Posted in Uncategorized

سیل کا بخار

blog

سیل کا بخار
Posted On Saturday, November 28, 2015
…..جویریہ صدیق…..
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو ہزاروں بار شیئر ہوچکی ہے، جس میںخواتین کے کپڑوں کے ایک اسٹور پر کچھ خواتین سیل کے دوران آپس میں گتھم گتھا ہیں اور ایک دوسرے کے ہاتھوں سے کپڑے چھین رہی ہیں، اب یہ کوئی اتوار بازار نہیں تھا نا ہی لنڈا بازار یہ ایک پوش ایریا میں ایک مہنگے کپڑوں کی دکان ہے، یہاں پر لڑنے والی خواتین وہ ہیں جو چار ہزار کی ڈیزائنر قمیض افورڈ کرسکتی ہیں، باقی تھری پیس سوٹ تو پانچ سے آٹھ ہزار میں شروع ہوتے ہیں ان کی کیا بات کریں بس رہنے دیں۔ لڑائی کرنے والی خواتین متمول گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں،اس سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ لازمی نہیں جس کے پاس پیسہ ہو اس کے پاس اخلاقیات بھی ہو،غریب اور غریبی تو خواہ مخواہ بدنام ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ خواتین اتنی بے صبری کیوں ہورہی تھیں، تو جی اب خواتین میں ایک فیشن چل پڑا ہے کہ ڈیزائنر کی مہنگی لان مہنگی کاٹن پہنی ہے تاکہ سب کو مرعوب کیا جائے کہ دیکھو چار ہزار کی قمیض لینا تو ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے،کبھی کبھار اس طرح کے مہنگے ڈیزائنر برینڈز سیل بھی لگا دیتے ہیں تو خواتین کی بڑی تعداد سیل سے کپڑے خریدنے کی خواہاں ہوتی ہے کہ مہنگے کپڑے سستے داموں مل جائیں گے۔

لیکن پاکستان کے مختلف کپڑوں کے برینڈ جب بھی سیل لگاتے ہیں تو اسے دیکھ کر انسان ان کی چالاکی کو داد دیے بنا نہیں رہ سکتا یا تو صرف ان چند جوڑوں پر سیل ہوتی ہے جو پورے سیزن خریداروں کو کم پسند آئے ہوںیا صرف ایسے سائز پر سیل ہوتی ہے جو عام طور پر خواتین کا سائز کم ہی ہوتا ہے یا تو ایکسٹرا سمال یا پھر ایکسٹرا لارج سائز۔ سیل میں سے اسمال یا میڈیم سائز ڈھونڈ لینا ایک بڑی کامیابی تصور کی جاتی ہے۔

اب لمیٹڈ اسٹاک پر سیل لگانا اور اچھے جوڑے کی تلاش میں خواتین کا باہم دست و گریبان ہونے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے یہ سوال میں آپ پر چھوڑتی ہوں، صارف کے بھی کچھ حقوق ہیں انہیں اچھا جوڑا مناسب دام میں ملنا چاہیے لیکن اب تو لان کاٹن کے جوڑے متوسط طبقے کی پہنچ سے نکل گئے۔

ایک بیس ہزار کمانے والا شخص اپنی بیوی کو پانچ ہزار کا تھری پیس لان کا جوڑا خرید کر نہیں دے سکتانا ہی چار ہزار کی پرٹ قمیض افورڈ کرسکتا ہے.خواتین ضد کرتی ہیں اس لئے اب رپلیکا مارکیٹ بھی خوب پھیل رہی ہے.رپلیکا یعنی اصل ڈیزائن کی نقل،وہ بھی کوئی کم قیمت نہیں اصل جوڑا 4000 کا اس کی نقل 2500 کی۔بات وہ ہی ہے کہ متوسط طبقے اس کپڑے کی ریس سے پھر بھی باہر ہے۔

جب بڑے بڑے ڈیزائنر سیل بھی آفر کرتے ہیں تو وہ کچھ یوں ہوتی ہے 7999 والا جوڑا 6999 میں حاصل کریں ہماری سیل سے کیا مذاق ہے یہ خریدار کے ساتھ، جن کی وجہ سے یہ برینڈ چل رہا ہے سیل میں آپ صرف انہیں اعداد وشمار میں الجھا کر بے وقوف بنا رہے ہیں، کبھی پچاس فیصد رعایتی سیل بھی لگ جاتی ہے.اس میں جو دھکم پیل ہوتی ہےاس کا نظارہ بہت سے لوگوں نے دیکھ لیا ہے،کل جو بھی ہوا وہ بہت افسوس ناک ہے.خواتین کو ان مادی چیزوں کے پچھے اتنا بھی بھاگنا نہیں چاہیے، بہت سی خواتین کو یہ احساس کرنا کہ مرد کتنی مشکل سے کما کر لاتے ہیں اور آپ اس سیزن کا جوڑا دوسرے سیزن میں نہیں پہنتی۔

میں یہ نہیں کہتی کہ خواتین فیشن کرنا چھوڑ دیں یا خریداری کرنا بند کردیں لیکن خریداری اور فیشن کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں،لائن کی پاپندی کریں ،اسٹور میں کام کرنے والے ملازمین کو تنگ نا کریں ان کی تضحیک نا کریں،جتنے کپڑے خریدنے ہیں صرف اتنے نکلوایں، اعتدال پسندی کے ساتھ خریداری کریں اگر ایک جوڑا مہنگا لئے لیا ہے تو دوسرا کم قیمت خرید لیں،باقی بچ جانے والے پیسوں سے کسی غریب رشتہ دار کی مالی مدد کردیں۔

خواتین سے گزارش ہے کپڑوں کی دنیا سے باہر آئیں اور بھی بہت کچھ ہے اس دنیا میں آپ کے کپڑوں کی خریداری کے علاوہ ایک قمیض کے لئے دوسری خواتین پر حملہ کرنا صرف چند سو روپے قیمت میں کمی کی خاطر ایک دوسرے کو مارنا بہت ہی افسوناک ہے، ڈیزائنر جوڑے سے آپ کی شخصیت میں نکھار نہیں آئے گا صرف تعلیم اور اخلاقیات آپ کو دوسروں کی نظر ممتاز بنا سکتی ہے۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Twitter @javerias

 

 

Author:

Journalist writes for Turkish Radio & Television Corporation . Photographer specialized in street and landscape photography Twitter @javerias fb: : https://www.facebook.com/OfficialJaverias

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s