Posted in Uncategorized

رمضان المبارک اور شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز

July 08, 2014   …….جویریہ صدیق..

.….ماہ رمضان سب مہینوں میں افضل ہے اور اس میں کی جانے والی عبادت کا ثواب باقی تمام ایام سے زیادہ ہے۔ یہ مہینہ صبر کا درس ساتھ لیے آتا ہے۔اس ماہ کا مقصد صرف بھوکا پیاسا رہنا نہیں ہے بلکہ اس ماہ کا مقصد ایثار قربانی اخوت اور صبر کو عام کرنا ہے۔ پاکستان میں اس مہینے کے آغاز سے ہی عبادات اور سحر و افطار کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ خواتین کی بڑی تعداد مختلف پکوان تیار کرتی ہیں تاکہ روزہ افطار کرتے ہوے یا سحری میں کسی قسم کا کمی نہ ہو۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی، عزیز اقارب کو بھی دعوت افطار پر بلایا جاتا ہے جس میں انواع اقسام کے کھانے موجود ہوتے ہیں۔ہم سب اس اہتمام میں ان لوگوں کو یکسر فراموش کرجاتے ہیں جن کے پاس ایک وقت کھانے کے لیے بھی پیسے بھی نہیں ۔ایسے مستحق افراد ہمارے اردگرد موجود ہیں اور ان میں سے تمام لوگ سوال یا شکوہ بھی نہیں کرتے۔میں صرف ان کی بات نہیں کر رہی جو سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں، میں ان بات کر رہی ہوں جو کہ ہمارے رشتہ داروں، محلے داروں اور ساتھ کام کرنے والوں میں شامل ہیں۔ سفید پوشی کے بھرم کے باعث وہ کسی سے مدد بھی نہیں مانگ سکتے اور فاقے کرنے پر مجبور ہیں۔ہم سب پر فرض ہے کہ اپنے لیے خریداری کرتے ہوئے ہمیں ان کے لیے بھی اناج اور دیگر اشیاء ضرورت خرید لینی چاہئیں۔اس کے ساتھ مالی مدد بھی ایسے کی جائے کہ ان کو شرمندگی نہ ہو، تحفے کی صورت میں ہم مستحق لوگوں کی مدد آرام سے کرسکتے ہیں۔

اس وقت ملک میں آپریشن ضرب عضب جاری ہے۔شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف لڑے جانے والے آپریشن کی وجہ سے بہت سے پاکستانی بہن بھائی اپنے گھروں سے بے دخل ہو کر اب بنوں میں پناہ گزین ہیں۔ اندرون ملک بے دخل ہونے والے افراد جن کو عرف عام میں آئی ڈی پیز کہا جاتا ہے۔اس وقت ساڑھے 7لاکھ 52ہزار 320سے زائد افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہیں، بے سروسامانی کے عالم میں طویل سفر پیدل کرکے دوسرے علاقوں کا رخ کر رہے ہیں۔ اس وقت شدید گرمی اور رمضان میں نقل مکانی کرنے والے شمالی وزیرستان کے ہمارے بہن بھائی کرب میں مبتلا ہیں۔ نہ سر چھپانے کے لیے چھت ہے، نہ ہی کھانے کے لیے راشن ہے، بیماروں کے لیے نہ ہی ادویات ہیں، نہ ہی بچوں کے دودھ، خواتین کے لیے نہ ہی مناسب پردے کا نظام ہے اور نہ ہی بیت الخلا کی سہولت موجود ہے۔ حکومت اور آرمی ورلڈ، فورڈ پروگرام دیگر ادارے اس وقت امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔ بنوں میں پناہ گزینوں میں راشن اور پینے کا پانی تقسیم کیا جارہا ہے جوکہ 7لاکھ افراد کے آگے بہت حد تک نا کافی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 3لاکھ سے زائد آئی ڈی پیز بچے بھی اس وقت بنوں میں بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔پاک آرمی اور حکومت پاکستان نے ان بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے تو پلوا دئے ہیں تاہم اب بھی بہت سے خطرات ان بچوں کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔ جن میں قحط،بھوک،پیٹ کی بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ با پردہ خواتین کو اس وقت مناسب لباس کی ضرورت ہے، حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کو مناسب غذا اور معالجین کی ضرورت ہے۔

اس وقت ہم سب پر یہ فرض بنتا ہے کہ ماہ رمضان میں اپنے بہن بھائیوں کی مدد کریں، کیا ہم 18کروڑ مل کر بھی 7لاکھ نقل مکانی کرنے والے بہن بھائیوں کی مشکل کی گھڑی میں مدد نہیں کرسکتے؟کیا اپنے دسترخوان سے ایک ایک پکوان اٹھا کر اپنے بہن بھائیوں کو نہیں دے سکتے ؟افطاریوں اور عید کے لیے بنایے جانے والے ملبوسات میں سے کیا ہم اپنی با پردہ بہنوں کو کچھ نہیں دے سکتے جو اس وقت ایک چادر اور برقعے سے محروم ہیں؟ ہمیں اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ ان بچوں کا بھی سوچنا ہوگا جو اپنے کشادہ گھروں کو چھوڑ کر آج خیموں میں پناہ گزین ہیں۔ کیا اس بار ہم اپنی رمضان اور عید کی خوشیاں بنوں اور بکا خیل میں پناہ گزینوں کے ساتھ مل کر نہیں منا سکتے۔ اگر ہم سب نے قطرہ قطرہ بھی اپنا حصہ ڈالا تو یہ ہی قطرے نیکیوں اور خوشیوں کا سمندر بن جائیں گے اور ہماری قبائیلی بہن بھائیوں کے دکھوں کا مداوا ہوجائے گا۔

Javeria Siddique is a Journalist and Photographer works for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/javerias  

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9966#sthash.PVjpjP72.dpuf