|
Posted On Monday, March 16, 2015 ……جویریہ صدیق…..
لاہور میں یوحنا آباد کے کرائسٹ اور کیتھولک گرجا گھروں پر دو خود کش دھماکوں کے نتیجے میں15 افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے جبکہ متعدد زخمی ہیں۔ دھماکے کے بعد ہر طرف خوف و ہراس اور بھگدڑ مچ گئی۔جاں بحق افراد میں ایک خاتون ، دو بچے اور دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔گرجا گھروں میں دعائیہ سروس جاری تھی کہ خود کش حملہ آوروں نے مرکزی گیٹ سے اندر داخل ہونے کی کوشش کی ۔تاہم گارڈ اور رضا کارکی مزاحمت پر وہ چرچ میں داخل نا ہوسکے تو انہوں نے فائرنگ شروع کردی اور مرکزی دروازے پر ہی خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ ۔بم دھماکے اور فائرنگ کے نتیجے میں 15 افراد جاں بحق اور70سے زائد زخمی ہوگئے۔واقعے کی اطلاع ملتے ہی اہل علاقہ مشتعل ہوگئے، انہوں نے دو مشکوک افراد کو پکڑ کر مارا پیٹا اور بعد ازاں انہیں نذر آتش کردیا۔غصہ صرف یہاں ہی ختم نہیں ہوا تین پولیس اہلکاروں کو پکڑ کر زدوکوب کیا ، سڑکوں پر گھسیٹا اور بعد میں انہیں ایک دوکان میں گھنٹوں بند رکھا۔اس کے بعد مشتعل ہجوم نے گجومتہ میں میٹرو بس ٹریک کو نقصان پہنچایا اور لوٹ مار کی ۔
دوسری طرف صوبائی حکومت نے بھی امدادی کاموں میں سستی دکھائی جس نےاور جلتی پر تیل کا کام کیا۔یوحنا آباد سے زخمیوں کو عوام خود ہی اپنی مدد آپ کے تحت اسپتال پہنچایا۔یوں تو پاکستان میں مسیحی برادری بہت پرامن ہے لیکن یوحنا آباد میں مسیحی بھائیوں کا احتجاج پرتشدد ہوگیا۔اگر ان تمام واقعات کے فوٹیج کو غور سے دیکھا جائے تو ہجوم کا حصہ نوجوانوں اور بچوں پر مشتمل تھا۔جس وقت جائے وقوعہ سے پکڑے جانے والے مشکوک شخص کو مارا جارہا تھا تو ادھیڑ عمر افراد کے ساتھ سات سے آٹھ سال کے بچے بھی اس شخص کو مار رہے تھے ۔جب مشکوک شخص کو جلایا گیا تب بھی نوجوان اور بچے اس ہجوم میں پیش پیش تھے۔ اس کے علاوہ اگر میٹرو ٹریک پر ہنگامہ آرائی کرنے والے نوجوانوں کی عمریں بھی15 سے18 سال تھیں۔یہ ہجوم اشتعال میں دو افراد کو جلا گیا۔پولیس پر تشدد کرتا رہا اور اس ہجوم نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔جس طرح خود کش حملہ بدترین دہشت گردی ہے اس ہی طرح یہ ہنگامہ آرائی اور لوگوں کو جلا دینا بھی دہشت گردی کے ہی زمرے میں آتا ہے۔
ماہر نفسیات رابعہ منظور کے مطابق اس ہجوم کی نفسیات کے پیچھے بہت سے عوامل کار فرما ہیں ۔بم دھماکے میں بہت سے لوگوں کا ایک دم جان سے چلے جانا کچھ لوگوں کو بہت افسردہ اور کچھ کو بہت اشتعال دلا جاتا ہے۔جس ہجوم نے آج دو افراد کو جلایا ، پولیس کو زدوکوب کیا اور توڑ پھوڑ کی وہ بہت زیادہ غصے ،اشتعال اور مایوسی کا شکار تھے۔ مسیحی برادری پر حملے نئے نہیں ،پشاور میں چرچ پر حملہ میں85 افراد کا جاں بحق ہونا، کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلا دینا ،سانحہ گوجرہ، مشنری اسکول پر حملے ،شہباز بھٹی کا قتل ، لاہورجوزف کالونی میں100سے زائد مسیحی افراد کے گھر جلا دئیے گئے، یہ سب ان واقعات کا ردعمل ہے کیونکہ کسی بھی معاملے میں انصاف نہیں ملا۔جب انصاف نا ملے تو لوگ ہجوم کے ذریعے سے انصاف لینے کی کوشش کرتے ہیں جو بہت خطرناک ہے اور معاشرتی اقدار کے منافی ہے۔
رابعہ منظور نے کہا اس واقعے میں کم عمر بچے بھی پرتشدد ہجوم کا حصہ تھے۔بچے عام طور پر جلدی اشتعال میں آجاتے ہیں اور اپنے غصے و جذبات کا اظہار انہوں نے اس طریقے سے کیا کہ سرکاری املاک پر حملے کرتے رہے۔ اگر قانون نفاذ کرنے والے ادارے اور امدای کارکن فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ جاتے تو یہ صورت حال نا ہوتی ۔ ان کے مطابق بچے اپنی کم عمری جذباتی طبیعت اور نا سمجھی کے باعث ایسے واقعات کا حصہ بن جاتے ہیں۔کسی بھی سانحے کے بعد بدلہ یا انتقام کی آگ ان واقعات کا سبب بن جاتی ہے۔
یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کے شعبہ عمرانیات کے استاد ثمریز حفیظ کے مطابق اگر اس خطے کی تاریخ دیکھی جائے تو یہاں کے باشندے بہت پر امن رہے ہیں لیکن اب واقعات اور حالات نے عوام کو بہت جذباتی اور پر تشدد بنا دیا ہے۔ افغان جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ نے حالات کو یہاں یکسر تبدیل کردیا ہے۔اس کے ساتھ قانون نفاذ کرنے والے اداروں کا عوام کے ساتھ نا تعاون کرنا بھی ایسے واقعات کو جنم دیتا ہےجس میں ہجوم خود ہی منصف بن کر فیصلہ سنا دیتا ہے۔پاکستان میں پولیس کا رویہ جس میں وہ ہمیشہ انصاف کے متلاشی افراد کو تنگ ہی کرتے ہیں ان کے ساتھ بالکل بھی تعاون نہیں کرتے یہ سب عوام کو بددل کرکے قانون اور انصاف کو اپنے ہاتھوں میں لینے پر مجبور کرتا ہے۔ریاست اپنے فرایض کی ادائیگی میں مکمل ناکام ہے جب عام آدمی کو بنیادی حقوق ہی میسر نہیں، تعلیم کا فقدان ہے تو ہجوم کی صورت میں ہم عوام سے کیا امید کرسکتے ہیں۔اگر پولیس اور ریاست کا رویہ یہ ہی رہا اور لوگوں نے سڑکوں پر انصاف لینا شروع کردیا تو یہ معاشرے، نظام انصاف اور حکمرانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
ماہر نفسیات رابعہ منظور کے مطابق اگر امن امان کی صورتحال کو بہتر کیا جائے لوگوں کو انصاف بر وقت ملے تو ان واقعات کا سدباب ہوسکتا ہے ۔ اس کے ساتھ تعلیم اور بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی ہجوم کو منظم کرسکتی ہے۔ پیار ایثار اور ہمدردی سے بھی ہم معاشرے میں بھائی چارہ قائم کرسکتے ہیں۔ ہجوم کا انصاف معاشرے کے لیے بہت بھیانک ثابت ہو سکتا ہے اس لیے حکومت اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے فوری طور پر اس مسئلے کی طرف متوجہ ہوں ۔مہذب معاشرے میں ہجوم کا انصاف بالکل جگہ نہیں رکھتا۔حکومت کو چاہیے کے یوحنا آباد کے رہائشیوں کی داد رسی کرے اور ان کے علاج معالجے میں کوئی کسر نا چھوڑی جائے۔ماہرعمرانیات ثمریز حفیظ کے مطابق اس طرح کے واقعات کا سدباب تب ہی ممکن ہے جب ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے اور بنیادی انسانی حقوق عوام کا حق ہے اس لیے عوام کے تحفظ کے لیے ریاست اپنا کردار ادا کرے صرف مذمت کافی نہیں ہے۔ اقلیتوں کا تحفظ معاشرے کا فرض اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔
Javeria Siddique writes for Jang
twitter@javerias – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10747#sthash.Nkm08OXb.dpuf