خسرہ ایک ایسی معتدی بیماری ہے جس کی وجہ سے ہر سال پاکستان میں سینکڑوں بچے اپنی جانسے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔
خسرہ کا وایرس بذریعہ سانس ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوجاتا ہے۔اس بیماری کا شکار زیادہ تر نو ماہ سے پانچ سال کی عمر کے بچے ہوتے ہیں۔ اسبیماری کا شکار وہ ہی بچے ہوتے ہیں جن کے والدین ان کو حفاظتی ٹیکہ جات کا کورس نہیںکرواتے۔
اس بیماری کی ابتدایی علامتوں میں بچوں کو تیز بخار ،آنکھوں سے پانی بہنا،کھانسی اور منہ کےاندر سفید دانے نکل آنا شامل ہے اگر اس کا فوری علاج نا شروع کیا جایے تو چار سے پانچ دن کےدوران بچوں کے جسم پر سرخ دانے نکل آتے ہیں اور موت واقع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔۔ جو بچہ بھی خسرہ میں مبتلا ہو اس کو دیگر بچوں سے الگ کر دینا چاہیے کیونکہ سانس لینے ، چھیکنے اور کھاسنے سے یہ مرض فوری طور پر دوسروں کو منتقل ہوجاتا ہے۔ اگر فوری علاج شروع کردیا جایے تو ایک ہفتے میں بچہ دوبارہ محت مند ہوجاتا ہے۔ نوزاییدہ بچے کو نو ماہ کی عمر میں خسرہسے بچاو کے لیے پہلا ٹیکہ لگایا جاتا ہے اور دوسرا ٹیکہ ڈیرھ سال کی عمر کے بعد تاکہ بچے کو خسرہ سے محفوظ رہنے کے لیے قوت معدافت فرایم کی جاسکے ۔اگر والدین بچوں کو یہ کورس کروالیں تو بچے خسرے سے محفوظ رہتے ہیں۔
لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں والدین پولیو ویکسین کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور رہی سہی کسر شکیل آفریدی کا ہیلتھ ورکر کے بھیس میں جاسوسی کرنا جیسے واقعات پوری کردیتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ کچھ صحت کے مراکز میں جعلی اور زاید المعیاد ویکسن بھی بچوں کو موت میں دھکیل دیتی ہے۔
دنیا بھر میں خسرہ کے کیسسز میں ستر فیصد کمی آچکی ہے لیکن پاکستان ان پانچ ممالک کی فہرست میں شامل ہے جن میں بچے خسرہ کی پہلی ویکسن سے محروم رہ جاتے ہیں اس ہی وجہ سے پاکستان میں یہ بیماری بڑی تعداد میں وبا کی صورت میں پھیل رہا ہے۔اس مرض نے وبایی صورت سندھ میں اختیار کی اور اس کے بعد یہ بلوچستان ، خیبر پختون خواہ ،فاٹا اور پنچاب تک پھیل چکی ہے۔اگر پاکستان میں خسرہ سے اموات کی شرح دیکھی جایے تو اس سال خسرہ کی وجہ بیس بچےسے اپنی جان سے گیے اور پندرہ سو سے زاید متاثر ہویے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو رپورٹ ہویے جو ہلاکتیں اندورن سندھ صحراوں میں ہویی یا بلوچستان اور فاٹا کی سنگلاخ کی چٹانوں میں ان کا تو ڈیٹا تو دستیاب ہی نہیں ہے۔
حال ہی میں پندرہ می سے پاکستان کے تین صوبوں میں انسداد خسرہ مہم چلایی گی جوکہ دو ہفتے تک جاری رہی لیکن خیبر پختون خواہ میں جعلی ویکسن کی وجہ سے پچپن بچے ہسپتال میں پہنچ گیے۔جن میں سے اب تک سات بچے دم توڑ چکے ہیں۔کتنے افسوس کا مقام ہے جس ملک میں سالانہ سات لاکھ بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جن کی بڑی وجہ معتدی بیماریاں ہی ہیں ان کو ویکسین بھی ملے توجعلی ملے۔ پاکستان میں پہلے ہی والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ویکسن میں کچھ ایسے اجزا شامل ہیں جس سے ان کی اگلی نسل بانجھ ہو جایے گی وہاں حکومت اگر بچوں کو جعلی یا زاید المیاد ویکسین لگا دے گی تو والدین کا رہا سہا اعتماد بھی ویکسینشن سے ختم ہوجایے گا۔خیبر پختون خواہ کی حکومت پر بھاری ذمہ داری وہ ذمہ داروں کے خلاف قرار واقعی کاروایی کریں۔سات بے گنا ہ بچوں کے خون کی ذمہ داری محکمہ صحت خیبر پختون خواہ ہر عاید ہوتی ہے اور مجرموں کو سزا دینا حکومت کا فرض ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں روزانہ گیارہ سو بچے ان بیماریوں کی وجہ سے موت کی منہ میں چلے جاتی ہیں جن کا علاج بلکل ممکن ہے۔اگر پاکستان میں موثر طریقے سے ویکسن کی خریداری ہو اور بعد میں موثر طریقے سے انسداد پولیو مہم چلایی جایے تب ہی معصوم بچوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جاسکتا ہے۔عالمی ادﺍرے کے مطابق پاکستان میں خسرے کے پھیلاو کی وجہ سے مسلسل چار سال سے آنے والے سیلاب ، غذایی قلت اور لوڈشیڈنگ ہے۔
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اٹھارہ کروڑ افراد پر مشتمل اس ملک میں صحت کے بجٹ میں اضافہ کیا جایے اور وفاق سنجیدگی ساتھ صوبوں کو درپیش صحت کے مسایل حل کرنے میں معاونت کرے تاکہ قوم کے نونہالوں کو محفوظ مستقبل دیا جاسکے۔والدین کا بھی یہ فرض ہے وہ بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا مکمل
کورس کروایں تاکہ یہ بچے اپنی زندگی محت مندانہ طریقے سے گزار سکیں۔