uncategorized

وزیر اعظم کا مدبرانہ فیصلہ

January 30, 2014  

…جویریہ صدیق…
2013ء کے الیکشن کے بعد یہ ہی امید رکھی جارہی تھی کے طالبان اپنی مذموم کاروایوں کا سلسلہ روک دیں لیکن ایسا نہ ہوا اور مسلم لیگ ن کی حکومت کے پہلے 8ماہ بھی طالبان شدت سے حملے کرتے رہے جن کا نشانہ پاکستانی عوام، سیکیورٹی حکام اور اقلیتیں بنیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں پاکستانیوں کو بھاری مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
بات ہو اگر صرف جنوری 2014ء کی تو صرف ایک ماہ میں 21دہشت گردی کے حملے ہوئے جن میں 155افراد نے جام شہادت نوش کیا اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ اس نازک صورتحال پر وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف مدبرانہ فیصلہ لیے سامنے آئے۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امن کو ایک اور موقع دینا ہوگا، ہم ہتھیار اٹھانے والوں کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا تاہم طالبان کو مذاکرات سے پہلے ہتھیار ڈالنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت اور دہشت گردی کی کارروایاں ساتھ نہیں چل سکتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا تو عوام ان کے ساتھ ہے لیکن پہلے وہ مذاکرات کے خواہاں ہیں۔
وزیراعظم نے مذاکرات کے لیے چار رکنی کمیٹی کا اعلان کیا جن میں کالم نویس عرفان صدیقی، سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی، میجر (ر) عامر اور سابق سفیر رستم شاہ مہمند شامل ہیں۔ کمیٹی کی معاونت وزیر داخلہ چوہدری نثار کریں گے۔ وزیر اعظم کے خطاب کے بعد مقتدر حلقوں اور سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی۔ لوگوں کی اکثریت نے وزیراعظم کے فیصلے کو سراہا۔ ان کے مطابق 14سال سے دہشت گردی کا عذاب ان پر مسلط ہے لیکن وزیراعظم کی سنجیدہ کوششوں سے اب لگتا ہے کہ امن کی منزل دور نہیں۔ کچھ افراد نے سوشل میڈیا پر مذاکراتی کمیٹی کو نشانہ بنایا کہ اس میں دفاعی امور کے ماہر اور علمائے کرام کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ کچھ لوگ پُر امید نظر آئے کہ مذاکرات ضرور کامیاب ہوں گے۔
اپوزیشن کی طرف سے بھی مثبت ردعمل سامنے آیا۔ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جمیعت علمائے اسلام ف نے مذاکرات میں حکومت کو اپنے تعاون کا یقین دلایا تاہم ایم کیوایم نے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق دہشت گردوں کو اور مہلت دینے کی ضرورت نہیں، ان کے خلاف فوری آپریشن کی ضرورت ہے۔
تحریک طالبان پنچاب کے سربراہ عصمت اللہ معاویہ نے بھی مذاکراتی کمیٹی پر اعتماد کا اظہار کیا جبکہ تحریک طالبا ن پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد حتمی فیصلے کا کہا ہے۔
اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ طالبان اور اس کے دھڑے پاکستانی حکومت کی اس پیشکش کا کس طرح سے استعمال کرتے ہیں، کیا ان کے سب گروہ حکومت کے ساتھ بیٹھنا پسند کریں گے؟ طالبان کے کیا مطالبات ہیں؟ کیا وہ حکومت کے سامنے دل کھول سکیں گے؟ اور کیا حکومت ان کی مانگیں پوری کرسکے گی؟ یا پھر دہشت گردی کی کارروایاں جاری رہیں گے۔ حکومت کی مذاکراتی ٹیم اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوگی یہ ان کی کام کی سنجیدگی ظاہر کردے گی۔ آرمی کا رول بھی آنے والوں دنوں میں خاصا اہم ہوگا۔ اگر وزیر اعظم کی پیشکش پر طالبان نے ہتھیار ڈال دیے اور مذاکرات شروع ہوگئے تو یہ امن کے خواب کی تعبیر ثابت ہوگا لیکن اگر طالبان نے روایتی ہٹ دھڑمی دکھائی تو آگ اور بارود کا وہ سلسلہ شروع ہوگا جسے کئی نسلیں بھی ختم نہیں کر سکیں گی۔ اب طالبان کو ہمارے ساتھ مل کر سوچنا ہو گا کہ کیا ان کے بچے بھی ساری زندگی غاروں اور پہاڑوں پر گوریلا جنگ لڑتے رہیں گے یا پھر انہیں اپنی آنے والی نسلوں کو ایک اسلامی فلاحی معاشرہ دینا ہے۔
میری دعا ہے کہ اے اللہ تو رحمان اور رحیم ہے، پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے امن کے خواب کو پورا فرما اور بارد اور آگ کا یہ کھیل ہمشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو آمین
Javeria Siddique is a Journalist and Award winning photographer

. Contact at https://twitter.com/javerias

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9541#sthash.Oeneu5xs.dpuf

Posted in Uncategorized

تحریک طالبان کی نئی قیادت

November 09, 2013   ۔۔۔ جویریہ صدیق ۔۔۔
پاکستانی حکومت کی رٹ کو چلینج کرنے والا،پاک فوج پر حملوں میں ملوث،سوات میں اپنی غیر قانونی حکومت قائم کرنے والا،انسداد پولیو مہم کے خلاف اور ہیلتھ ورکرز پر قاتلانہ حملوں میں ملوث،لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف،ملالہ پر قاتلانہ حملے کا ماسڑ مائنڈ، میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کو نشانہ بنانے والا، نظام عدل والے صوفی محمد کا داماد،میں بات کر رہی ہوں تحریک طالبان پاکستان کے نئے سربراہ ملا فضل اللہ کی۔ یکم نومبر کوحکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد کافی دن نئے امیر کے نام پر مشاورت ہوتی رہی اور قرعہ فال ملا فضل اللہ کے نام نکلا۔ موصوف نے آتے ہی پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار اور حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کردیا ہے تو جناب پہلے کون سا ملا فضل اللہ کے دل میں پاکستان کے لئے درد تھا جو اب ان میں کوئی تبدیلی آجاتی، آپ جناب تو شروع سے ہی پور ے پاکستان میں متوازی حکومت قائم کرنے کے خواب دیکھتے رہے ہیں۔
ملا فضل اللہ 2005ء میں اس وقت منظر عام پر آیا جب سوات میں ملا ریڈیو کی نشریات کے ذریعے سے انہوں نے عوام الناس میں حکومت پاکستان کے خلاف نفرت آمیز پیغام پھیلانا شروع کئے ان کے پیغامات پاکستانی حکومت ،انسداد پولیو مہم ، مغربی ممالک اور خواتین کی تعلیم کے خلاف ہوتے تھے۔ 2009ء میں فوج کے سوات میں کامیاب آپریشن کے بعد ملا فضل اللہ نورستان (افغانستان) فرار ہوگیا اور افغانستان سے پاکستان کے خلاف کاروائیاں کرتے رہے۔
طالبان شوریٰ نے اپنا نائب شیخ خالد حقانی کو مقرر کیا ہے اور ان کے کارناموں کی فہرست بھی طویل ہے، شب قدر میں ایف سی پر حملہ، بشیر بلور اور اسفند یار ولی پر حملہ ان کے جرائم میں شامل ہے۔ میڈیا سے خاص نفرت رکھتاہے اورپاکستانی میڈیا کو دجالی میڈیا قرار دیتے ہویئے متعدد فتوے دے چکا ہے۔
اب پاکستان میں وہ لوگ جو حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد آنسو بہا رہے تھے اور انہیں شہید کے درجے پر فائز کر رہے تھے کیا وہ ملا فضل اللہ اور شیخ خالد حقانی کو مذاکرات کی ٹیبل پر لاسکتے ہیں؟؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ نئی طالبان قیادت پاکستان کے حالات پر کس طرح سے اثر انداز ہوگی۔ مذاکرات شروع ہوگے تھے یا نہیں ،حکیم اللہ محسود مذاکرات کے حق میں تھا یا نہیں اب کون سچ بول رہا ہے کون جھوٹ لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ ملا فضل اللہ اور خالد حقانی اس کے حق میں نہیں اور یہ دونوں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا بدلہ بھی لیں گے۔اب عوام کو ان کے غیض و غضب سے کون محفوظ رکھے گا حکومت پاکستان یا پاک فوج ،یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9246#sthash.fAfhMRA0.dpuf

Twitter @javerias