Posted in ArmyPublicSchool, Pakistan

بینش عمر شہید تمغہ شجاعت

11899792_10153093634323061_6483232467340070293_n

. جویریہ صدیق……آج ماں سے محبت کا عالمی دن ہے۔ ماں ایک ایسا رشتہ جو بے غرض بے لوث محبت کرتا ہے۔ماں جب اپنی آغوش میں اولاد کو لیتی ہے ایک زمانے کے غم مٹا دیتی ہے۔اس کی آغوش کی ٹھنڈک میں ہر درد کی تاثیر ہے۔ماں قربانی احساس اور ایثار کا دوسرا نام ہے۔ماں کی بانہوں کا حصار بچے کو وہ سکون دیتا ہے جو دنیا کی کسی اور نعمت سے حاصل نہیں۔ پشاور کی اٹھایس سالہ بینش عمر شہید تمغہ شجاعت بھی ممتا کے خمیر سے بنی تھی۔کمپیوٹر ساینس میں ایم اے کیا۔ عمرزیب بٹ کے ساتھ رشتہ ازداوج میں منسلک ہویی اور اللہ نے تین بار بینش کے آنگن میں اپنی رحمت کا نزول کیا۔بڑی بیٹی حباء منجھلی بیٹی عنایہ اور سب سے چھوٹی گڑیا عفف ۔ممتا کے عہدے پر فایز ہونے کے بعد بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا،پھر جب جاب کرنے کا فیصلہ کیا تو درس و تدریس کا انتخاب کیا۔بینش ایک نی نسل کو اپنے ہاتھوں سے پروان چڑھانے کی خواہش مند تھیں۔آرمی پبلک سکول پشاور میں تدریس کا آغاز کیا اور آٹھویں جماعت کو کمپیوٹر پڑھانے لگیں۔

بچوں کو ہر دل استاد بینش کوشش کرتی کہ کمپیوٹر کی تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ بچوں کی اخلاقی اور دینی اطوار پر تربیت کریں۔استاد اگر کم عمر ہو تو بہت جلد بچوں کا دوست بن جاتا ہے اور بچے بھی بلا جھجک اپنے مسایل استاد ساتھ زیر بحث لیے آتے ہیں۔بینش بھی اپنے طالب علموں کی بہترین دوست تھی۔ماں استاد اور دوست بینش نے سولہ دسمبر کو بھی اپنے بچوں کو تنہاہ نا چھوڑا۔سکول میں حباء کے جی کلاس میں تھی اور نھنی گڑیا عفف سکول کے ہی ڈے کیر میں تھی۔لیکن بینش نے اپنی اولاد کے بحایے اپنے روحانی بچوں کو فوقیت دی۔نہتی روحانی ماں نے دہشت گردوں کو للکارا معصوم بچوں کو جانے دو۔ان کا کیا قصور ہے۔بینش نے بچوں کو ہال سے نکالنے کی کوشش کی لیکن ظالم دہشت گرد جدید اسلحے کے ساتھ ہر طرف موجود تھے۔کچھ بچے نکلنے میں کامیاب بھی ہوگیے لیکن دہشت گردوں کی ایک گولی بنیش کے بازو میں پیوست ہویی اور وہ اسٹیج کے پاس گر گی اس کے بعد تو جسیے گولیوں کی بوچھاڑ ہوگی اور گردن میں لگنے والی گولی باعث بینش شہادت کے اس رتبے پر فایز ہوگیں ۔

بینش دنیا سے چلی گیئں لیکن زندہ جاوید ہوکر جب بھی طالب علم استاد کی عظمت کے بارے میں پڑھیں گے تو تاریخ کے اوراق پر روحانی ماں استانی بینش عمر شہید کا نام جلی حروف سے لکھا ہویا پایں گے۔بینش عمر شہید تمغہ شجاعت کے شوہر عمر زیب بٹ کہتے ہیں کہ میں نے اور بینش نے ساتھ تعلیم حاصل کی۔اپنی بہترین دوست کو ہی میں نے اپنا شریک حیات چنا۔بینش کہ آتے ہی میری زندگی میں بہار آگی خوش اخلاق سب سے شفقت اور احترام سے ملتی بینش پل بھر میں سب کو گرویدہ بنا لیتی۔امور خانہ داری میں ماہر مجھے ہر چیز بس تیار ملتی۔میرے والدین کی خدمت اپنے والدین کی خدمت اور ساتھ میں درس و تدریس لیکن کبھی تھکن کا شایبہ نہیں۔پندرہ دسبمر کو مجھے آفس فون کیا اور کہا کہ ایک عزیزہ ہسپتال میں داخل ہیں ان کی عیادت کے لیے جانا ہے۔میرے ساتھ گی ان کی خیریت دریافت کی بعد میں ہم بچوں کو بھی چیک اپ کے لیے گیے دو بیٹوں کی طبعیت ناساز تھی ۔میں نے بینش سے کہا بھی کہ کل سکول مت جاو لیکن بینش نے کہا چھٹی کرنے سے روحانی بچوں کا حرج ہوتا ہے۔

سولہ دسمبر عناییہ تو گھر پر ہی تھی لیکن حباء اور عفف بینش کے ساتھ ہی سکول گیں۔جب میں آفس جانے لگا تو روز کی طرح بینش میری ہر چیز تیار کرکے گی ہویی تھی،عناییہ کے لیے بھی ہر چیز رکھی ہویی تھی ۔میں آفس چلا گیا۔کہ اچانک دوست نے بتایا کہ آرمی پبلک سکول ورسک روڈ پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا۔میں دوست کے ساتھ ہی وہاں پہنچا بینش کو بہت فون کیے امید یہ ہی تھی کہ بینش خیریت سے ہوگی سب بچے محفوظ ہوں گے۔نا ہی بینش کا پتہ چل رہاتھا نا ہی میری دونوں بیٹوں کا ۔آرمی کا آپریشن چل رہا تھا تو ہم سکول میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔میری بیٹاں تو آرمی نے باحفاظت اپنی تحویل میں لے لیں تھیں اور ان کو قریب ہی محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا میرا بھایی انہیں لے کر گھر چلا گیا مجھے مزید حوصلہ ہوا کہ میری دوست میری محبت میری غم گسار بینش زندہ ہوگی۔لیکن تلاش اس وقت ختم ہویی جب ہسپتال میں شہید ہونے والوں کی فہرست میں بینش کا نام سرفہرست تھا۔میں ہسپتال گیا تو قیامت صغری برپا تھی ہر طرف چیخ و پکار نھنے بچوں کی کفن میں لپٹی ہویی لاشیں۔میں کیا پورا پشاور شہر رو رہا تھا کہ اتںے بے گناہوں کا خون ایک ساتھ پہلے کبھی نا بہا تھا۔میں بینش کو ڈھونڈتا رہا ایک کفن میں لپٹے ہویے جسد خاکی کا ہاتھ کچھ باہر تھا وہ میری بینش کا ہاتھ تھا۔’

بینش چلی گی اپنی جان اس وطن کے لیے قربان کرگی لیکن عمر بٹ کے مطابق حباء عنایہ تو اس عمر میں ہی نہیں ہیں کہ انہیں اپنی ماں کی قربانی کا ادراک ہو۔چار سال کی حباء ہر وقت اپنی ماں کا ڈوپٹہ لیے پھرتی ہے اور عنایہ کو کہتی ہے کہ میں ہو بنیش تمہاری ماما۔کبھی اپنی ماما کے جوتے پہن لیتی ہے تو کبھی ماما کی جیولری پہن کر گھر گھر کا کھیل کھیلتی ہے۔جب رات ہوتی ہے تو یہ دونوں روتی ہیں کہ ماما کہاں ہیں تو میں خود کو بہت بے بس محسوس کرتا ہوں کہ ماں کا لمس ان کے لیے نہیں لا سکتا۔عفف تو صرف چار ماہ کی تھی جب بینش چلی گی وہ تو اس کرب سے ابھی آشنا نہیں جس سے حباء اور عناییہ گزر رہی ہیں۔میں میری والدہ اور ساس ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ تینوں بچیوں کو کسی چیز کی کمی نا ہو لیکن والدہ کی کمی کویی پورا نہیں کرسکتا۔بینش کی شہادت کے بعد میری بیٹی حباء نے چند ہی روز بعد پارک جانے کی ضد کی میری لیے سوگ کی کفیت میں اسے پارک لیجانا مشکل تھا لیکن اس ضد کے آگے ہار مان کر جب میں پارک گیا تو وہ پارک میں بھی بینش کو دھونڈتی رہی کہ کہیں سے ماں سامنے آجایے اور ماں کو یاد کرکے زاروقطار روتی رہی۔اس وقت میرے دل پر جو گزری وہ میرا اللہ ہی جانتا ہے۔میں اپنی بچیوں کو ہر ہفتے انکی شہید ماں کی قبر پر لے جاتا ہوں ہم اس کی قبر پر فاتحہ پڑھتے ہیں اور پھولوں سے اسے سجا دیتے ہیں۔اب چند دن پہلے ابھی ہم عمرے پر گیے تب بھی پاکستان سے سرزمین حجاز تک بینش کا ڈوپٹہ حباء کے ساتھ رہا۔’

انیس سو سنتالیس میں پاکستان کے قیام کے وقت میرے خاندان کے سترہ افراد نے جام شہادت نوش کیا تھا اور سولہ دسبمر کو بنیش بھی پاکستان پر قربان ہوگی۔مجھے اپنی اہلیہ کی قربانی پر فخرہے۔جب تک میری اہلیہ حیات رہی اس کی زندگی کا مقصد بچوں کی اچھی تربیت تھا۔اس نے اپنے شاگردوں کی جان بچاتے ہویے اپنی جان قربان کی اور استاد شاگرد کے رشتے کو امر گرگی۔ہر بچہ کے لیے وہ ماں کی شفقت رکھتی تھی وہ اکثر کہتی تھی یہ میرے شاگرد نہیں میرے بیٹے ہیں۔گذشتہ برس عالمی یوم ماں پر بینش نے پورے گھر کو سجایا میری اور اپنی والدہ کو تحایف دیے اور ہماری بیٹیوں کو بھی اس دن کی اہمیت سے آگاہ کیا۔اس ماں کے عالمی دن پر میری بچیوں کے ماں ان کے پاس نہیں لیکن میں اپنی بیٹوں کے ساتھ میں یہ دن اپنی شہید اہلیہ کی قبر پر حاضری دیے کر منا رہا ہوں ۔میری بیٹاں اپنی شہید ماں کے لیے کارڈز اور پھول لے کر ان کی قبر کے پاس مدرز ڈے منا رہی ہیں

۔میرے خاندان نے قیام پاکستان کے لیے قربانی دی اور اب بینش نے اس ملک کی بقا کے لیے قربانی دی۔یہ وقت میری معصوم بیٹیوں کے لیے بہت کٹھن ہے لیکن بڑے ہوکر انہیں اپنی ماں پر فخر ہوگا۔میری گزارش ہے کہ حکومت اور آرمی ملک سے دہشت گردوں کا خاتمہ کردیں اور سانحہ پشاور کے مجرمان ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچایں ۔لواحقین کے ساتھ تمام معلومات شئیر کی جایں۔اب وقت آگیا ہے تمام پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا اور ہمیں اپنی افواج اور حکومت کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا۔مجھے میری اہلیہ بنیش عمر شہید تمغہ شجاعت پر فخر ہے اس نے ایک عظیم ماں ایک عظیم استاد کی صورت میں اپنے روحانی بچوں کے لیے اس وطن کے لیے اپنی جان قربان کردی –

Posted On Sunday, May 10, 2015  

 

Posted in ArmyPublicSchool

شہیدصائمہ طارق جرات وعظمت کی مثال

10891447_500767603397936_768906388404956407_n

…جویریہ صدیق..….

گھر سے باہر جو پہلا رشتہ کسی بھی بچے کا ماں باپ کے بعد قائم ہوتا ہے وہ ہے استاد اور شاگرد کا رشتہ۔استاد کو روحانی ماں باپ کا درجہ حاصل ہے۔بچہ ماں کی گود سے نکل کر جب درسگاہ آتا ہے تو اس کی شخصیت کو بنانے میں اساتذہ کرام کا سب سے بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔بچہ جب تین سال کی عمر میں اسکول پہنچتا ہے تو روتا ہے مچلتا ہے کہ ماں باپ کے بنا اسے کہیں بھی نہیں رہنا وہ بار بار روتا ہے اور گھر جانے کی ضد کرتا ہے لیکن استاد اس بچے کا ننھا منا ہاتھ پکڑ اسے درسگاہ میں لا تا ہے وہ ایک شفقت بھرا لمس بچے کو غیر مانوس جگہ سے انسیت پیدا ہونے میں مدد دیتا ہے۔ استاد ہرجگہ بچے کا مددگار ہوتا انہیں لکھنا سکھاتا ہے، پڑھنا دین کی سمجھ دنیوی تعلیم اور معاشرے میں جینے کا طریقہ اور آگے چل کر یہ ہی استاد بچوں کو ترقی کرتا دیکھ کر فخر کرتے ہیں۔
آرمی پبلک اسکول میں بھی گیارہ سو سے زائد بچے ایسے ہی استاتذہ کے زیر چھائوں تعلیم حاصل کرنے میں مگن تھے۔جب والدین صبح اپنے بچوں کو اسکول چھوڑ کرجاتے تو یہ استاتذہ مسکراتے ہوئے بچوں کا استقبال کرتے۔ کتنے ہی چھوٹے چھوٹے بچے جب صبح ماں کے پہلو کے ساتھ چپک کر روتے تو یہ ہی استاتذہ اپنے ہاتھوں سے ان کے آنسو پونچھ کر گلے لگاتے اور تسلی دیتے کہ وہ سکول میں اکیلے نہیں ان کے لیے پیار شفقت تعلیم سب ہی کچھ موجود ہے۔نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے بچے تو اب استاتذہ کے دوستوں میں شمار ہوتے ۔ان کی تعلیم سے لے کر ان کے غیر نصابی مشاغل میں استاتذہ ان کے ہم قدم ان کی رہنمائی کرنے لیے موجود۔
اس ہی اسکول میں ایک ہر دل استاد صائمہ طارق بھی تھیں۔جنہوں نے اساتذہ کی تاریخ میں رحم دلی پیار محبت ایثار کی نی داستان رقم کر ڈالی۔آٹھویں کلاس کی ٹیچر جن کے ذمہ تمام سکیشنز کی انگریزی کی کلاس تھی۔صائمہ طارق شہید مردان سے تعلق رکھتی تھیں اور بی اے کرنے کے بعد ہی تدریس کا عمل شروع کردیا۔تدریس کے ساتھ تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا پہلے انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور بعد میں ایجوکیشن میں ایم فل۔انیس سو اٹھانوے سے تدریس کا آغاز کیا اور مردان کے عزیز بھٹی شہید اسکول میں پندرہ سال تعلیم کی روشنی بانٹتی رہیں۔پاک فوج کے بریگیڈیر طارق سعید کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور شادی کے بعد بھی تدریسی عمل ترک نا کیا۔اپنے شوہر کی ٹرانسفر کی وجہ سے پشاور میں سکونت اختیار کی اور چھبیس اکتوبر کو آرمی پبلک سکول ورسک روڈ جوائن کیا۔
جلد ہی صائمہ طارق کا شمار آرمی پبلک سکول ورسک روڈ میں زیرتعلیم بچوں کی ہر دلعزیز ٹیچر میں ہونے لگا آٹھویں جماعت کی کلاس ٹیچر ہونے کے ساتھ دیگر سکشینز کو انگریزی پڑھانے کا ذمہ بھی انہیں ملا۔صائمہ طارق نے ایم فل کے بعد پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ کیا تو بریگیڈیر طارق سعید نے انہیں کچھ عرصہ تدریسی عمل سے بریک لینے کا مشورہ دیا لیکن انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں گھر اسکول اور تعلیم کا سلسلہ آرام سے ہینڈل کر لو ںگی آپ فکر نا کریں ۔سولہ دسمبر کی صبح صائمہ طارق تہجد کی نماز پڑھنے کے بعد طالب علموں کی کاپیاں چیک کرنے لگیں ،کچن کے ضروری کاموں کو انجام دینے کے بعد اسکول کے لیے روانہ ہوگئیں ۔اہل خانہ کے مطابق گھر میں ملازمین ہونے کے باوجود وہ گھر کے سب کام خود کرنا پسند کرتی تھیں۔تہجدکے ساتھ ساتھ پانچ وقت کی نماز باقاعدگی سے پڑھا کرتی تھیں۔
اسکول میں تدریسی عمل کا آغاز ہوا اور صائمہ طارق کی کلاس نے ہال میں آرمی میڈیکل کور سے ابتدائی طبی امداد کی ٹرینگ لینا تھا۔صائمہ طارق تمام بچوں کو لے کر ہال میں گئیں اور نویں کلاس کے طالب عملوں نے بھی انہیں جوائن کرلیا۔تمام بچے اپنے استاتذہ کے ساتھ ہمہ تن گوش تھے اور ابتدائی طبی امداد سیکھنے لگے۔کسی زی روح کے گمان میں بھی یہ نا تھا کہ موت کے کالے سائے ان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔اسکول میں فرسٹ ائیر سکینڈ ائیر کا پرچہ بھی تھا۔تدریسی عمل معمول کے مطابق جاری تھا کہ عینی شاہدین کے مطابق اچانک اسکول سے فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں۔معصوم بچے سہم گئے اور استاتذہ نے ہال کے دروازے بند کردیے تاکہ بچے محفوظ رہ سکیں۔
لیکن ایسا نا ہوسکا طالبان نے ہال کے دو داخلی دروازے توڑ دیے اور موت بن کر بچوں پر گولیاں برسانا شروع کردیں۔ہال میں موجود ٹیچرز نے ہمت نا ہاری اور دہشت گردوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گئیں۔انہوں نے بچوں کو ہال سے بھاگنے کے لیے کہا تاکہ بچے اپنی جان بچاسکیں لیکن ظالم دہشت گردوں نے ہال میں موجود صائمہ طارق پر کیمیکل پھینک کر انہیں زندہ جلا دیا اور سحر افشاں ،سیدہ فرحت کو گولیاں مار کے شہید کیا گیا ،ان خواتین استاتذہ کے آخری الفاظ یہ ہی تھے کہ بچوں جائو اپنی جان بچائو متعدد بچے ہال سے نکلنے میں کامیاب بھی ہوگئے لیکن شہید صائمہ طارق،شہید سیدہ فرحت اور شہید سحر افشاں سمیت ایک سو پچاس افراد جن میں بیشتر بچے تھے اس دہشت گردی کے واقعے میں جام شہادت نوش کیا۔
آرمی کی کوئیک رسپانس ٹیم اور ایس ایس جی کمانڈو پندرہ منٹ کے اندر اندر سکول پہنچے اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا لیکن دہشت گرد کسی کو یرغمال بنانے نہیں آئے تھے ان کا مقصد صرف خون کی ہولی کھیلنا تھا۔آرمی پبلک اسکول کی پرنسل طاہرہ قاضی،استاتذہ اور 135 پھولوں نے اس سانحے میں شہادت پائی۔یوں ان سب نے بہادری اور جرات کی وہ داستان رقم کی ہے جو تا قیامت یاد رکھی جائے گی۔
صائمہ طارق شہید کو جب مردان میں دفن کیا گیا تو ان کے شاگرد دھاڑیں مار مار کر روتے رہے پندرہ سال مردان کے عزیز بھٹی شہید اسکول میں وہ ایک نسل کو تعلیم سےلیس کرگئی تھیں۔ ایک شاگرد کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ میں اپنی پیدا کرنے والی ماں کو تو بھول سکتا ہوں لیکن اپنی روحانی ماں صائمہ طارق کو کبھی فراموش نہیں کرسکتامیں آج جو کچھ ہوں اپنی استاد شہید صائمہ کی وجہ سے ہوں۔آرمی پبلک اسکول ورسک روڈ کے طالب علموں کا کہنا تھا کہ صائمہ طارق کا شفیق چہرہ ہم کبھی بھول نہیں سکتے ہیں اللہ نے ہماری میم کو شہادت جیسے بڑے رتبے پر فائز کیا ہے اور ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ ان سمیت ہمارے دیگر شہید ہونے والے استاتذہ کو بہادری کے تمغوں سے نوازا جائے۔
صائمہ طارق کے گھر والوں کا صبر کا قابل دید ہے ان کے شوہر بریگیڈیر طارق سعید ان کے بچے اور خاندان کے دیگر لوگ صائمہ طارق کی بہادری پر نازاں ہیں کس طرح اپنی جان کی پرواہ نا کرتے ہوئے روحانی ماں نے اپنے شاگردوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔اہل خانہ کے مطابق صائمہ بہت ہی ملنسار اور رحم دل شخصت کی مالک تھیں ان کی زندگی کا نصب العین صرف اور صرف بچوں میں علم کی روشنی بانٹنا تھا۔وہ صوم وصلوٰــۃ کی پابند تھیں اور بچوں کو بھی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دین اسلام پر عمل کرنے کی تلقین کرتی تھیں۔صائمہ شہید گھریلو کاموں میں بھی بہت دلچسپی لیتی تھیں اور خاص طور پر نت نئے کھانے بنانے کا شوق رکھتی تھیں۔اہل خانہ کے مطابق صائمہ شہید فوٹوگرافی کی بہت شوقین تھیں فون سے تصاویر لینے میں ماہر تھیں اس کے ساتھ ساتھ کیمرے سے بھی لمحات کو قید کرنے کی شوقین تھیں۔
صائمہ طارق کے اہل خانہ کے مطابق تصاویر کا ایک بہت بڑا ذخیرہ تو صائمہ کے ساتھ ہی چلا گیا جوکہ ان کے فون میں موجود تھا لیکن ان کے لکھے ہوئے مضامین اور افسانے گھر کے کمپیوٹر میں محفوظ تھے جوکہ اب ان کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔صائمہ طارق کے اہل خانہ کے مطابق ان کا پاکستان کے رہنے والوں کے لیے یہ ہی پیغام ہے ہمیں صائمہ طارق شہید اور دیگر شہدا کی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دینا ہم سب کو مل کر دہشت گردی کے خلاف جہدوجہد کرنا ہوگی اور اس سوچ کو شکست دینا ہوگی جو دہشت گردی کو اس ملک میں پروان چڑھا رہی ہے۔ہمیں فخر ہے کہ صائمہ طارق نے اپنے شاگردوں کو بچاتے ہوئے اس ملک اور اپنے روحانی بچوں کے لیے جان قربان کی۔

آتش و دہن میں کھڑی تھی تو
گلشن کے تحفظ میں کڑی تھی تو
درندے گھس آئے تھے وہاں
معصوم کلیوں کا تھا جو گلستاں
استاد بڑے شجیع ہوتے ہیں
سمندر جیسے وسیع ہوتے ہیں
شہید ہو کر امر ہوئی
وحشت پر ممتا لے گئی بازی

Javeria Siddique

Contact at https://twitter.com/#!/javerias

Posted On Monday, December 22, 2014

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10466#sthash.C8ypURJ2.dpuf