Posted in Pakistan

سانحہ یوحنا آباداورمظاہرین کا ردعمل

  Posted On Monday, March 16, 2015   ……جویریہ صدیق…..
لاہور میں یوحنا آباد کے کرائسٹ اور کیتھولک گرجا گھروں پر دو خود کش دھماکوں کے نتیجے میں15 افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے جبکہ متعدد زخمی ہیں۔ دھماکے کے بعد ہر طرف خوف و ہراس اور بھگدڑ مچ گئی۔جاں بحق افراد میں ایک خاتون ، دو بچے اور دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔گرجا گھروں میں دعائیہ سروس جاری تھی کہ خود کش حملہ آوروں نے مرکزی گیٹ سے اندر داخل ہونے کی کوشش کی ۔تاہم گارڈ اور رضا کارکی مزاحمت پر وہ چرچ میں داخل نا ہوسکے تو انہوں نے فائرنگ شروع کردی اور مرکزی دروازے پر ہی خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ ۔بم دھماکے اور فائرنگ کے نتیجے میں 15 افراد جاں بحق اور70سے زائد زخمی ہوگئے۔واقعے کی اطلاع ملتے ہی اہل علاقہ مشتعل ہوگئے، انہوں نے دو مشکوک افراد کو پکڑ کر مارا پیٹا اور بعد ازاں انہیں نذر آتش کردیا۔غصہ صرف یہاں ہی ختم نہیں ہوا تین پولیس اہلکاروں کو پکڑ کر زدوکوب کیا ، سڑکوں پر گھسیٹا اور بعد میں انہیں ایک دوکان میں گھنٹوں بند رکھا۔اس کے بعد مشتعل ہجوم نے گجومتہ میں میٹرو بس ٹریک کو نقصان پہنچایا اور لوٹ مار کی ۔

دوسری طرف صوبائی حکومت نے بھی امدادی کاموں میں سستی دکھائی جس نےاور جلتی پر تیل کا کام کیا۔یوحنا آباد سے زخمیوں کو عوام خود ہی اپنی مدد آپ کے تحت اسپتال پہنچایا۔یوں تو پاکستان میں مسیحی برادری بہت پرامن ہے لیکن یوحنا آباد میں مسیحی بھائیوں کا احتجاج پرتشدد ہوگیا۔اگر ان تمام واقعات کے فوٹیج کو غور سے دیکھا جائے تو ہجوم کا حصہ نوجوانوں اور بچوں پر مشتمل تھا۔جس وقت جائے وقوعہ سے پکڑے جانے والے مشکوک شخص کو مارا جارہا تھا تو ادھیڑ عمر افراد کے ساتھ سات سے آٹھ سال کے بچے بھی اس شخص کو مار رہے تھے ۔جب مشکوک شخص کو جلایا گیا تب بھی نوجوان اور بچے اس ہجوم میں پیش پیش تھے۔ اس کے علاوہ اگر میٹرو ٹریک پر ہنگامہ آرائی کرنے والے نوجوانوں کی عمریں بھی15 سے18 سال تھیں۔یہ ہجوم اشتعال میں دو افراد کو جلا گیا۔پولیس پر تشدد کرتا رہا اور اس ہجوم نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔جس طرح خود کش حملہ بدترین دہشت گردی ہے اس ہی طرح یہ ہنگامہ آرائی اور لوگوں کو جلا دینا بھی دہشت گردی کے ہی زمرے میں آتا ہے۔

ماہر نفسیات رابعہ منظور کے مطابق اس ہجوم کی نفسیات کے پیچھے بہت سے عوامل کار فرما ہیں ۔بم دھماکے میں بہت سے لوگوں کا ایک دم جان سے چلے جانا کچھ لوگوں کو بہت افسردہ اور کچھ کو بہت اشتعال دلا جاتا ہے۔جس ہجوم نے آج دو افراد کو جلایا ، پولیس کو زدوکوب کیا اور توڑ پھوڑ کی وہ بہت زیادہ غصے ،اشتعال اور مایوسی کا شکار تھے۔ مسیحی برادری پر حملے نئے نہیں ،پشاور میں چرچ پر حملہ میں85 افراد کا جاں بحق ہونا، کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلا دینا ،سانحہ گوجرہ، مشنری اسکول پر حملے ،شہباز بھٹی کا قتل ، لاہورجوزف کالونی میں100سے زائد مسیحی افراد کے گھر جلا دئیے گئے، یہ سب ان واقعات کا ردعمل ہے کیونکہ کسی بھی معاملے میں انصاف نہیں ملا۔جب انصاف نا ملے تو لوگ ہجوم کے ذریعے سے انصاف لینے کی کوشش کرتے ہیں جو بہت خطرناک ہے اور معاشرتی اقدار کے منافی ہے۔

رابعہ منظور نے کہا اس واقعے میں کم عمر بچے بھی پرتشدد ہجوم کا حصہ تھے۔بچے عام طور پر جلدی اشتعال میں آجاتے ہیں اور اپنے غصے و جذبات کا اظہار انہوں نے اس طریقے سے کیا کہ سرکاری املاک پر حملے کرتے رہے۔ اگر قانون نفاذ کرنے والے ادارے اور امدای کارکن فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ جاتے تو یہ صورت حال نا ہوتی ۔ ان کے مطابق بچے اپنی کم عمری جذباتی طبیعت اور نا سمجھی کے باعث ایسے واقعات کا حصہ بن جاتے ہیں۔کسی بھی سانحے کے بعد بدلہ یا انتقام کی آگ ان واقعات کا سبب بن جاتی ہے۔

یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کے شعبہ عمرانیات کے استاد ثمریز حفیظ کے مطابق اگر اس خطے کی تاریخ دیکھی جائے تو یہاں کے باشندے بہت پر امن رہے ہیں لیکن اب واقعات اور حالات نے عوام کو بہت جذباتی اور پر تشدد بنا دیا ہے۔ افغان جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ نے حالات کو یہاں یکسر تبدیل کردیا ہے۔اس کے ساتھ قانون نفاذ کرنے والے اداروں کا عوام کے ساتھ نا تعاون کرنا بھی ایسے واقعات کو جنم دیتا ہےجس میں ہجوم خود ہی منصف بن کر فیصلہ سنا دیتا ہے۔پاکستان میں پولیس کا رویہ جس میں وہ ہمیشہ انصاف کے متلاشی افراد کو تنگ ہی کرتے ہیں ان کے ساتھ بالکل بھی تعاون نہیں کرتے یہ سب عوام کو بددل کرکے قانون اور انصاف کو اپنے ہاتھوں میں لینے پر مجبور کرتا ہے۔ریاست اپنے فرایض کی ادائیگی میں مکمل ناکام ہے جب عام آدمی کو بنیادی حقوق ہی میسر نہیں، تعلیم کا فقدان ہے تو ہجوم کی صورت میں ہم عوام سے کیا امید کرسکتے ہیں۔اگر پولیس اور ریاست کا رویہ یہ ہی رہا اور لوگوں نے سڑکوں پر انصاف لینا شروع کردیا تو یہ معاشرے، نظام انصاف اور حکمرانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

ماہر نفسیات رابعہ منظور کے مطابق اگر امن امان کی صورتحال کو بہتر کیا جائے لوگوں کو انصاف بر وقت ملے تو ان واقعات کا سدباب ہوسکتا ہے ۔ اس کے ساتھ تعلیم اور بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی ہجوم کو منظم کرسکتی ہے۔ پیار ایثار اور ہمدردی سے بھی ہم معاشرے میں بھائی چارہ قائم کرسکتے ہیں۔ ہجوم کا انصاف معاشرے کے لیے بہت بھیانک ثابت ہو سکتا ہے اس لیے حکومت اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے فوری طور پر اس مسئلے کی طرف متوجہ ہوں ۔مہذب معاشرے میں ہجوم کا انصاف بالکل جگہ نہیں رکھتا۔حکومت کو چاہیے کے یوحنا آباد کے رہائشیوں کی داد رسی کرے اور ان کے علاج معالجے میں کوئی کسر نا چھوڑی جائے۔ماہرعمرانیات ثمریز حفیظ کے مطابق اس طرح کے واقعات کا سدباب تب ہی ممکن ہے جب ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے اور بنیادی انسانی حقوق عوام کا حق ہے اس لیے عوام کے تحفظ کے لیے ریاست اپنا کردار ادا کرے صرف مذمت کافی نہیں ہے۔ اقلیتوں کا تحفظ معاشرے کا فرض اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔
Javeria Siddique writes for Jang
twitter@javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10747#sthash.Nkm08OXb.dpuf

Posted in Pakistan

سانحات اور قیادت کی بے حسی‎

  Posted On Monday, February 16, 2015   ……جویریہ صدیق……
پاکستان میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عوام کے تحفظ میں بالکل ناکام نظر آرہے ہیں ۔ سال کی شروعات میں پندرہ دن کے وقفے سے دو امام بارگاہوں کونشانہ بنایا گیا۔شکار پور شہر میں مسجد میں73 نمازی دہشت گردی کا شکار ہوئے اور پشاور میں21 افراد نماز کے دوران دہشت گردوں کی بربریت کا نشانہ بنے۔
دھماکے میں جاں بحق ہونے والے صرف عدد نہیں ہوتے جیتےجاگتے انسان ہوتے ہیں ۔ا ن سے وابستہ کئی لوگوں کی زندگی کا محور صرف وہ ہی ہوتے ہیں۔کتنے ہی جان سے جانے والے گھر کا واحد کفیل ہوتے ہیں۔دھماکے خودکش حملے میں جب لوگوں اچانک اس دنیا سے چلے جاتے ہیں تو اس غم کا اندازہ صرف وہ ہی لگا سکتے ہیں جس کا پیارا اس دنیا سے جاتا ہے۔ہر روز پاکستان میں یہ موت کا کھیل جاری ہے، کبھی دھماکا کبھی ٹارگٹ کلنگ،کبھی خود کش حملہ ہر روز پاکستانیوں کا خون بہتا ہے۔خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں صوبہ خیبر پختون خواہ کی قربانیاں بہت زیادہ اس صوبے میں ہر چوک سڑک کسی نا کسی شہید یا سانحے سے منسوب ہے اس صوبہ کا ہر گوشہ اس صوبے پر ہونے والے مظالم کی داستان سناتا ہے۔16 دسمبر کو آرمی پبلک سکول میں 145 افراد نے جام شہادت نوش کیا جن میں 135 بچے تھے۔اس کے بعد توقع یہ ہی تھی کہ اب شاید عوام کے لیے کچھ سیکورٹی کا خاطر خواہ بندوبست کیا جائے گا لیکن شکار پور کا سانحہ اور پشاور میں امامیہ امام بارگاہ میں حملہ حکومتی دعووں کا پول کھولنے کے لیے کافی ہے۔
عوام اپنے اپنے علاقوں سے سیاسی اراکین کو اس لیے منتخب کرتے ہیں کہ وہ ان کی خدمت کریں لیکن یہاں سیاستدان صرف سیاست پر ہی یقین رکھتے ہیں عوام کی خدمت تو ان کے ایجنڈے میں ہی شامل نہیں۔اس وقت پھی سینیٹ الیکشن تمام سیاستدانوں کی پہلی ترجیح ہے، باقی دیگر ملکی مسائل کی کوئی وقعت ہی نہیں۔کس کو ٹکٹ دینا ہے کون زیادہ موزوں ہوگا کس کس کو سینٹ میں نواز کر ان کے احسانات کا بدلہ چکانا اس وقت زیادہ ضروری ہے۔باقی رہے عوام تو جب بھی کوئی دھماکہ ہوتا ہے تو بڑے لیڈران تو یہ کہہ کر خود کو علیحدہ کر لیتے ہیں کہ ہم تو جائے وقوعہ کا دورہ کرنا چاہتے تھے لیکن سیکورٹی کلیرنس نہیں ملی ۔سیاستدان ٹویٹ اور ٹی وی پر آکر عوام سے ہمدردی کرلیتے ہیں اور اس موقع پر بھی مخالف پارٹی کو نیچا دیکھانے سے باز نہیں آتے۔جو کوئی مقامی قیادت لواحقین سے ہمدردی کے لیے پہنچ بھی جائے تو اپنی پارٹی کے جھنڈے اور پوسٹر لیجانا نہیں بھولتے۔آخر کو جان ہیتھلی پر رکھ کر عوام کے درمیان آئے تو اس موقع کو کیش ناکروائیں وہ ؟ لواحقین کے ساتھ تصاویر لے کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کروانے کے بعد نو دو گیارہ۔
کیا کبھی کس نے یہ سوچا ہے کہ دہشت گردی میں مرنے والا کتنا زندہ دل تھا ؟ اس کے دل میں کتنے خواب تھے ؟ اس کو زندگی سے کتنا پیار تھا ؟ وہ زندگی میں کیا کرنا چاہتا تھا اور اس کے قبر میں اتر جانے کے بعد پیچھے کتنی زندہ لاشیں اس کے گھر میں رہ گئی ہیں۔ایسا بہت ہی کم لوگ سوچتے ہیں یہاں دھماکا ہوا نہیں اور سیاسی جماعتیں میدان میں اتر جاتی ہیں ایک دوسرے پر گندگی اچھالنے کے لیے ہر مسئلے پر سیاست حالانکہ جس وقت کوئی بھی سانحہ ہوتا ہے تو عوام کو ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے پر افسوس ہمارے ہاں فوری طور پر اس پر سیاست شروع ہوجاتی ہے مرکزی حکومت صوبائی حکومت پر الزام دیتی ہے اور صوبائی مرکزی پر، اور یوں ایسا لگتا ہے سانحہ کا سبب عوام خود ہی ہیں جنہوں نے بے حس حکمرانوں کو خود پر مسلط کیا۔
شکار پور جیسےچھوٹے شہر میں نمازیوں پر حملہ ہوتا ہے ایک نسل کو ہی مٹا دیا جاتا ہے لیکن ملک کے بڑے بڑے لیڈران کو وقت ہی نہیں ملتا کہ وہ اس شہر کے باسیوں کے زخموں پر مرہم رکھ سکیں۔کسی نے سوچا ہے کہ73 افراد کے لواحقین کے ان کے بنا کیسے گزر بسر کریں گے؟ ان کی مائوں، بہنوں اور بچوں کی کفالت کون کرنے گا ؟نہیں کوئی اس طرف دیکھنے کو بھی تیار نہیں۔اسی طرح 13فروری کو جمعے کی نماز میں پشاور میں اہل تشیع نشانہ بنتے ہیں تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اب بھی خیبر پختونخوا دہشت گردوں کے نرغے میں ہے ان کا جہاں دل کرتا ہے کاروائی کرتے ہیں اور کئی پاکستانیوں کی زندگی کے چراغ گل کرجاتے ہیں۔
اکثر ان سانحات کے بعد وزیر داخلہ گھنٹوں پر محیط تقریر کرنے آجاتے ہیں جس میں وہ بتاتے ہیں کہ ہمیں تو پہلے ہی اطلاع تھی اگر جناب پہلے ہی اطلاع تھی تو آپ نے دہشت گردی کو روک کیوں نہیں پاتے ؟ پھر کہتے ہیں ہمیں خود کش حملہ آور کا سر مل گیا کبھی انگلی وغیرہ وغیرہ، وہ تو جیسے بایو میٹرک شاختی کارڈ یا سم لیے گھوم رہے ہیں نا جو آپ اس کی انگلی سے اسکا پورا حدود اربع نکال لیں گے۔اب بہت ہوگیا حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی ذاتی جنگ لڑنا بند کرے۔عوام کی خدمت کا آغاز کریں اگر اپنے ہی ووٹرز کے گلی محلوں میں نہیں آسکتے ان کی داد رسی نہیں کرسکتے تو بہتر یہ ہی کہ آپ اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں۔صلاح الدین ایوبی نے کہا تھا حکمران جب اپنی جان کی حفاظت کو ترجیح دینے لگیں تو وہ ملک اور قوم کی آبرو کی حفاظت کے قابل نہیں رہتا۔
ملک میں فرقہ وارنہ دہشت گردی ایک بار پھر سر اٹھا رہی اور جمہوری حکومت اس کو روکنے میں مکمل ناکام نظر آرہی ہے۔امامیہ مسجد اور شکارپور میں جان سے جانے والے بھی اتنے ہی مسلمان اور پاکستانی ہیں جتنے آپ ہم سب ہیں۔پاکستانیوں کو اب فرقوں اور نسل کے رنگ و فرق سے نکلنا ہوگا۔جن تک ہم متحد نہیں ہوں گے ہم دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ پولیس کو جدید طرز پر تربیت دے اور ماڈرن ٹیکنالوجی سے لیس کرے تاکہ وہ عوام کا صحیح معنوں میں دفاع کرسکیں۔پاکستان کے اندر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مکمل کریک ڈائون کیا جائے،مدارس کی اسکروٹنی کی جائے ،دہشت گردوں سے ہمدردی کو ناقابل معافی جرم بنایاجائے۔اب ہمیں اپنا دوغلا رویہ ختم کرنا ہوگا ۔ اچھے طالبان اور برے طالبان کی رٹ گردانا بند کرنا ہوگی۔ سارے ہی دہشت گرد برے ہیں اور ہمیں قوم کو اس عذاب سے نجات دلانا ہوگا،انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔کب تک ہم دوسروں کے مفادات کی جنگ اپنے ملک میں لڑیں گے ہم سب کو اب صرف پاکستان کا مفاد سامنے رکھ کر سوچنا ہوگا۔
اب تک 70ہزار سے زائد پاکستانی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانیں گنواچکے ہیں، جن میں 135 بچوں کے جنازے ایک ہی دن میں اٹھائے گئے۔اب ہم سب کو اپنی ذمہ داری سمجھنا ہوگی۔فوج سرحدوں پر ہمارا دفاع کررہی ہے دہشت گردوں کے خلاف بھی بر سرپیکار ہے ، اب پولیس کو جدید زمانے کے لحاظ سے تربیت دینا ناگزیر ہوگیا ہے، پولیس 25،30سالہ پرانے اسلحے سے جدید ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔اس کے ساتھ ساتھ گلی محلوں میں امن کمیٹیاں بنائی جائیں جومشکوک افراد پر نظر رکھیں، یہ کمیٹی پولیس کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے۔پولیس بھی ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرے۔عوام کو ایک بار پھر سے این سی سی کی ٹریننگ شروع کروائی جائے جس میں انہیں ہنگامی حالت کا مقابلہ کرنا سکھایا جائے، اس کے ساتھ ابتدائی طبی امداد بھی سکھائی جائے کہ کسی حادثے یا سانحے کی صورت میں کس طرح اپنے دیگر ہم وطنوں کی مدد کرنی ہے۔اگر اب بھی سجدے میں شہید ہونے والے افراد اور کمسنی میں مرجھانے والے پھولوں کی قربانی ہمارے مردہ ضمیر کو زندہ کرنے کے لیے نا کافی ہے تو ہمیں دہشت گردی کے عذاب سے کبھی نجات نہیں مل سکے گی۔
Javeria Siddique writes for Jang
Twitter @javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10665#sthash.M2F0pLOK.dpuf

Posted in ArmyPublicSchool, Pakistan

پشاور میں قیامت صغریٰ

  Posted On Tuesday, December 16, 2014   ………جویریہ صدیق………
پشاور میں 16دسمبر کی صبح کتنی ہی ماؤں نے اپنے جگر گوشوں کو اٹھایا ہوگا کہ بیٹا اٹھ جاؤ ہاتھ منہ دھو لو، میں ناشتہ بنا رہی ہوں اور کتنے ہی بچوں نے نرم گرم بستر کو چھوڑنے سے انکار کیا ہوگا۔ سردیوں کی صبح اٹھنا کتنا مشکل ہوتا ہے نا؟؟ بہت سے ماؤں نے پیار سے ناشتہ بستر میں ہی اپنے بچوں کو کروا دیا ہوگا۔ اپنے ہاتھ سے نوالے کھلائے ہوں گے۔ کتنے ہی بچوں نے ناشتہ نہ کرنے کی ضد کی ہوگی لیکن مامتا کے آگے کون جیت سکتا ہے؟ کسی ماں نے اپنے لال کو پراٹھا انڈا کھلایا ہوگا کسی ماں نے جیم بریڈ اور چائے کسی بچے نے صبح توس کھانے کی فرمائش کی ہوگی، کسی نے کہا ہوگا امی مجھے صرف دودھ چاہیے اور کچھ نہیں۔ یوں ضد لاڈ میں بچے تیار ہوئے ہوں گے۔ماؤں نے اجلے یونیفارم خود پہنائے ہوں گے، موزے جوتے بھی۔ کچھ بچوں نے کہا ہوگا کہ امی میں اب بڑا ہوگیا ہوں میں خود پہن سکتا ہوں، آپ کیوں میرے کام کرتی ہیں۔ لیکن ماؤں نے پھر بھی مامتا سے مجبور سارے کام خود کیے ہوں گے۔ کچھ بچےجنہوں نے ابھی نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہوگا امی سے چھپ کر جیل کر لگا کر ہیر اسٹائل بھی بنا یا ہوگا لیکن امی نے تو آکر اس ہیئر اسٹائل پر اونی ٹوپی رکھ دی ہوگی کہ بیٹا باہر بہت ٹھنڈ ہے، بنا ٹوپی کے باہر مت جانا۔ بچوں کی تیاری کے دوران ماؤں نے بہت سارے ٹفن لنچ بکس بھی تیار کیے ہوں گے، گرما گرم پراٹھے، کباب، بریڈ، آملیٹ اور کیا نعمت نہیں، اس چھوٹے سے ڈبے میں چپس، کیچپ، سوسج، مفن کیا نہیں۔کتنے ہی بچوں نے اپنے والد سےبھی پیسے نکلوائے ہوں گے کہ کینٹین سے بھی چیزیں کھائیں گے اور دوستوں بھی کھلائیں گے۔
کوئی بچہ اسکول وین میں گیا ہوگا تو کوئی اسکول بس میں، کوئی ڈرائیور کے ساتھ تو کسی نے ماں باپ کے ساتھ درس گاہ کا رخ کیا ہوگا۔ ماؤں نے کتنی دیر ہاتھ ہلا ہلا کر اپنے بچوں کو خداحافظ کہا ہوگا، جب تک وہ اوجھل نہیں ہوا ہوگا، ماں کا ہاتھ رکا نہیں ہوگا۔ کتنی دعائیں کرکے اسکول بھیجا ہوگا کیونکہ آج تو اسکول میں پیپر تھا۔ کتنے ہی باپ بھی اپنے بچوں کی کامیابی کے لیے دعاگو رہے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ میرے بچے کو امتحان میں سرخرو کرنا۔ زندگی معمول کے مطابق تھی، بچے مسکول میں، مائیں اپنے گھروں میں اور والد اپنے اپنے دفاتر میں۔ مائیں تو بچوں کے لیے دوپہر کا کھانا بنانے میں مصروف اور سوچتی ہوں گی جب میرا بیٹا میرالال واپس آئے گا تو اس کا من پسند کھانا کھلاؤں گی،لیکن یہ دن تو شروع ہی ہوا تھا قیامت صغریٰ میں تبدیل ہونے کے لیے۔ بچے اپنی اپنی کلاسوں میں امتحان دینے میں مشغول تھے کہ اچانک دہشت گردوں نے اسکول پر حملہ کردیا، ڈیڑھ ہزار نہتے طالب علم اوران کے نہتے110اساتذہ اس صورتحال کے لیے تیا ر نہیں تھے،لیکن پھر بھی اساتذہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ بچوں کو بچایا جائے۔والدین کے بعد دنیا کا سب سے مقدس رشتہ اساتذہ کا ہے، کتنے ہی اساتذہ نے دہشت گردوں سے کہا ہوگا کہ ان کے شاگردوں کو کچھ مت کہا جائے لیکن دہشت گرد کہاں انسانیت کی زبان جانتے ہیں۔ انہوں نے اندھا دھند بچوں اور اساتذہ پر فائر کھول دیا۔
جس وقت گھروں میں مائیں اپنے بچوں کے لیے انواع واقسام کے کھانے بنا رہی تھیں اس وقت دہشت گرد چن چن کر ان کے بچوں کو گولیوں سے چھلنی کررہے تھے۔ بچوں کے اجلے یونیفارم خون کے لال رنگ سے رنگے گئے، ان کی کتابیں بستے سب دہشت گرد اپنے پاؤں تلے روندتے گئے اور مزید لوگوں کو نشانہ بنانے نکل گئے۔ جب یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی تو مائیں گھروں سے نکلیں۔شفقت سے بھرپور باپ دفاتر کاروباری مراکز سے بھاگے کہ اپنے جگر گوشوں کو بچائیں لیکن ان کے بچے تو دہشت گردوں نے یرغمال بنا لیے تھے۔ پاک آرمی نے آپریشن کا آغاز کیا، بچوں اور اساتذہ کو دہشت گردوں کے چنگل سے چھڑوانے کا آغاز کیا۔ اب تک بیشتر بچوں اور اساتذہ کو بحفاظت نکال لیا گیالیکن بہت سے ذی روح جان کی بازی ہار گئے۔ مائیں بلکتی رہیں اور اسکول سے لاشیں نکلتی رہیں،وہ جو خواب ان بچوں نے دیکھے تھے وہ سب چکنا چور ہوگئے، جو امیدیں والدین کی تھیں وہ بھی ایک گولی کی وجہ سے ختم ہوگئیں۔
پورا پشاور خون میں نہا گیا، وہ بھی ننھے منے پھولوں کےخون سے۔وہ پھول جو بنا کھلے مرجھا گئے۔وہ پھول جنہوں نے ابھی پائلٹ، ڈاکٹر، صحافی، سیاستدان، انجینئر، فوجی، بینکار بن کر اس ملک کی باگ ڈور کو سنبھالنا تھا۔ وہ بچے جن کی ماؤں نے ان کے سہرے کے پھول دیکھنے تھے سب منوں مٹی تلے جا سوئے۔ جس ماں نے نو مہینے اپنی کھوکھ میں رکھ کر پیدا کیا راتوں کو جاگ جاگ کر اپنے بچوں کو بڑا کیا، آج وہ یہ رات ان کے بنا کیسے گزاریں گے، اس کا جواب کون دے گا؟والدین اسپتالوں میں اپنے بچوں کو دیوانہ وار ڈھونڈتے رہے اور اس وقت بچوں کی کراہنے کی آوازیں اور لواحقین کی آہ و زاری کی وجہ سے قیامت کا سماں ہےلیکن اب بھی قوم کے حوصلے بلند ہیں۔ بچوں کی لاشیں وصول کرتے وقت بھی والدین کہتے رہے ہمیں اپنے بچوں کی شہادت پر فخر ہے اور حکومت اور پاک فوج چن چن کر ان دہشت گردوں کا خاتمہ کرے۔
سوشل میڈیا پر بھی عوام غم و حسرت کی تصویر نظر آئے اور پل پل اس واقعے کی مذمت کرتے رہے اور آنسو بہاتے رہے۔ آج ساری قوم متحد نظر آرہی ہے، اسی جذبے کے ساتھ ہم دہشت گردی کو شکست دے سکتے ہیں۔ جن ماؤں کے جگر گوشے چلے گئے وہ کبھی واپس نہیں آسکتے اور کوئی ان کے غم کا مداوا نہیں کرسکتا لیکن حکومت اور فوج مل کر بیٹھے اورحکمت عملی تیار کرے کہ آئندہ اس طرح کے واقعات کا سدباب کیسے کرنا ہے تاکہ کسی اور ماں کی گو د نہ اجڑے اور کوئی بھی بچہ اس صورتحال کا سامنا نہ کرے جس دہشت بربریت اور ظلم کے نشانہ بچے آج بنے۔
ظلم کی وہ داستاں کہ کانپے قلم جو ہو رقم
روحوں کے وہ زخم جو لفظوں سے بھر نہ پائیں گے
جو نگاہیں خامشی سے راہ ہماری دیکھتی ہیں
جان لو پتھر اگیں گر وہ ہماری آس ہیں
خون سے رنگے ہوئے ان منظروں کو دیکھتے
تو کیا ہمارا روپ ہوگا مختلف قاتل سے پھر
آنے والی نسل جب تاریخ کے اوراق پر
کاغذ کے منہ پہ خود پڑھے گی سب لکھا اس طور سے
تو کیا گوارہ وہ کرے گی شکل ہماری دیکھنا

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10446#sthash.1cGsGD6V.dpuf

Posted in Uncategorized

لہو لہان جنوری

January 27, 2014   …جویریہ صدیق…
نئے سال پر یہ امید رکھی جاتی ہے کے آنے والا سال خوشیوں کی شنید لے کر آئے گا اور دو ہزار چودہ کے حوالے سے ہم پاکستانیوں کی بھی یہ امید تھی۔لیکن اس کے برعکس چڑھتے سال کے سورج کی کرنوں سے منور ہونے کے بجائے پاکستان ایک بار پر خون سے نہلا دیا گیا۔

26 جنوری کو دستی بم کے حملے میں ہنگو میں چھ بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کراچی میں دس افراد جان سے گئے۔

25 جنوری کو کراچی میں دو بم دھماکوں کے نتیجے میں سات پولیس اہلکار سمیت اٹھارہ لوگ جان بحق ہوئے۔

24 جنوری کو کراچی سمیت مختلف شہروں میں پنتالیس کریکر دھماکے ہوئے اور چار افراد جاں بحق ہوئے۔

23 تاریخ کو پشاور میں ورکشاپ میں کار بم دھماکہ ہوا جس میں سات افراد جان سے گئے اور بارہ زخمی ہوگئے۔

22 جنوری کو مستونگ میں چھ سیکورٹی اہلکار جان بحق ہوئے اور چار سدہ میں انسداد پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس وین کو دھماکے میں اڑا دیا گیا جس کے نتیجے میں ایک بچے سمیت چھ اہلکار مارے گئے اور گیارہ افراد زخمی ہوئے۔

21 جنوری کو مستونگ میں بس پر خود کش حملہ ہوا جس کے نتیجے میں چوبیس زائرین جان بحق اورپینتس زخمی اور اکیس جنوری کو کراچی میں انسداد پولیو کے تین اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

20 جنوری کو جی ایچ کیو کے قریب خودکش حملے میں آٹھ اہلکار سیمت تیرہ افراد آر اے بازار میں اپنی جان سے گئے۔

19جنوری کو بنوں میں بم دھماکے کے نتیجے میں بایس ایف سی اہلکار شہید اور تیس زخمی

18جنوری کو کراچی میں بم حملے میں دو شہری جاں بحق

17جنوری کو میڈیا اور علماء پرحملے میں نو افراد جاں کی بازی پر ہار گئے

16جنوری کو پشاور تبلیغی مرکز میں دھماکہ آٹھ نمازی شہید، ساٹھ افراد زخمی ہوگئے۔

15جنوری کو نوابشاہ میں اسکول کی بس ڈمپر سے ٹکراگی طلباء طالبات سمیت اکیس افراد جان سے گئے جبکہ کراچی میں فائرنگ کے واقعات میں آٹھ افراد جان سے گئے۔

12جنوری کو شانگلہ کے مقام پر وزیراعظم کے مشیر امیر مقام کے قافلے پر حملہ ہوا اور چھ ا فراد جاں بحق ہوگئے۔

9 جنوری کو سی آئی ڈی کے ایس پی چوہدری اسلم خودکش حملے میں شہید ہوگئے۔

8 جنوری کو مری میں دو بسیس کھائی میں جا گریں جس کے نتیجے میں پندرہ افراد ہلاک اور چونتیس زخمی ہوگئے۔

6 جنوری کو ہنگو میں اعتزاز نامی طالب علم نے اسکول پر خود کش حملے کو ناکام بنا کر جام شہادت نوش کیا۔

5 جنوری کو کراچی میں دس افراد نے جان کی بازی ہاری۔

2 جنوری کو کوئٹہ میں خودکش حملے میں پانچ افراد جان جاں بحق اور تیس زخمی

دہشت گردی نے پاکستانیوں کی کمر توڑ رکھی ہے صرف تحریک طالبان پاکستان ہی نہیں اور بھی بہت سے خفیہ ہاتھ اس میں ملوث ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ دوسروں کے لیے لڑتے لڑتے آج پاکستان خود اس آگ کی لپیٹ میں آگیا ہے اور پاکستانی اس آگ میں جھلس رہے ہیں۔ میرا آپ سب سے سوال ہے اس صورتحال میں مذاکرات زیادہ اہم ہیں یا پھر ایک ایسا موثر آپریشن جس سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جاسکے؟۔اوپر ذکر کیے گیے اعدادوشمار تو صرف اس سال جنوری کے ہیں جن میں پاکستانیوں نے کس طرح خودکش حملوں، بم دھماکوں اور حادثات میں جان گنوائی لیکن اگر نائن الیون کے بعد سے پاکستانیوں کے نقصانات نا قابل شمار ہیں، پچاس ہزار سے زائد پاکستانی اپنی جان اور مال سے گئے۔کیا آپ سب کو نہہں لگتا کہ ہم سب پاکستانیوں کا بھی یہ حق ہے کہ ہم پر امن زندگی گزاریں ہمیں تعلیم، صحت ،روٹی،کپڑا اور مکان جیسی بنیادی سہولیات میسر ہو۔ایک ایسا دیس ہو جہاں کوئی بھی حکمران صرف ایک دھمکی پر پورے ملک کو ایک پرائی جنگ میں نا جھونک ڈالے بلکہ وہ صرف روشن پاکستان کی بات کرے۔کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ ہم پاکستان کے تمام علاقوں سے دہشت گردوں اور شورش برپا کرنے والوں دہشت گردوں، علحیدگی پسندوں کا خاتمہ کردیں۔ میں آپ سب کی آرا کی منتظر ہوں اور دیکھنا یہ ہے پاکستان کے مسائل کا حل حکومت کے طرف سے مذاکرات سے نکل آئے گا یا پھر آپریشن کیا جائے گا؟

Javeria Siddique is a Journalist and Award winning photographer. Contact at https://twitter.com/javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9530#sthash.kFPyI01H.dpuf